ارشادرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روایات میں آتا ہے کہ جب مجموعی طور پر کسی قوم میں کوئی گناہ عام ہوجایا کرتا تھا تو اللہ تعالی اس قوم پر عذاب نازل فرمایا کرتے تھے الیکشن 2018 میں پاکستانی قوم سے بھی مجموعی طور پر ایک گناہ سر زد ہوا ہے جس کی سزا موجودہ حکومت کی شکل میں بھگتنی پڑ رہی ہے چونکہ پہلی قوموں پر اللہ تعالی خود عذاب تجویز کیا کرتے تھے تو اس کا دورانیہ بھی روایات میں آتا ہے کہ مختصر ہوا کرتا تھا مگر موجودہ عذاب چونکہ ہم نے خود اپنے شوق سے اپنے لیے تجویز کیا ہے لہذا اس کا دورانیہ بھی پانچ سال سے کم نہیں جس میں سے تین سال یعنی ایک ہزار پچانوے دن ہم کاٹ چکے ہیں اور باقی کے دوسال یعنی سات سو تیس دن ابھی باقی ہیں پہلے عذاب اللہ تعالی دعاؤں اور منتوں سے جلد ٹال دیا کرتے تھے مگر اس عذاب کی مدت کا تعین ہم نے خود کر رکھا ہے لہذا اس کی سزا پانچ سال تو نہ چاہتے ہوۓ بھی کاٹنی ہی پڑے گی
اور یہ وہ عذاب ہے جس کی معافی نہ گڑگڑا کر دعائیں مانگنے میں ہے نہ منتیں دینے میں ، پہلے کے عذابوں کے دوران اللہ تعالی اپنے قاعدے اور قانون کے مطابق اُن لوگوں کو محفوظ رکھتا تھا جو اس گناہ میں ملوث نہیں ہوا کرتے تھے مگر یہاں تو گیلے سوکھے یعنی (سنے سُکے) سب برابر عذاب کی آگ میں جھلس رہے ہیں اور کوئی ان کی آہ وبکا اور فریاد سننے والا بھی نہیں ہے چند زمینی ناخداؤں کی خواہش پر جب سے یہ حکومت عوام پر مسلط کی گئی ہے کوئی دن ایسا نہیں گذرا جس دن مہنگائی میں اضافہ نہ ہوا ہو روزانہ کی بنیاد پر ڈالر اوپر جا رہا ہے اشیاء خورد ونوش اور دیگر روز مرہ کی چیزوں کو تو پر لگ گئے ان کی اُڑان رکنے یا تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی صبح ایک چیز پچاس کی ہوتی ہے تو شام کو سو کی ہو جاتی ہے اور پھر وزیراعظم کے نوٹس لینے پر وہی چیز دوسرے دن ڈیڑھ سو کی ہو جاتی ہے اور ساتھ ساتھ مارکیٹ سے نایاب بھی ہوجاتی ہے گذشتہ ایک دن میں عوام پر جو ظلم ڈھایا گیا اس کے فیکٹ اور فگر کچھ یوں ہیں کہ پٹرول کی مد میں چار روپے فی لیٹر اور مجموعی طور پر پٹرولیم مصنوعات میں آٹھ سے دس روپے فی لیٹر اضافہ ہوا ہے گیس میں فی کلو تقریباً پینتیس روپے کا اضافہ اور گھریلو سلنڈرتقریبا تین سے ساڑھے تین سو تک مہنگا ہوا ہے بجلی کی قیمت میں تقریبا پونے دو روپے فی یونٹ اضافہ ہوا ہے آنے والے دنوں میں چینی تقریباً ایک سو پچیس روپے ہو جاۓ گی ایک ہی دن میں چنے کی دال میں چالیس روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے اسی طرح گھی کوکنگ آئل کے نرخوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے متوسط طبقے کے زیر استعمال موٹر بائیکس کی قیمتوں میں کم از کم پانچ سے پندرہ ہزار فی بائیک اضافہ ہوا ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے تمام اشیاء زندگی میں کئی گنا اضافہ ہو جاۓ گا اوپر سے ایک اور خطرناک تلوار لٹک رہی ہے کہ اگر وزیر اعظم صاحب نے ان چیزوں کا نوٹس لے لیا تو پھر قیمتوں میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ چیزیں نایاب بھی ہو جائیں گی اور لمبی لائنوں میں لگ کر خریدنی پڑیں گی دوسری طرف حکومت اور حکومتی مشیروں اور وزرا کے منہ کی بواسیر میڈیا پر کچھ اس طرح نکلتی ہے کہ عمران خان کی حکومت میں عوام کی قوت خرید بڑھی ہے اور عوام کا معیار زندگی بلند ہوا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی نے مڈل کلاس اور لوئرمڈل کلاس کا جینا دو بھر کر دیا ہے آٹا ایٹم اور بجلی بموں نے عوام کی دور اور نذدیک کی نظر کمزور کر دی ہے بستی بستی گلی گلی فاقوں کے ڈسپلے جاری ہیں لوگ فاقوں کے پلی بارگین کے فارمولے پوچھ رہے ہیں مہنگائی اور بلوں سے ستاۓ لوگ اپنے بچوں سمیت نہروں اور دریاؤں میں چھلانگیں لگانے پر مجبور ہیں تو کبھی اپنے بچوں کو بھوک کی وجہ سے سسکتا بلکتا دیکھ کر دہکتی آگ میں جھونک دیتے ہیں اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلۓ اپنی آنکھیں اور گردے تک بیچنے کو تیار ہو جاتے ہیں اپنی کمسن بچیاں دلالوں کے حوالے کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں جبکہ حکومتی وزراء اور مشیر بے حیائی اور ڈٹھائی کے ماؤنٹ ایورسٹ پر براجمان ہوکر سب اچھا ہے کی گردان پڑھے جا رہے ہیں خود پردھان منتری صاحب ایک سو چھبیس دن کے دھرنے میں روز شام کو آکر قوم کی بربادی کے کنٹینر پر کھڑے ہوکر فرماتے تھے اگر کوئی حکومت مہنگائی کر رہی ہو تو سمجھو اس کا وزیراعظم چور ہے اگر بلوں اور ٹیکسوں میں آضافہ ہو ریا ہو تو سمجھ جاؤ اس کا وزیراعظم چور اور ڈاکو ہے پٹرول کی قیمتیں عوام کو سمجھایا کرتے تھے آپہ زبیدہ کی طرح مفت مشورے دیا کرتے تھے کہ بجلی و گیس کے بل جمع کروانے کی بجاۓ جلا دیے جائیں سول نافرمانی پر اکسایا کرتے تھے پورا پاکستان بند کرنے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے مجھے تو اب اس کی ایک ایک بات کا کہا گیا ایک ایک لفظ سو فیصد سچ لگ رہا ہے کہ ہمارا وزیراعظم چور بھی ہے ڈاکو بھی ہے مغرور اور احساس سے عاری بھی ہے کیونکہ اس کے چور اور ڈاکو ہونے کے بناۓ ہوۓ تمام تر معیارات اس کی اپنی ذات پر سو فیصد صادر آتے ہیں مجھے تو لگتا ہے یہ حکومت مہنگائی اور بے روز گاری کے علاوہ کوئی اور کام ڈھنگ کا کر ہی نہیں سکتی اس حکومت کے تین سالوں یعنی تقریباً گیارہ سو دنوں میں مہنگائی بے روز گاری اور قرضوں کا چارٹ دیکھیں تو آپ کے ہوش اُڑ جائیں ہوش تو خیر مہنگائی اور بے روز گاری نے پہلے ہی اڑا رکھے ہیں اب صرف طوطے اڑنا باقی ہیں اور طوطے اڑانے کیلۓ کچھ فیکٹ اور فگر ملاحظہ فرمائیں
ملکی قرض ستر سال میں پچیس ہزار ارب اور ان تین سالوں میں پنتالیس ہزار ارب ہوگیا ، ڈالر ستر سال میں ایک سو پانچ پر اور ان تین سالوں میں ایک سو ستر کو کراس کر رہا ہے ، چینی ستر سال میں ساٹھ روپے جبکہ ان تین سالوں میں ایک سو پانچ روپے ہوگئی ، گھی کی قیمت ستر سالوں میں ایک سو ستر جبکہ ان گیارہ سو دنوں میں تین سو پچاس روپے کو کراس کر رہی ہے ، آٹا ستر سالوں میں پینتیس روپے جبکہ تین سالوں میں اسی روپے فی کلو ہوگیا ہے اس طرح سونا ستر سال میں پچاس ہزار جبکہ ان تیں سالوں میں ایک لاکھ دس ہزار روپے ، ڈی اے پی کھاد ستر سال میں پینتیس سو روپے جبکہ عمرانی حکومت کے تین سال میں پینسٹھ سو روپے ہوگئی ہے، محترم قارئین حضرات زندگی بچانے والی جو ادویات ستر سال میں ایک سو دس کی تھی وہ اب اس حکومت کے گیارہ سو دنوں میں تیں سو تیس کی مل رہی ہیں ستر سال میں بجلی فی یونٹ آٹھ روپے جبکہ عمرانی تین سالوں میں بائیس روپے سے بڑھ رہا ہے، گیس کا جو بل ستر سال میں تین سو کا آتا تھا اب تین ہزار کا آتا ہے غریب طبقہ کیلۓ موٹر سائیکل ستر سال میں ساٹھ ہزار کا تھا جو ان تیں سالوں میں پچانوے ہزار کو کراس کر رہا ہے اور کچھ تو ڈیڑھ لاکھ سے تین لاکھ تک جا پہنچے ہیں ، سب سے اہم بات کہ کشمیر جو پاکستان کی شہ رگ سمجھا جاتا تھا ستر سالوں میں متنازعہ رہا جبکہ عمرانی حکومت کے گیارہ سو دنوں میں بھارتی ریاست بن گیا، تعلیم یافتہ طبقہ میں ستر سال سے جو بے روز گاری تیں فی صد تھی اس نااہل نالائق حکومت کے تین سالوں یعنی تقریباً گیارہ سو دنوں میں سولہ فی صد کو کراس کر رہی ہے
یہ ہے موجودہ حکومت کے تین سالوں کا دردناک عذاب جو بائیس کروڑ عوام جھیل رہے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی