وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو طے ہے کہ کوئی کسی سے خوش نہیں۔ حتیٰ کہ جس پتلے میں خالق جان ڈالتا ہے، کچھ عرصے بعد وہ پتلا بھی خالق کے لیے چیلنج بن جاتا ہے اور پھر دونوں ایک دوسرے کے مدِمقابل آ جاتے ہیں۔
لیکن خالق تو خالق ہے۔ وہ کبھی اپنے تمام گر پتلے کے دماغ میں نہیں ڈالتا۔ چنانچہ پتلا مات کھا جاتا ہے۔ خالق پھر ایک تازہ اُمنگ کے ساتھ نیا پتلا تیار کرتا ہے اور پھر وہی کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔
شاید اس کشمکش سے بچنے کا یہی طریقہ ہو کہ پتلے کو صرف خالی کھوپڑی عطا کی جائے۔ مگر پھر یہ مشکل آن پڑے گی کہ پتلا ساکت رہے گا یا جدھر منھ اٹھے گا بلامقصد چلتا رہے گا۔ کچھ سمجھ پائے گا نہ سمجھا سکے گا۔ یونہی رہے گا تو مزید پتلے بنانے کا کیا فائدہ؟ پھر تو ایک ہی کافی ہے۔
یا یوں ہو کہ دماغ تو ہو مگر مکمل تابع رکھنے والی وائرنگ سے بنا ہوا ہو۔ یا پھر پروگرامنگ ایسی ہو کہ پتلا جبلی وظائف ہی انجام دے اور خالق کے لیے مسئلہ نہ بنے۔ مگر جس طرح عقل نہ ہونے کے اپنے مسائل ہیں، اسی طرح مکمل اطاعت زدگی کی اپنی پیچیدگیاں ہیں۔
اب دیکھیے ناں۔ اسٹیبلشمنٹ کتنی محنت سے طرح طرح کے پتلے تیار کرتی ہے۔ ان کی گرومنگ (پروگرامنگ) کرتی ہے۔ انھیں ڈھول تاشے کے ساتھ منظرِ عام پر لاتی ہے۔ انھیں ایک خاص انداز میں سوچنا سمجھنا سکھاتی ہے۔ ان کی چھوٹی موٹی مادی و ذہنی رپیئرنگ کے لیے کاریگر بھی فراہم کرتی ہے۔ انھیں محدود فیصلہ ساز آزادی بھی عطا کرتی ہے تاکہ دیکھنے والے انھیں نرا پتلا ہی نہ سمجھ لیں۔
بونزائی علمِ نباتیات میں ایک جاپانی اختراع ہے۔ اس فن کے ذریعے برگد کو بھی گملے میں اُگایا جا سکتا ہے۔ دیکھنے میں وہ ہر طرف سے برگد ہی لگتا ہے مگر اس کی جڑیں گملے سے باہر نہیں نکلتیں۔
ہمارے ہاں مشکل یہ ہے کہ بونزائی کے فن کو سراہا تو جاتا ہے، مہنگے مہنگے بونزائی پارے متمول گھروں میں بھی نظر آتے ہیں۔ مقامی طور پر بھی یہ فن سیکھنے کے کچھ دلدادہ دیکھنے کو ملتے ہیں پر جانے کیوں ہاتھ میں وہ صفائی نہیں پیدا ہوتی جو جاپانیوں کا خاصا ہے۔
جاپانیوں نے تو خیر کچھ سوچ سمجھ کر اس فن کو نباتات تک محدود رکھا ہے۔ ہم چونکہ وکھری ٹائپ کے لوگ ہیں لہذا ہم نے سوچا کہ صرف نباتات ہی کیوں سیاست، نظریے اور ذہن کو بونزائی کیوں نہیں کیا جا سکتا۔
اور جب جب بھی کوشش کی پودے نے جڑ پکڑتے ہی مزید پھیلنے کی کوشش میں گملا پھاڑ دیا۔ ہمارے ماہرین نے ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچا کہ اگر بونزائی کا اصول قابلِ عمل ہوتا تو جاپانی ضرور نباتات سے ہٹ کر دیگر شعبوں میں بھی اس کے تجربے کرتے۔
غلامی کا ادارہ ہزاروں برس میں ایک بھی بونزائی پیدا نہ کر سکا۔ بالآخر جسمانی غلامی کو اپنی ہیئت بدلنا پڑ گئی۔ یہی کچھ نظریات و عقائد کے ساتھ ہوا۔ وہ پیدا ہوئے، پنپے، وقت نے یا تو شکل صورت بدل دی یا پھر ختم کر دیا مگر ذہنی غلاموں کو بھی دائمی بونزائی نہ کیا جا سکا۔
ہم نے دولے شاہ کے چوہے تو بنائے جو دور سے پہچانے جاتے ہیں اور بغیر نگراں کے ایک قدم نہیں بڑھا پاتے۔ ہم نے پتلے بھی بنائے مگر معیاری ریگولیٹر نہ بنا سکے چنانچہ ان میں ضرورت سے کم یا زیادہ جان پڑ گئی۔
تاہم سیاست کو بونزائی کرنے کے سب تجربات ناکام رہے۔ البتہ بھٹو، جونیجو، بے نظیر، نواز شریف وغیرہ وغیرہ کی جانب سے گملا توڑ کوشش کے باوجود ہمارے ماہرین نے ہمت نہیں ہاری۔ اور اب انھیں عمران خان درپیش ہے۔
مجھے اطالوی ڈرامہ نگار لوئیگی پراندیلو کا سو برس پرانا کھیل ’چھ کردار مصنف کی تلاش میں‘ ان دنوں بے طرح یاد آ رہا ہے۔ چھ کردار جنھیں مصنف نے تخلیق کیا مگر کہانی کو نامکمل چھوڑ کے چلا گیا۔ اب یہ کردار کسی ایسے مصنف کی تلاش میں ہیں جو کہانی کو آگے بڑھا کے مکمل کرے تو یہ کردار بھی جینا شروع کریں۔
یہ کھیل کئی زبانوں میں سینکڑوں بار سٹیج ہو چکا ہے۔ ہمارے ہاں بھی چوہتر برس سے درشا رہا ہے۔ بہت سے مصنفوں نے اس کی تکمیل کے لیے جان بھی لڑائی۔ منظر اور مکالمے تک بدلنے کی کوشش کی۔
مگر اب تک اس کھیل کے کردار ادھورے پن سے جان نہیں چھڑا پائے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر