عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) کوگوادر سے کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیاگیاہے۔ یہ فیصلہ بلوچستان میں جاری انسرجنسی اور امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر میں کیاگیا۔اس فیصلے کو پاکستان اور چین نے حتمی شکل دیتے ہوئے سی پیک کے مرکزکوگوادر سے کراچی کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیاہے۔اس سلسلے میں کراچی بندرگاہ کو ترقی دینے پر اتفاق کیاگیا۔ وزیراعظم عمران خان نے چین کی کراچی بندرگاہ کی 3.5 بلین ڈالرکےمنصوبے کو "گیم چینجر” قرار دیاہے۔یہ انکشاف ٹوکیو سے شائع ہونے والے اخبار "نکی ایشیا” نے کیا۔ اس اسٹوری کا عنوان ” سی پیک گوادر سے کراچی منتقل ” تھا۔ "نکی ایشیا”دنیا کا سب سے بڑا مالیاتی اخبار ہے۔ جس کی روزانہ اشاعت تین ملین سے تجاوز ہے۔
اخبار کے مطابق دونوں ممالک نے کراچی کوسٹل کمپرینسی ڈویلپمنٹ زون منصوبے کے لیے مفاہمتی کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے شیئر کی گئی تفصیلات کی بنیاد پر ، چین 3.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ جس کی علیحدہ تصدیق چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کی ہے۔ جس میں کراچی بندرگاہ میں نئی برتھ کی تعمیر، نئی ماہی گیری بندرگاہ اور مغربی بیک واٹر پر 640 ہیکٹر تجارتی زون کی تشکیل شامل ہیں۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی دلدل اس منصوبے میں بندرگاہ کو قریبی منوڑہ جزیروں سے ملانے کے لیےایک پل بنانے کا بھی منصوبہ زیرِغور ہے۔
سی پیک کوگوادر سے کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ دراصل بلوچستان میں جاری انسرجنسی کو قراردیا جارہا ہے۔گوادر چینی سرمایہ کاری کے لیے ایک مشکل علاقہ ثابت ہوا ہے۔گزشتہ ماہ اگست میں اس علاقے میں چینی انجنیئرز کو لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایاگیا۔ اس قبل ماضی میں بھی گوادر میں چینی انجینئرز کونشانہ بنایاجاچکاہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں قائم چینی قونصل اور اسٹاک ایکسچینچ پر بھی حملہ کیاگیا۔ بلوچستان کے علاقے چاغی میں سیندک کے منصوبے میں کام کرنے والے چینی حکام کے قافلے کو بھی بلوچ عسکریت پسندوں نے نشانہ بنایا۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ سعودی عرب نے 10 ارب ڈالر کی مجوزہ آئل ریفائنری کوگوادر سے کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیاہے۔
اگر دیکھا جائے کسی بھی خطے میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے دو بنیادی وجوہ سرفرست ہوتی ہیں۔ جن میں امن و امان کی صورتحال ضروری ہوتی ہے۔ تاکہ آزاد نقل و حرکت ہوسکے۔ جان و مال کاتحفظ سرمایہ کاری کو سازگار بناتاہے۔ جوگوادر میں ناممکن نظرآرہا ہے۔ دوسری وجہ انفرااسٹرکچر ہے۔ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے مرکزگوادر میں بجلی کے بحران نے سی پیک منصوبہ کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ منصوبے پر کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے۔ ماڈرن دور میں بجلی کو انفرااسٹرکچر کی بنیاد کہاجاتا ہے۔ جس کا مطلب وہ ستون جس کے سہارے پورٹ کی سرگرمیاں اور صعنتوں کی چمنیاں چلتی ہیں۔ پورٹ ہوں یا صنعت ان کی سانس بجلی پر منحصر ہے۔ آج کے دور میں بجلی انفرااسٹرکچر کی بنیادی روح ہوتی ہے جس پر خطے کی ترقی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ دنیا کے جس ملک نے ترقی کی اس نے سب سے پہلے انرجی سیکٹر پر توجہ دی۔
دوسری جانب گوادر پورٹ سے متعلق یہ انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان گوادر بندرگاہ کو صرف ٹرانزٹ پورٹ کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔ کیوں کہ گوادر کو انٹرنیشنل سی پورٹ کے معیار پر لانے میں مزید کئی سال درکار ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو سامان یہاں پہنچتا ہے۔ اس کی اکثریت مقامی مارکیٹ کے لیے نہیں ہوتی، بلکہ دوسرے اندرون ملک نقل و حمل کے طریقوں کے ذریعے اندرونی علاقوں میں آخری منزل تک پہنچائی جاتی ہے۔ اس وقت گوادر میں کوئی انڈسٹریل کمپلیکس یا تجارتی علاقہ نہیں ہے۔ دوسرے اور تیسرے درجے کے منصوبے ہیں جن کی تکمیل میں طویل وقت درکار ہوگا۔
بلوچستان میں انسرجنسی کی وجوہات بھی اسلام آباد کی پالیسیوں سے منسلک ہے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے حکومت سنبھالی تو یہ خطہ امن و امان کے حوالے سے ایک مثالی خطہ ہوا کرتا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب جنرل پرویز مشرف نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ملک کا باگ ڈور سیاسی قیادت سے نکل کر عسکری قیادت کے ہاتھ لگ گیا۔ جس سے ملک میں جمہوری طرز عمل کا خاتمہ ہوگیا۔ اور ایک غیر جمہوری طرز عمل کا آغاز ہوا۔ نواز شریف سمیت مسلم لیگ ن کی قیادت کو جیلوں میں ڈال دیاگیا۔ تاہم پنجاب میں کوئی خاص اینٹی مشرف تحریک نہیں چل سکی۔ لیکن بلوچستان اس کے برعکس نکلا۔ جب گوادر ڈیپ سی پورٹ کا آغاز کیاگیا۔مقامی افراد کواس منصوبے سے دور رکھاگیا۔جس پر یہاں کے سیاسی شعور کی موجودگی نے مشرف حکومت کو ٹف ٹائم دیا۔جس کی وجہ سے بلوچستان کا پرامن ماحول کو ایک جنگ کی طرف دھکیل دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انارکی و انتشار کی آگ نے ڈیرہ بگٹی سے گوادر کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔آگ اتنی شدید تھی کہ 79 سالہ بزرگ سیاستدان نواب اکبر خان بگٹی کو قومی حقوق کے حصول کے لئے شہادت نصیب ہوگئی۔
اگر آج بھی دیکھا جائے تو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ بلوچستان کے عوام کے لئے ایک دکھاوے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عوام کو جو سبز باغ دکھائے گئے اس پر عملدرآمد نہیں کیاگیا۔ جبکہ دوسری جانب سیاسی جماعتوں نے سی پیک کو ایک قبضہ گیریت کا منصوبہ قراردیا۔
سی پیک میں بلوچستان کی زرعی معیشت کو نظرانداز کیاگیا۔ فشریز کی صنعت کو چینی جہازوں کو سمندر میں ٹرالنگ کی اجازت دےکرنقصان پہنچایاگیا۔ اس ٹرالنگ کی وجہ سے سمندری حیات کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ جبکہ مقامی ماہی گیروں کو معاشی و اقتصادی طورپر مستحکم کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ بلوچستان کے ضلع خضدار میں صرف ایک ڈرائی پورٹ کا منصوبہ دیاگیا جس کےلیے اراضی کو ابھی تک مختص نہیں کیاگیا۔ نام نہاد ”موٹروے ایم 8“ دو رویہ موٹر وے کو 24 فٹ سڑک میں تبدیل کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے اس منصوبے کی اہمیت اور افادیت ختم ہوگئی۔
ماضی میں ہم نےیہ بھی دیکھا کہ حکام امن و امان کی صورتحال کو قائم کرنے میں ناکامی سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے۔ اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ گوادر شہر کو باڑ لگاکرسیل کیا جائے۔ عوامی حلقوں نے باڑ کے منصوبے کو سب جیل قراردیا۔ اور اس منصوبے کے خلاف تحریک چلائی ۔ عوامی ردعمل کی وجہ سے منصوبے کو منسوخ کرنا پڑا۔ روز اول سے ہم نے یہ دیکھا ہے کہ سی پیک کو بندوق کی نوک پر چلانے کو کوشش کی گئی۔ جس سے مزید حالات خراب ہونے لگے۔ عوام کے پرامن احتجاج کو اہمیت نہیں دی گئی۔ احتجاج کرنے پر سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کیا گیا۔ ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئیں۔ جس سے انسرجنسی میں اضافہ ہوا۔ بندوق کی پالیسی کو سمجھنے کے لئے ہمارے پاس سب سے بڑی مثال عراق اور افغانستان ہے۔ جہاں دنیا کے طاقتور ممالک کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بدقسمتی سے اسلام آباد کی سرکار کو بات سمجھنے میں نہیں آتی ہے۔ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے آج سی پیک کا مرکز گوادر سے کراچی منتقل کرنا پڑ رہا ہے۔ بلوچ حلقے حکومت کے اس فیصلے کوبلوچ مزاحمت کاروں کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ اور کہہ رہیے کہ ہر مسئلہ کا حل بندوق کی نوک سے نہیں نکلتا ہے۔ بلکہ انصاف و عدل سے امن و امان قائم ہوتا ہے۔ جس سے خطے میں خوشحالی آتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور
کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر