احمد اعجاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افلاطون کے تعلیمی فلسفے میں نصاب اور طریقہ تدریس بہت اہم تصور کیے جاتے ہیں ۔افلاطون کا تعلیمی فلسفہ سولہویں صدی تک آتا ہے ۔ افلاطون حکمرانوں اور اربابِ اختیار کی تعلیم کا طرفدار تھا۔وہ ریاستی اُمور چلانے والوںکو باشعور اور پڑھا لکھا دیکھنا چاہتا تھا۔اُس کے نزدیک پروفیشنل تعلیم کی اہمیت تھی۔افلاطون تعلیمی نصاب کے حوالے سے مختلف مراحل کا قائل تھا،یعنی ہرمرحلہ دوسرے مرحلے سے مختلف ہو۔یوںاُس نے تعلیم کو مختلف مراحل میں تقسیم کیا اور ہر مرحلے یعنی سٹیج کے لیے نصاب کومخصوص کیا۔
نصاب سازی کے ضمن میں اُس کانظریہ ،یہ تھاکہ وہ ہر مرحلہ پر ذہنی اور جسمانی تربیت کاباعث ہو۔ افلاطون کے بعد سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میںفرانسس بیکن اور جان لاک نے تعلیمی فلسفے پر کافی اثرات مرتب کیے۔ وہ 1632ء میں برطانیہ میں پیدا ہوا اور 1704ء میںوفات پاگیا ۔جان لاک اس لحاظ سے انفرادیت رکھتا ہے کہ اُس کے تعلیمی تصورات نے علم سائنس کے علم کو نظریاتی بنیاد فراہم کی۔ اس کے تصورات میں تعلیم کا مقصد ایسے طالبِ علم پیدا کرنا تھاجو دوسروں کی مسرتوں کوطاقت بخشیں،نیز طریقہ تعلیم دلچسپی کا حامل ہو،اساتذہ بچوںکی دلچسپیوں اور اُن کے ذہنی میلانات ورجحانات کواہمیت دیں اور صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں ۔
ژاں ژاک روسو فرد کی آزادی اور معصومیت کو بہت اہم گردانتا تھا۔اُس کاخیال تھا کہ ماضی کاانسان خود مختار تھا۔تعلیم کے ضمن میں بھی روسو مختلف مراحل کو اہمیت دیتا تھالیکن وہ ہر مرحلہ کے لیے طالبِ علموں کے لیے ذاتی تجربے کو اہم جانتا تھا۔اُس کے نزدیک ایسی تعلیم بے کار ہے جو بچے کے دل کو بری لگے اور اُس کی دلچسپی کو نہ بڑھا سکے۔یعنی اس لحاظ سے دیکھاجائے تو روسو کے نزدیک بچے کی تعلیم پر جبر کی گنجائش نہ تھی۔روسوکے تصورِ تعلیم میں بچے کوآزادرہنے دیا جائے تاکہ وہ اپنے تجربات سے سیکھے ،پھر جو اُس کے تجربات کے نتائج برآمد ہوں اُس کا بچے کومشاہدہ کروانا چاہیے۔
پستالوزی نے تعلیم میں نفسیات کے استعمال پر زور دیا تھا۔ نیز پڑھائے جانے والے مضمون سے زیادہ اہمیت بچے کی شخصیت کو حاصل ہے۔ وہ بچے کی جسمانی، ذہنی ، اور اخلاقی تعلیم کا قائل تھا۔ اور غالباً پہلا شخص تھا جس نے صنعتی تعلیم کو مدرسہ کے نصاب میں شامل کیا۔جان ڈیوی تعلیم کی دُنیا میں صحیح معنوں میں نابغہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔جان ڈیوی کی تعلیمی تحریک نے امریکی سماج کو بدل کر رکھ دیا۔وہ نظامِ تعلیم میں بچے کی آزادی پر زور دیتا ہے ،وہ بچے کی انفرادی حیثیت اور شخصیت کو نکھارنے پر اہمیت دیتا ہے ۔
اُس کے نزدیک تعلیمی نظام ہمیشہ ترقی پذیر رہنا چاہیے اور جیسے جیسے وقت اور حالات کا دھارا بدلتا جائے تعلیمی نظام بھی ہم آہنگ ہوتا جائے ،کیونکہ تعلیم کوئی جامد نظریہ نہیں یہ متحرک عمل ہے۔اُس کے نزدیک تعلیم کے بنیادی فرائض میں سے اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ ذہانت کی ترویج کرے۔ایسی ذہانت جو بچے کی صلاحیت کو فروغ دے،تاکہ وہ پھر مسائل سے عہدہ برآ ہو سکے۔جان ڈیوی کے نزدیک سکول میں بچے کے لیے ایسے مواقع تشکیل دیے جائیں جس سے اُس کی ذہنی صلاحیت کو ازخود جِلا ملے،وہ تجربات کرے اور اُن کے نتائج اور مطالب نکالے۔یعنی سکول کا زمانہ بچے کا سماجی زمانہ ہو۔وہ گھر اور سکول میں زیادہ امتیاز نہ کرے، سکول میں زندگی کے حقیقی تجربات اُٹھائے۔بچوں پر چیزیں اور علم مسلط نہ کیاجائے،اس میں اساتذہ کا کردار بھی محدود ہوناچاہیے۔
اساتذہ کا کردار ان معنوں میں محدود کہ وہ فیصلہ نہ کریں کہ بچے نے کیا سیکھنا ہے ،یا اُسے کیا سکھایاجائے،بلکہ بچہ خود فیصلہ کرے کہ اُس نے کیا سیکھنا ہے ۔یہ فیصلہ وہ اپنی دلچسپیوں اور ذہنی میلانات و رجحانات کے یقینی طور پر تابع رہ کر ے گا۔بچے کے ذہنی میلانات کی روشنی میں سیکھنے کے معاملے میں تعلیمی نصاب ایسا ہو کہ وہ بچے کی دلچسپی میں اضافہ کاسبب بنے۔لہٰذا بچے سیکھنے اور پڑھنے کے عمل کے دوران تجربات کریں۔پھر اُنہی تجربات کی روشنی میں، ازخود مسائل سے نمٹنے کی سعی کریں ۔لیکن پاکستان کے تعلیمی نظام میںمعاملہ مختلف ہے۔
یہاں تعلیمی پیمانے مقرر کیے جاتے ہیں ،نصاب ترتیب دیا جاتا ہے اور وہ لوگ ترتیب دیتے ہیںجو مخصوص ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں اور اُس ’’ذہنیت ‘‘کو بچے کی معصوم نفسیات میں دخیل کرنا چاہتے ہیں ۔جان ڈیوی کے تعلیمی فلسفے میں رَٹے کی قطعی گنجائش نہیں تھی جب کہ ہمارے ہاں رَٹا مشین بنایا جاتا ہے ۔خیبرپختونخوا میں حالیہ امتحانی نتائج میں گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر بھی لیے گئے ہیں۔رَٹا سسٹم کے اندررہ کر بچہ کچھ خود سے نہیں کرسکتا۔
رَٹے کو ہمارے تعلیمی نظام میں مہارت سمجھا جاتا ہے۔بچہ خود کچھ نہ کرسکے ،جان ڈیوی اس نظریے کے خلاف تھا۔سیدھی سی بات ہے کہ کہ جب بچہ محض رٹا لگائے گا تو خود کچھ کرسکنے کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔رَٹا سسٹم کی ایک قباحت یہ ہے کہ یہ طے شدہ نصاب ہوتا ہے ،لیکن جان ڈیوی خیال ظاہر کرتا ہے کہ نصاب کسی کا طے شدہ نہیں ہوناچاہیے بلکہ اس کا فیصلہ بچوں کے ساتھ مل جل کرکیا جاناچاہیے۔جان ڈیوی اس پہلو کا طرف دار تھا کہ سکول میں مقابلے کی فضا برقرار نہ رکھی جائے ۔
مقابلے کی فضا میں بچہ اپنے ہم مکتب سے آگے نکلنے کی تگ و دو کرے گا۔اس سے جو فضا جنم لے گی وہ باہمی میل میلاپ کی بجائے ایک دوسرے سے فاصلے اور تنائو کو جنم دے گی۔اُس کے مطابق اس مقابلہ کی فضا سے بچہ کے اندر اپنی ذات کا پہلو ہی نمایاں نکلے گااور وہ خود کو باقی سب سے افضل گردانے گا۔جب کہ ہمارے ہاں عجب ماجرا ہے ۔
ہمارے ہاں ذہین بچہ وہی ہے ،جو نمبر زیادہ لے ۔اُسی بچے کی مداح سرائی کی جاتی ہے جو دوسروں سے مقابلے میں جیتے ۔کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ جو بچے زیادہ نمبر لیتے ہیں ،اُن کے نفسیاتی روّیے کس نوع کے ہوتے ہیں ؟پاکستانی سکولوں میں بچوں میں فرسٹ ،سیکنڈ اور تھرڈ انعامات تقسیم کیے جاتے ہیں ۔انعامات پانے والے بچے،کیا ضروری ہے کہ آنے والی زندگی میں کامیاب ہوں؟ تعلیمی نظام میں سب سے بنیادی اہمیت طالبِ علم کی ہوتی ہے۔مگر ہمارے تعلیمی نظام سے طالبِ علم غائب ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر