ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ ایک بار ایک جاننے والا واصف علی واصف سے ملنے کے لیئے آیا۔واصف صاحب نے مہمان کا پرتپاک استقبال کیا ۔مہمان کے بیٹھتے ہی واصف علی واصف نے چائے بھی منگوا لی۔مہمان کے چہرے پر پریشانی دیکھ کر واصف علی واصف نے پوچھا: خیر اے کی ہویا۔ تو جواب میں مہمان نے کہا کہ واصف صاحب اج کل ملک دے حالات بڑے خراب نے تو واصف علی واصف نے سوال کیا کہ ملک دے حالات توں خراب کیتے نے تو مہمان نے جواب دیا کہ نہیں ۔اسی دوران چائے بھی آ گئی اور واصف علی واصف نے مہمان سے دوسرا سوال کیا کہ کیا توں ایہہ خراب حالات ٹھیک کرسگدا ایں تو مہمان کا جواب نفی میں تھا تو اس پر واصف علی واصف نے مہمان سے بڑے پیار سے کہا تے فیئر چاء پی ۔
ہمارے ساتھ المیہ یہی ہے کہ ہم ہر اس چیز کے لیے پریشان ہوتے ہیں جس کے بگڑنے اور ٹھیک ہونے میں ہمارا کردار ہی نہیں ہوتا۔اب اسی حالیہ ڈٰی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کو ہی دیکھ لیں۔ایک محکمانہ تعیناتی کا معاملہ ہے جو کہ محکمہ حل کرئے گا کہ کس کو تعینات کرنا ہے کس کو نہیں کرنا ۔اور ہم ہیں کہ ایک طوفان اٹھا رکھا ہے ۔کوئی پوچھے بندہ خدا اتنا شور جو مچا رہے ہو کیا اس سے قبل جو تعیناتیاں ہوئی ہیں تم سے مشورہ کرکے ہوئی تھیں ۔کس فوجی افسر نے کس جگہ پرتعینات ہونا ہے یہ تمارا سردرد کب سے بن گیا۔کرنے دو ان کو جن کا یہ کام ہے ۔سارے محب وطن سپاہی ہیں جو تعینات ہوگا ملک کی خدمت ہی کرئے گا اس میں ہمارا فیورٹ ازم کہاں سے آگیا۔
مگر نہیں ہر چوک اور ہرچوارہے پر ایک ہی گفتگو کہ کیا ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹیفکیشن جاری ہوگا ۔ کیا کورکمانڈر پشاور مقررہ تاریخ کو اپنی کور کی کمان سنبھالیں گے ؟ ویسے کمال ہے کہ تیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے سفید پوش آدمی کی زندگی روزمرہ کے اخراجات کے سبب اجیرن ہوچکی ہے ۔بے روزگاری اور مہنگائی کے عفریت نے ہر شخص کو جکڑ لیا ہے ۔بجلی اور گیس کے بلوں نے ماہانہ اخراجات کے گوشوارے بگاڑ دئیے ہیں۔ڈالر ہے کہ آسمان کو چھو رہا ہے اور قرضے ہیں کہ آبادی کی طرح بے ہنگم طریقے سے بڑھ رہے ہیں ۔مگر پریشانی ہے تو نئی تعیناتیوں کی کہ ان کا کیا ہوگا۔
سوال کرنے والے بھی کمال کرتے ہیں کل وزیر داخلہ بے چارے سے پوچھ لیا کہ سول ملٹری تعلقات کیسے ہیں تو اڑی ہوئی رنگت اور بے ربط جملوں میں شیخ رشید نے جواب دیا کہ اس کا جواب پرویز خٹک اور فواد چوہدری دے سکتے ہیں میں فی الحال یہ بتا سکتا ہوں کہ سب ٹھیک ہے ۔ اب کوئی وزیر داخلہ سے پوچھے کہ بھائی اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو پھر پرویز خٹک اور فواد چوہدری سے کیا پوچھیں اور کیوں پوچھیں۔وہ بھی تو تمہاری طرح ڈیوٹی کررہے ہیں جب تمہیں نہیں معلوم تو ان کو کیسے علم ہوگا ۔ان کو چھوڑیں پتہ تو بنی گالہ کے سکونتی کو بھی نہیں تھا۔اس لیے شائد دل پر لیئے بیٹھا ہے ۔ہوسکتا ہےکہ سچ میں ہی خود کو وزیراعظم سمجھ بیٹھا ہو اور سوچ رہا ہو کہ اب فیصلے میں نے کرنے ہیں ۔
فیصلہ تو بلوچستان اسمبلی کے ناراض اراکین شائد کرچکے ہیں اور تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے ۔نواب رئیسانی کے مطابق جام کمال اب کھجور اور پانی لیں اور تبلیغ پر چلے جائیں۔اب جام کمال تبلیغ پر جاتا ہے یا ناراض اراکین کو اپنا مقتدی بناتا ہے اس کا فیصلہ آئندہ چند روز میں ہوگا ۔ویسے پوری بلوچستان اسمبلی سے سوال تو بنتا ہے کہ اگر جام کمال رہ جائے یا وزارت اعلیٰ چھوڑ جائے ہر دو صورتوں میں کیا بلوچستان کی عوام کے مسائل حل ہوں گے ۔اگر ہاں تو پھر یہ سب کچھ ٹھیک ہے اگر نہیں تو پھر یہ سب کس لئے ہورہا ہے۔خیر اس معاملے پر میں بھی چائے پینے کا ہی مشورہ دوں گا کیونکہ جو جام کمال کو لائے ہیں وہی فیصلہ کریں گے جام کمال نے جانا ہے یا نہیں جانا۔
ان ہی ہنگاموں اور شور شرابے میں محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان خاموشی سے رخصت ہوگئے ۔ایک ایسا شخص جس نے وطن عزیز کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا کے جانے کا دلی دکھ ہوا۔سرکاری سطح پر پرچم سرنگوں رہا اور پوری قوم نے ان کو خراج تحسین پیش کیا۔بلاشبہ ان کی خدمات کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے وہ ایک سچے اور محب وطن انسان تھے مگر ان کے وزیراعلیٰ سندھ کے کو لکھے گئے خط نے دکھی کردیا ۔شاید یہ خلش دور نا ہو کہ محسن پاکستان اپنی زندگی کے آخری ایام میں کیا سوچ رہا تھا
سوچنا تو اس پر بھی بے کار سمجھیں کہ ہمارے معاشی ماہرین کا وفد آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے جارہا ہے ۔اب ساہوکار کا کہنا ہے کہ تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کریں ، غیر پیداواری اخراجات میں کمی کریں ، مختلف اشیا پر سبسڈی ختم کریں ، ریونیو کلیکشن میں اضافہ کریں اور خسارے میں چلنے والے اداروں کو فی الفور فروخت کردیں پھر جا کر معاشی حالات میں کچھ بہتری کی امید ہے اور ان اقدامات کی صورت میں مزید قرض ملنے کی بھی توقع کی جاسکتی ہے ۔کیا یہ شرائط ایسی ہیں جن پر یہ حکومت فی الفور عمل کرسکے ۔کیا عام آدمی میں مزید سکت ہے کہ وہ مزید مہنگائی کو برداشت کرسکے ۔بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور سبسڈی ختم ہونے سے مہنگائی کا جو طوفان آئے گا کیا اس طوفان کو عوام جھیل پائے گی ۔معاشی حالات میں بہتری کی امید ، روزگار کی فراہمی کے دعوے ، مہنگائی میں کمی کی دعویدار حکومت کیا عوام کو جواب دے پائے گی ۔یہ سارے سوالات پریشان کن ہیں مگر دوستو پریشان پھر بھی نہیں ہونا ۔کیا یہ معاشی حالات تم نے خراب کیئے ہیں ۔کیا ان خراب معاشی حالات کو آپ ٹھیک کرسکتے ہیں اگر ان کا جواب نہیں ہے ، تے فیئر چاء پیو ۔۔۔
مصنف سے رابطہ کیلئے 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر