نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خانقاہ حسینیہ شکارپور سندھ کے مطلعق جاننے کلیئے شکارپور شہر کے بنیاد رکنھ والے خاندان اورشکارپورپر حکومت کرنے والے خاندان کی تاریخ کا جاننا بھی ضروری ہے

یونس رومی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پتہ نہیں ہمارے لوگوں کو اندھے اعتبار کرنے کی بری عادت ہے، بس کسی نے کہہ دیا کہ لال شہباز قلندر ایک مجرد تھے، قلندر طریقت کے پیروکار ھے،ملامتی تھے ،سہروردی تھے اسماعیلی تھے اور فلاں مسلک کے ہیں۔ شہروں کے مطلق کبھی مرو،مروند،مرند،میمند سے آئے تھے۔ 2017ء سے پہلے درگاہ پر مروندی لکھا ہوا تھا جو 2017ء کے بعد مرندی بن گیا۔ آپ درگاہ کے سجادہ نشین کا بھی تضاد، دو ہندوں قانون گو، لالچند خاندانیں ہیں اب تو مسلمان سبزواری اور لکیاری قابض ہیں۔ تحفتہ الکرام کے مطابق سادات شیخ کے داماد تھے اور زبردستی قابض ہوگئے تھے۔
کبھی تو راجہ بھرت ہری کا آستان بنا لیتے ہیں۔ راجہ بھرت ہری ھندوستان کے شمال ، پنجاب، ہریانہ۔ بھار، اترپردیش، چتیس گڑھ، مغربی بنگال کے لوک کہانیوں کا ایک ھیرو ہے۔ 1870ء میں ایک کتاب وکرم اینڈ ویمپائر لکھا گیا تھا اور جبکہ ہمارے کچھ تاریخدان تاریخ کو بگاڑنے کے چکر میں لال شہباز قلندر کے درگاہ کوراجہ بھرت ہری کا آستان دکھانے پر بضد ہیں۔ تاریخدانوں کا کہنا ہیں کہ اگر ایک جھوٹ کو دس مرتبہ دہرائو تو وہ جھوٹ سچ بن جاتا ہے۔ ہمارے تاریخ کےدانشوروں نے بس اسی جھوٹے سچ کودہرایا اور آج وہی جھوٹ سچ بن کر رہ گیا ہے۔ہمارے لوگوں کیلئے یہ بات کافی ہے کہ سندھ کے دانشوروں نے کہہ دیا اور ہم نے مان لیا۔ تاریخ نظریہ کا نام پرنہیں بلکہ حقیقی تاریخ کی بھی ضروری ہوتی ہے۔ یہان تو ہر دانشور کا الگ ہی نظریہ ہے. کبھی ڈھائی قلندر کبھی 3 تو کبھی 300 قلندر بنا دیتے ہیں۔ اگر سید عثمان کا تعلق حضرت اما جعفر صادق ہے تو ان کے نسبت کا لحاظ کرتےاور ان کے کرامات کی آڑ میں تذلیل تہمت تو نہ کرتے۔لاتعداد کتابیں لال شہباز قلندر کے بارے میں لکھ ڈالیں ہیں جن کا کوئی نہ سر نہ پائوں ہے۔ اگر سارا کچھ ابجد سے نکالنا ہے تو یہ تاریخ تو نہیں ہوئی بلکہ ایک ڈرامہ ہوا۔ ہمارے دانشوروں کے نظرمیں پرانے دور کے تاریخدان ان پڑھ جاہل ہوئے کیا؟ کبھی ہم نے قلندر تحریک کے بارے میں پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی، قلندری طریقت کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں تک پھیلی؟ کبھی ان کا بھی جائزہ لینا چاہیئے تھا۔ اگر ہم قلندر طریقت پر نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سے کتابیں مل جاتی ہیں پر اگر ہم ایرانی ڈاکٹر حمید زرین کوب کی کتاب قلندر نامہ خطیب فارسی (سیرت جمالدین ساوجی) پر نظر ڈالیں جو قلندر کی زندگی اور ان کے قلندر ی طریقت پر ایک جامع کتاب ہے۔ انہوں نے واضع لکھا ہے کہ کتاب ایک مسخ شدہ نسسخہ حالت میں تھا لیکن چند اشعار کے مطابق اسے سیرت جمال الدین ساوجی یا مناقبت قلندر نامہ، اس کے مصنف کے بارے میں معلومات نہیں ملی۔ مصنف جوانی میں سائنس کا شاگرد تھا۔ شیراز سے کچھ سوالات کے تلاس میں مختلف شہروں کا سفر کرتا رہا اور دمشق میں حضرت بیبی زینب علیہ السلام کے مزار پر قلندروں کے ایک ٹولے سے ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ بخارا کا ایک قلندر سوالات کا جواب دیتا ہے اور ایک پمفلیٹ جو سید جمال الدین ساوجی کے بارے میں تھا، اس کو کتابی شکل دینے کیلئے کہتا ہے۔
قلندر نامہ دو کتابوں کا مجموعہ ہے۔ دوسرا نسخہ ترکی کے سلیمانیہ لائبریری سے ملنے والی ایک نایاب کتاب بھی اصلاح کیلئے شامل کی گئی۔ قلندر نامہ کے مطابق سید جمال الدین ساوجی دمشق کا تھا اور اس کے چار خلیفے جو چار یار کہلاتے تھے جن میں سرفہرست شیخ عثمان رومی قلندر، جلال درگزینی، محمد بلخی اور ابوبکر اصفہانی تھے۔ سید جمال الدین ساوجی کے ظہور کے حوالے سے روایات بھی مختلف ہیں، ظہور 382ھ۔ (922ء)اور موت کا ذکر 463ھ (1044ء) کا حوالہ ملتا ہے۔ بیشتر ذرائع چھٹی صدی اور ساتویں صدی کے اوائل کا ہے۔ سید جمال الدین ساوجی کے وفات 620ھ(1222ء) اور 630ھ (1232ء) ہے۔ شیخ عثمان رومی قلندر کے بارے میں کتاب میں لکھتے ہیں کہ وہ خراسان بایزید بسطامی کے حلقہ احباب میں شامل ہونے کیلیے آیا تھا۔اگر بایزید کا دور سید جمالدین ساوجی کا دور بعد کا ہوتا تو ہم مان لیتے کہ شیخ عثمان رومی قلندر خراسان بایزید بسطامی کے پاس ان کے حلقہ احباب میں شامل ہونے کیلئے آیا ہوگا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا سیوہن میں موجود ہستی کون ہیں اور کہاں سے آیا ہوگا؟ جس پر لال شہباز قلندر مشیخ عثمان مروندی، مرندی، میمندی کا مہر لگا کر بیٹھ گئے ہیں۔ آئیں سندھ کے معتبر کتابوں کے مدد سے موقف کو دیکھیں کہ ان کتابوں میں لال شہباز قلندر کے دوست، ملتان آمد اور وفات کے مطلق تاریخ کیا بتلاتی ہے۔ وہ ان کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہستی کون ہیں؟ لال شہباز قلندر کے چار یار، جن میں مخدوم جلال الدین سرخ پوش بخاری تو کبھی ان کے پوتے جلال الدین جہانیاں گشت کا نام لکھتے ہیں (جس پر اپنے دادے سرخ پوش کا نام تھا)، شیخ بھاء الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین شکر گنج۔ جب کہ شکر گنج دہلی والا اور پاکپتن والا ایک ہی ہے (جو اصل میں سید جمالدین ساوجی کے خلیفوں کا چربہ ہے)۔ یہ لوگ اصل میں ان ہستی کے رشتیدار ہیں جو آخر میں ثابت کرنے کی کوشش کرینگے۔ تحفتہ اکرام صفحہ 428 تیسری اشاعت سال 2006ء اور قدیم سندھ ان کے مشہور شہر اور لوگ مرزا قلیچ بیگ صاحب ایڈیشن 7 سال 2014ء کے مطابق لال شہباز قلندر کی ملتان آمد 662/1263ھ اور وفات 673/1274ھ ہے۔ دونوں کتابوں کے مطابق شہزادہ محمد خان شہید لال شہباز قلندر کو ملتان رہنے کی درخواست کی پر قبول نہ کیا جب کہ اعجاز الحق قدوسی صاحب کے کتاب تاریخ کے حساب سے بلبن کا دور 1265/666ء ہے۔ جب غیاث الدین بلبن تخت نشین ہوتے ہیں تو اس وقت ان کے چچا زاد بھائی ملک شیر خان ملتان کا گورنر تھا، ان کے وفات کے بعد ہی شہزادہ محمد خان ملتان کا گورنر بنے تھے۔تاریخ سندھ کے ہی مطابق شہزادہ محمد خان1280ءمیں ہی گورنر ملتان بنتے ہیں اور 1284ء میں شہید ہوتے ہیں۔ اگر ہم اعجاز الحق قدوسی صاحب کی کتاب تاریخ سندھ کا جائزہ لیں تو شہزادہ محمد خان کے ملتان کے گورنر بننے سے پہلے ہی لال شہباز قلندر فوت ہوتے ہیں۔ باقی شہیزدہ محمد خان شہید کی جس ہستی سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں تاریخ فرشتہ کی جلد نمبر اول کے صفحہ نمبر 232 پر تو شیخ عثمان ترمذی کا ذکر ہے نہ کہ شیخ عثمان مروندی، میمند، مریدی یا مرندی۔ لال شہباز قلندر کے دور کا بھی بڑا مسلا بنا ہوا ہے کیونکہ عموما لال شہباز کو غیاث الدین بلبن کے دور میں دکھایا جاتاہے۔ محمد خان شہید جو اس کے بیٹے کا نام تھا انہیں ناموں کا آپس میں ملنے کی وجہ سے ان جھوٹوں نے تاریخ کا بیڑا غرق کیا ہوا تھا۔غیاث الدین بلبن اور محمد خان شہید کا دور 1265ءسے 1285ء اور جب کے غیاث الدین تغلق اور محمد تغلق کا دور 1320ء سے 1351ء تک کا ہے اور مشہور شاعر امیر خسرو کا بھی دور دونوں بادشاہوں کے دور میں ہے۔ جس کو آسانی سے تاریخ کو مسخ کیا گیا۔ اور جب کہ مزار پر ہندوں اور مہدویت کے رسومات کا زیادہ اثر پایا جاتاہے۔ ایک بات واضع ہوگئی ہے کہ یہ ایک مفروضہ ہے کہ قلندر کی جگہ کوئی اور دفن ہے۔ لال شہباز قلندر پر لکھی ہوئی کتابوں میں ان سے وابسطہ لوگوں اوران کے شجرے کا ذکر ملتا ہے۔ ان لوگوں میں میر کلاں ، سید علی سرمست اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کا نام سرفہرست ہے۔ تو آئیے تحفتہ الکرام کا سہارا لیتے ہیں۔ کیوں کہ یہ سب سے مستند کتاب ہے۔تحفتہ الکرام میں شجرے کا ذکر نہیں۔ ڈاکٹرنبی بخش بلوچ صاحب نے حاشیے میں لکھ دیا ہے۔ یہ اس دانشور کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ میر شیرقانع نے نہیں لکھا ہے۔ باقی میر کلاں کے مطلق تحفتہ الکرام کے صفحہ 397 پر جلال کلاں اور میر سید کلاں صفحہ 436 پر واضع طور لکھا ہوا ہے۔ جب کہ علینواز شوق صاحب کے تالیف امین الملک نواب میر محمد معصوم بکھری مین میر سید کلاں کابروٹی لکھا گیا ہے۔ تحفتہ الکرام کے مطابق سید جلال کلاں کے چار بیٹے تھے۔ سید علی المعروف سرمست، سید جعفر، سید محمد غوث اور سید احمد کبیر سید جلال الدین سرخ پوش بخاری المعروف میرکلاں کابروٹی جن کو میر معصوم بکھری کا نانا دکھایا گیا ہے۔ اور میر معصوم کے تین بھائی (میر ابوالقاسم نمکین،میر فاضل،میر محمد معصوم بکھری) بتایا گیا ہے۔جب کہ میر معصوم بکھری کا شجرہ کچھ اس طرح بنتا ہے۔ سید میر محمد معصوم بکھری بن سلطان محمود بن سلطان حسین خان بن میرغیاث الدین محمد عباسی جس کو تاریخ فیروز شاہی میں مخدومزادہ عباسی کے نام سے لکھا گیاہے۔جب کہ محمد تغلق کے دور میں عباسی خلیفہ میر غیاث الدین محمد عباسی دہلی تشریف لائے تھے اور جب کہ تاریخی کتابوں جن میں تاریخ ہندوستان، تاریخ فرشتہ، تاریخ مبارک شاہی، جنت السندھ، ابن بطوطہ کا سفرنامہ اور خلافت ہندوستان کے مطابق مصر کے خلفیہ کے صاحبزادہ جن کا پورا نام میر غیاث الدین محمد بن الحاکم بالامراللہ احمد ابن عباس عباسی تھا جو ابن بطوطہ کے ساتھ دہلی آیا تھا اور جن کی شادی سلطان محمد تغلق کے بہن فیروزہ آخوند کے ساتھ ہوئی تھی اور انہیں گجرات، کھمبات، مالوہ جہیز میں ملا تھا۔ ہمارے تاریخدانوں نے سیف الدین شامی دکھا کر تاریخ کو بگاڑنے کی کوشش کی تھی۔ حالانکہ سیف الدین بھی سلطان محمد تغلق کے بہنوئی تھے۔ سیف الدین، اقوام الدین، عمادالملک تین بھائی تھے جن کا تعلق سلطان شہاب الدین غوری کے خاندان سے تھا جن کا لقب خداوندزادہ تھا۔ اور سلطان غیاث الدین ابن عباس کو مخدوزادہ کا لقب دیا گیا تھا۔ سلطان فیروز تغلق کے دور میں صدر جہاں (وزیر اعظم )تھے۔ اور لقب میر خان دیا گیا تھا جن کو ہمارے دانشورون نے امیر خان بنا دیا۔ جب کہ سلطان حسین خان کو سلطان فیروز تغلق کے دور میں شرف الملک کا عہدہ دیا گیا تھا۔
منتخب التواریخ کے صفحہ نمبر251 پر سید جلال اور سلطان حسین خان دونوں بھائی ہیں اور جب کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی شاہ عبدالکریم کے پڑپوتے ہیں اور جب کہ شاہ عبدالکریم اقوام الدین المعروف قاضی قادن بن میر غیاث الدین محمد عباسی کےپوتے ہیں۔ یاد رہے کہ قاضی قاضن اور قاضی قادن دو الگ شخصیات ہیں۔ خیر محمد برڑو کے کتاب ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا کے موجب اقوام الدین عباسی ہی قاضی قادن ہےجبکہ قاضی قاضن مہدویت کے پیروکاروں کے ایک خلیفہ ہیں جن کا مزار راجستان ہندوستان میں ہے۔حاصل مطلب کہ سید جلال الدین سرخ پوش بخاری، سید علی سرمست اور شاہ عبدالطیف بھٹائی، میر غیاث الدین محمد بن الحاکم بالامراللہ احمد ابن عباس عباسی خاندان کے فرد ہیں جن کے مطعلق مرزا قلیچ بیگ نے قدیم سندھ میں عباسی خاندان کے افرادوں کو مختلف ناموں سے یاد کیا ہے۔ جیسے قاسم خانی سید، میر خانی سید، لودھی سید، عرب شاہی سید، سبزواری سید، میرکی سید، عریضی سید، کاشانی سید، مازندانی سید، بکھری سید، بخاری سید، گیلانی سید۔ یہ سب عباسی خاندان کے افراد ہیں جن کو ان کے مائوں کی نسبت سے پہچان دیا گیا ہے۔ اور میر غیا ث الدین محمد المعروف لال شہباز قلندر کے بہت سے القاب ہیں، میر خان، ملا میر، عریضی، سبزواری، سیف اللسان، مہدی، ابولغیث، وغیرہ۔ جن کی عمر 200 سال تھی۔ رنگ گندمی تھا اور بڑی عمر کی وجہ سے کمر جھک گیا تھا۔ 1510ء کے قریب ان کا انتقال ہوا تھا۔
حاصل مطلب یہ کہ درگاہ لال شہباز میں مدفوں کوئی قلندری طریقت کا مجرد نہیں بلکہ مصر کے وقت کے خلیفے کا بیٹا میر غیاث الدین محمد بن الحاکم بالامراللہ احمد ابن عباس عباسی ہیں،جس کے آنے کی تصدیق ہندوستان کے تاریخی کتابیں کر رہی ہیں،سندھ کے دانشوروں کی طرف سے میر غیاث الدین عباسی کے مزار پرقلندریت، مہدویت،مجرد کا ڈرامہ اور ان کے رشتیداروں ،بیٹوں، پوتے،نواسوں کو ان کے خلیفے بنانا اورکبھی دمشق کےسید جمال الدین کے خلیفہ شیخ عثمان رومی قلندرکو قلندر ظاہر کرنا تو کبھی ملتان کےشیخ عثمان ترمذی جو واپس اپنے ملک چلے گئے تھے ان کو قلندر ظاہر کر کےعباسی خاندان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ۔ ضرورت اس بات کی ہے کے تاریخ کسی کا بھی کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی بھی تاریخ کو مسخ کرے،حکومت اور دانشوروں اور قارئین سے درخواست کہ عباسی خاندان کی تاریخ کو دنیا کے سامنے اصل حالت میں لایا جائےا۔ن کو ان کا جائز مقام دیا جائے۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

یونس رومی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author