ملک جان کے ڈی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مجھ سے مطابقت رکھتی ہے۔ نہ جانے یہ ان کی دوستی ہے یا سادگی لیکن وہ اکثر مجھ سے ملتی ہے۔ تو ان کے لبوں پر ایک مسکراہٹ سہی کھلتی رہتی ہے۔ اس کی ایک عادت ہے کہ گفتگو میں بہت ماہر ہے۔ جب وہ بات کرنا شروع کر دیتی ہے تو دل اکثر یہی چاہتا ہے کہ وہ صرف باتیں کرے۔ اور میں خاموشی سے سنتا رہوں اگر میں حقیقت ظاہر کروں تو اسے سننا میری مجبوری ہے۔ لیکن کبھی کبھی وہ اس طرح بات کرتی ہے کہ مجھے بہت بوریت ہوتی ہے۔ لیکن میں اسے یہ تاثر کبھی محسوس ہونے نہیں دیتا۔ کیونکہ مجھ پر بھروسا کرتی ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے میں اور وہ ایک چار پائی پر اطمینان اور خاموشی سے بیٹھے تھے کہ اچانک اس نے خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی۔ تو اس نے کہا آج میرے بوسے نہیں لو گے کیا؟ اس طرح خاموش ہو کہ میں مر گئی ہوں، تعزیت کیلیے آئے ہو؟ میں ہنس کر کہا نہیں راحتی اللہ میری عمر بھی آپ کو دے۔ میری خاموشی کا اصل سبب آپ کی رخساروں پہ لال نشان ہے۔ کیونکہ جب آپ خاموش ہوتی ہیں تو گالوں کے لال نشان اتنے خوبصورت دکھائی دیتے ہیں جتنا خوبصورت آپ کی دل ہے۔ اس خاموشی کا اصل مقصد تیرے اس نشان کو غور سے دیکھنا ہے۔ جب میں آپ کے اس نشان کو دیکھ لیتا ہوں تو مجھے طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے میں خاموش ہوں۔
لیکن آپ کہہ رہے ہے کہ میں نے آج آپ کو چھوا ابھی تک نہیں تو یہ میری مجبوری ہے۔ اصل میں آپ کی رخساروں سے آنکھ مچولی کر رہا ہوں۔ اب ایک بوسہ تو ضرور بنتا ہے۔
اسی کی آواز سے ”جان میں آپ سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ لیلیٰ نے مجنون سے نہیں کی تھی۔ شرط یہ ہے کہ محبت ایک طرفہ نہیں ہونی چاہیے تالی اکثر دونوں ہاتھوں میں بجتی ہے۔ یہ خاکی آپ کی زانوں پر قربان ہو جائے۔ “
میں آپ کو لینے کیلے ساری دنیا کے خواہشات اور آسائشوں کو چھوڑ کر تم کو حاصل کروں گا۔ یہ زندگی کتنی خوبصورت ہوتی ہے جب دل اور دنیا ایک ہو جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ دو دل حقیقی طور پر آپس مل جائیں تو اس زندگی کی خوشی دوبالا ہو جاتی ہے۔
بڑی بے التفائی سے میں جواب دیا کہ جانی یہ زندگی کی خوشیاں عیش و عشرت بغیر غم کے نہیں ملتیں۔ یہ سارے پھلجھڑی زندگی کے سرد و آرام اختراع کیلے لوگ تشنہ نظروں کی بھیڑ میں جا رہے ہیں۔ غموں کو لتاڑنا چاہیے اسے طمطراق سے دور رہنا چاہیے اس کے متغیر بعد خوشی کا مزہ لینا مزائیت کو دو بالا کر دیتا ہے۔
اس نے غنودہ آنکھوں سے دیکھ کر کہا کہ ہم بھی غموں کے سہارے زندہ ہیں۔ حتیٰ کہ غموں کی گٹھڑی ہمارے پاس موجود ہے۔ لیکن یہ غموں کی صورت کچھ مختلف ہے بقوال غالب۔
میں ہنستا ہوں لوگ سمجھتے ہیں کہ رونا ہی نہیں آتا
یہ غموں کے انبار تب مجھ پر آن گر پڑے ہیں جب تمہاری چاہت مجھے محسوس ہونے لگ جائے یا آپ مجھ سے کچھ فاصلے پہ ہو جائے یہ دوری مجھ پر عذاب لائی گئی آپ کی دوری کا غم جہنم کی آگ سے کم نہیں۔ اس کی تپش جسم پر پڑتی ہے تو راکھ ہوجاتا ہے۔ اس راکھ میں اگر مٹی بن جائے تو اس مٹی بھی آپ کی دوری سے نہیں پائے گی۔
ان کو دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ