وجاہت علی عمرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواجہ غلام فرید، باباسچل سرمست،بابا بلھے شاہ، شیکسپیئر، ارسطو اور افلاطون کی خصوصیات کے حامل سرائیکی وسیب کے عظیم دانشور، اگوان، شاعر اور ایوارڈ یافتہ سرائیکی کتابوں کے مصنف جناب سعید اختر سیال اب ہم میں نہیں رہے۔۔ آہ ! سعید اختر سیال رخصت نہیں ہوئے بلکہ وسیب کی ایک تاریخ رخصت ہو گئی، ایک عہد گزر گیا، ایک تحریک رخصت ہوگئی، سرائیکی وسیب کا ایک ہیرا آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ سعید اختر سیال کی زندگی حسن و خوبی کے رنگا رنگ پھولوں کا حسین گلدستہ تھی۔ وہ اپنی دانش، علم، فلسفہ اور شاعری کے ساتھ ساتھ اپنی نرم مزاجی، ملنساری اور خوش گفتاری کی وجہ سے ہر ملنے والے کا دل جیت لیتے تھے۔ زبان و بیان میں کوثر و تسنیم کی آمیزش کا سماں معلوم ہوتا تھا۔ فطرت نے آپ کو خوبیوں کا مرقع بنایا۔ سب کو خندہ پیشانی سے ملنے والا۔ درویشی اور فقیری اس نے اوڑھی نہیں تھی بلکہ وہ پیدا ہی ایسے ہوا تھا نہ چالاکی اور نہ دنیا داری۔ اپنی محرومیوں اور نہ رسائی کی کوئی شکایت۔ انسانی اقدار اور روایات کا حامل سرائیکی کا عظیم دانشور، نقاد، محقق اور سخن ور جوکبھی باتوں کے زریعے، کبھی نثر کے زریعے اور کبھی نظموں اور اشعارکے چراغ جلا کر تاریخ کے طاق میں رکھتا گیا۔ سرائیکی وسیب اور اپنے معاشرے کا سچا اگوان اور نمائندہ بن کر جو سوچتا گیا، دیکھتا گیا، محسوس کرتا گیا، اشعار میں ڈھالتا گیا اور لوگوں کے احساس کو جگاتا گیا اور وسیب سے محبت سکھاتا گیا۔
ازل سے اس کائنات پر ایک سکوت یا جمود طاری تھا، خاموشی تھی، اندھیرا تھا، عدم تھا۔ پھر مالکِ کُل نے کُن کا لفظ کہہ کر عدم کے جمود کو متغیرکر دیا۔ گویا کُن یعنی قوتِ محرکہ نے کائنات کو وجود کی حرکت میں منتقل کر دیا۔ کائنات متحرک ہو گئی۔ اس حرکت در حرکت کے نتیجے میں طالبعلمی کے دور ہی سے سعید اختر سیال نے سرائیکی شاگرد سانجھ، سپت سندھو سلہاڑ اور دوسری کئی سرائیکی تنظیموں کے زریعے سرائیکی وسیب کو اپنے حقوق اور معاشرے کے مظلوم و محروم لوگوں کو حرکت میں لانے کے لیئے اپنے آخری وقت تک تگ و دو کرتے رہے۔
ان کے وسیع مطالعے نے انہیں ہر موضوع پر کھل کر بات کرنے اور بحث و مباحثہ کا ملکہ عطا کیا تھا۔ دوستوں کی محفل ہو یا پھر کوئی مشاعرہ، کوئی سیمینار ہو یا کوئی انٹر ویو، جہاں بھی ہوتے شمع محفل ہوتے اور بلبل ہزار داستان کی طرح چہچہاتے نظر آیا کرتے۔ کبھی کبھی اپنی روایتی حس ظرافت کے تحت مزاحیہ انداز بھی اختیار کرتے مگر ایسی گفتگو میں بھی احتیاط برتتے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہوتی ہو۔وہ ہوائے عناد سے پاکیزہ تھا، اگر کسی سے وقتی اختلاف بھی ہوتا تو پورے وقار اور دلیل کے ساتھ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ کرنا مقصود ہو تو اَدب کا بالخصوص مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ادب کا تخلیق کار ایک ایسے حساس طبقے سے تعلق رکھتا ہے جو حسن ادب کی تخلیق میں مبالغہ آرائی تو کر سکتا ہے مگر غیر حقیقی نہیں لکھتا۔ یہی تو وجہ ہے کہ سعید اختر سیال کی کوئی بھی کتاب پڑھیں، کوئی بھی نظم یا شعر دیکھیں، آپ کو وسیب کا حقیقی چہرہ، اصیل طبقہ، وسیب کے حقیقی مناظر، وسیب کے ورثے، وسیب کے حقیقی الفاظ نظر آئیں گے۔ انہوں نے شاعری کو محض شوق کی تکمیل کے لئے نہیں اپنایا بلکہ اسے اپنی مثبت سوچ و فکر کے اظہار اور دنیا تک اپنے مثبت اور حقیقی پیغام کو پہنچانے کا وسیلہ بنایا۔ جب بھی لکھا اپنی مٹی اور وسیب کے لیئے لکھا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ زندہ وہی رہتا ہے جو اپنی مٹی اور وسیب سے جڑا ہوتا ہے۔ ادب سے وابستہ نوجوانوں کو سعید اختر سیال کی زندگی سے سیکھنا چاہیے کہ علم کے پھل دار درخت کو کتنا جھکا ہوا ہونا چاہیے اور کس طرح اپنا توازن اور شناخت برقرار رکھتے ہوئے تدبر، متانت اور وقار سے ایستادہ رہنا چاہیے۔
اپنی عملی زندگی میں وہ محنت، علم اور دلائل کے ہتھیار سے لیس ہو کر آئے اور وقت کے بہتے دریا کی لہروں میں غوطہ زن ہو کر وقت کے نشیب و فراز کے بے رحم تھپیڑوں سے مقابلہ کر کے ثابت قدم رہتے ہوئے اپنی زندگی کی کشتی کو کنارے کے اُس پار لے جا کر کامیاب لوگوں کی صف میں کھڑے ہو گئے جہاں کی آرزو ہر انسان کے دل میں پنہاں ہوتی ہے۔
سعید اختر سیال نے ہی بتایا اور دکھایا کہ زندگی کتنی خوبصورت ہے۔ اس نے سمجھایا کہ زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وسیب کے چپے چپے کو اپنے سفر کے زریعے کھوجنے والا سعید اختر سیال اپنی دانشمندانہ باتوں، شاعری، نثر اور مونجھے چہروں پہ مسکراہٹوں کو ہمدردیوں کی صورت بانٹتے بانٹتے عدم کو کھوجنے راہی ِ عدم ہوا۔ ان کی جدائی سے ہماری زندگیوں میں وہ خلاء بن گیا ہے جو کبھی پر نہیں ہو سکے گا۔ ان کے ساتھ بیتے ہوئے تمام لمحات ہمارا اثاثہ اور سرمایہ ہیں۔
سعید اختر سیال وسیب کے مثبت سوچ کے حامل دانشور، محقق، مؤرخ، نقاد، فلاسفر، مبصر اور فطری شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی ہنس مکھ، منکسر المزاج شریف النفس، کھرے، سچے، صاف گو، ہمدرد، انسان دوست، غریب پرور، دوستوں کے دوست تو تھے ہی بلکہ دشمنوں کے بھی خیر خواہ تھے۔ یہی وہ خوبیاں تھیں، جن کے باعث ان کے جنازے میں ہر عمر کے مداحوں اور محبت کرنے والوں کی تعداد لامحدود تھی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ