نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغانستان میں دھماکہ||ظہور دھریجہ

اس واقعہ کے بعد نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان میں بھی خوف و حراس کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ افغانستان کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کا شکار ہوتا آرہا ہے۔ پاکستان کم و بیش ایک لاکھ افراد کی قربانی دے چکا ہے۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرکار دو عالمﷺ کی ولادت کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ پوری دنیا میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔وزیر اعلیٰ عثمان خان بزدار نے بھی ہفتہ رحمت للعالمینؐ منانے کا اعلان کر دیا ہے مگر افسوس کہ ربیع الاول شریف کے پہلے روز افغانستان کے علاقے قندوز کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے موقع پر بم دھماکہ ہوا ہے جس میں لگ بھگ 100 افراد شہید اور 200کے لگ بھگ زخمی ہو گئے ہیں۔ اس دھماکے کو کیا نام دیا جائے، کیا یہ ربیع الاول کا استقبال ہے، کیا اس کا نام اسلام ہے؟
سچی اور حقیقی بات یہ ہے کہ اس دھماکے نے امت مسلمہ کو غم میں مبتلا کر دیا ہے، کہا جاتا ہے کہ جاں بحق ہونیوالے نماز جعمہ ادا کر رہے تھے۔ مختلف خبریں ہیں۔ ایک خبر یہ ہے کہ دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے جبکہ کچھ اطلاعات یہ ہیں کہ ابھی تک دھماکے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔ کوئی ذمہ داری قبول کر بھی لے تو کیا ہو گا؟ پہلے جتنے دھماکے ہوئے ذمہ داریاں قبول کی جاتی رہیں مگر کیا آج تک کسی کو سزا ملی؟
طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے اپنے ٹیوٹر میں کہا ہے کہ قندوز کی ایک مسجد میں دھماکہ ہوا ہے اور طالبان فورسز کے سپیشل یونٹ نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی ہو رہی تھی کہ اس دوران دھماکہ ہو گیا، کہا جاتا ہے کہ یہ خودکش دھماکہ تھا، دھماکے سے نمازیوں کے اعضاء بکھر کر دور جا گرے اور مسجد خون سے بھر گئی۔
اس واقعہ کے بعد نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان میں بھی خوف و حراس کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ افغانستان کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کا شکار ہوتا آرہا ہے۔ پاکستان کم و بیش ایک لاکھ افراد کی قربانی دے چکا ہے۔
کھربوں ڈالر املاک کا بھی نقصان پاکستان نے اٹھایا۔ دہشت گردوں نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حملے کئے ، تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا ۔ پشاور پبلک سکول کا سانحہ تو تاریخ انسانی کبھی فراموش نہ کر سکے گی۔ دہشت گردوں نے پبلک مقامات کے ساتھ ساتھ عبادت گاہوں کو بھی معاف نہ کیا۔ جب یہ تمام حالات و واقعات سامنے آتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود حکومت کی طرف سے تحریک طالبان پاکستان کیلئے معافی کی بات کرنا نا قابل فہم ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے بھی معافی مقتول کے ورثاء کا حق ہے۔
ان سے پوچھئے جن کے عزیز، رشتہ دار اور لخت جگر دہشت گردی کے نتیجہ میں قتل ہوئے۔ افغانستان میں طالبان کی آمد پر جشن منانے والوں کو آہستہ آہستہ معاملات سمجھ آ رہے ہیں۔ ابھی آگے بھی بہت سی چیزیں واضح ہوتی جائیں گی۔ وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں افغانستان کی تازہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ افغانستان میں انسانی صورتحال خوفناک ہے۔
بین الاقوامی برادری افغانستان میں انسانی صورتحال بہتر بنانے کیلئے مدد کرے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان کے عدم استحکام کے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ افغانستان میں حکومتی کوششوں کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے، گویا ثابت کرتا ہے کہ افغانستان کی حکومت میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ افغانستان کی خرابی کا ذمہ دار امریکہ اور اس کے اتحادی بھی ہیں۔
امریکہ آج بھی دوہری پالیسی کا شکار ہے۔ کہنے کو امریکہ نے افغانستان خالی کر دیا ہے مگر نہ صرف یہ کہ امریکہ کی طرف سے بچھائے گئے کانٹے اب تک موجود ہیں بلکہ اس کی مداخلت بھی جاری ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن ہندوستان گئی تو پاکستان کے خلاف اس کا لب و لہجہ اور تھا اور پاکستان میں آئی تو اس کے لہجے میں تبدیلی تھی۔ امریکی نائب وزیر خارجہ کا یہ کہنا کہ ہم علاقائی و عالمی مسائل حل کرنا چاہتے ہیں اس بناء پر درست نہیں کہ مسائل ان کے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں۔ مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ دنیا کے ممالک ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت کا احترام کریں انہیں آزادی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق دیں۔ بڑی طاقتیں پوری دنیا میں راج کرنا چاہتی ہیں۔
اس سے ہی مسائل جنم لیتے ہیں۔ پاکستان کو آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنا ضروری ہے۔ افغانستان سمیت کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں نہ مداخلت کی جائے اور نہ کسی کو مداخلت کرنے دی جائے۔
ریاست مدینہ کی صرف بات نہ کی جائے بلکہ اس کی عملی صورت سامنے آنی چاہئے۔ پاکستان کو انسانی اور فلاحی ریاست ہونا چاہئے۔ ہم نے ہفتہ رحمت للعالمینؐ کا ذکر کیا تھا تو اپنی بات کو اس طرف لے آتے ہیں کہ سرکارﷺ کے دیئے گئے منشور پر عمل کرنے میں انسانیت کی بھلائی و بہتری ہے۔ وزیر اعلیٰ سردار محمد عثمان خان بزدار نے صوبہ بھر میں یکم ربیع الاوّل سے 12 ربیع الاوّل تک عشرہ شان رحمت للعالمینؐ منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحصیل، ضلع، ڈویژن، صوبائی سطح پر شان رحمت للعالمینؐ کے حوالے سے خصوصی تقریبات، محافل ہوں گی، گزشتہ سال بھی وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر ہفتہ رحمت للعالمینؐ منایا گیا تھا جو کہ خوش آئند امر ہے۔
صوبائی حکومت کا یہ فیصلہ بھی خوش آئند ہے کہ مرکزی رحمت للعالمینؐ کانفرنس، عالمی مشائخ علماء کانفرنس، انٹرنیشنل میلاد مصطفیؐ کا انعقاد کیا جائے گا، نعتیہ مشاعرہ اور مقابلہ حسن قرات و نعت اور دیگر تقاریب ہوں گی۔ ان تقاریب سے علماء کو خطاب اور شعراء کرام کی شاعری سے عاشقان رسولؐ کے قلوب منور ہوں گے۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ خطاطی کی نمائشیں، مقابلے منعقد ہوں گے۔
خطاطی مسلمانوں کا ورثہ ہے اس سے تخلیقی صلاحیتیں سامنے آتی ہیں۔ کمپیوٹر کی آمد کے بعد یہ فن زوال پذیر ہوا تاہم حکومت کے فیصلے سے اس فن کو زندہ کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروںکو کاکردگی کی بنیاد پر رحمت للعالمینؐ سے منسوب میڈل دیئے جائیں گے، قیدیوں اور سٹاف کیلئے پریزن پیکیج کا اعلان کیا جائے گا۔ یہ وہ بابرکت مہینہ ہے کہ اس میں جو بھی اقدامات کئے جائیں گے باعث برکت ہوں گے۔
اس کے ساتھ ربیع الاول شریف کا پیغام یہ ہے کہ اسوئہ حسنہ پر عمل کیا جائے اور سرکارﷺ نے انسانیت کی خدمت اور بہتری کیلئے جو پیغام دیا ہے اسے بروئے کار لایا جائے۔ سرکار ﷺنے انسانوں سے محبت کی بات کی ہے اور حقوق العباد پورے کرنے کا سختی کیساتھ حکم دیا گیا ہے۔ حقوق العباد حکومتوں کو بھی پورے کرنے چاہئیں۔ جب کوئی حکمران ایک خطے کو محروم کرکے دوسرے خطے کو ترقی دیتا ہے تو گویا محروم خطے میں بسنے والوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔اسی بناء پر حکومتوں کو بھی ہر صورت حقوق العباد کا پاس کرنا چاہئے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author