رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کی سب سے بڑی کمزوریوں میں سے ایک ترغیب (Temptation) سمجھی جاتی ہے۔ آپ کی بہادری یا ایمانداری کا اس دن ٹیسٹ ہوتا ہے جب کسی ترغیب کا سامنا کرنا پڑے۔ ترغیب کسی چیز کی بھی ہو سکتی ہے اور ہمیشہ ایسی چیز ہوتی ہے جو لانگ ٹرم میں آپ کیلئے مشکلات لانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ہم روز نہیں تو اکثر اس کا سامنا کرتے رہتے ہیں اور مجھے نہیں پتہ ہم میں سے کتنے کامیاب ہوتے ہوں گے جو کسی ترغیب کے جال میں نہ پھنسیں۔ آپ نے بھی ایسی فلمیں دیکھی ہوں گی جن میں اکثر دکھا جاتا ہے کہ ایماندار افسر کے گھر علاقے کا ڈان جب بھی جائے گا‘ ایک بریف کیس میں نوٹ بھر کر لے جائے گا۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ ڈان اس افسر کو اس رقم کے برابر ایک چیک دینے کے بجائے بریف کیس میں کیش کیوں دے رہا ہوتا ہے؟ جو کام محض کاغذ کے ایک ٹکڑے سے ہوسکتا ہے اس کے لیے اتنی تکلیف کی کیا ضرورت ہے کہ پورا بریف کیس نوٹوں سے بھر لو اور کسی کے سامنے کھول کر بیٹھ جائو۔ خیر بڑے عرصے بعد مجھے احساس ہواکہ یہ سب کام ترغیب کا ہے اور جو ترغیب نقد نوٹوں کی گڈیاں دے سکتی ہیں وہ ایک چیک نہیں کرسکتا۔ چیک سامنے پڑا ہو تو اسے اٹھاکر پھینکا جاسکتا ہے‘ لیکن اگر پورا بریف کیس نوٹوں سے بھرا ہو تو ایک لمحے کیلئے تو بڑے سے بڑا نیک انسان ڈگمگا جائے گا۔ یہی انسانی فلاسفی اور نفسیات ہے کہ انسان ایک ارب روپے کے بینک چیک کے سامنے ایماندار اور ٹھہر جائے گا لیکن بریف کیس میں ایک کروڑ روپے کو دیکھ کر سوچوں میں پڑ جائے گا۔ یہی کچھ ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ہوا‘ جو ایمانداری کے ڈھول پیٹتے تھے اور جن کیلئے پیسہ اور دنیاوی اشیا کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ وہ جنہیں خدا نے ملک کا بادشاہ بنایا وہ اس وقت اوندھے منہ گر پڑے جب ان کے سامنے بریف کیس کے منہ کھولے گئے اور جب انہوں نے اپنے سامنے ہیرے جواہرات، سونے کے زیورات، رولیکس گھڑیوں، نیکلس، بریسلیٹس، جیولری باکس کے ڈھیر لگے دیکھے۔ اب آپ کا یہ امتحان تھا۔ آپ کی نیکی ایمانداری کا۔ لیکن کیا ہوا؟
آپ بیرون ملک دورے پر تھے اور ان ملکوں کے سربراہان نے روایت کے طور پر تحائف دیے۔ تحائف بھی وہ جن کی مالیت کروڑوں میں تھی۔ اب یہ اصول صدیوں سے چلا آرہا ہے کہ تحائف کسی بندے کو نہیں ملتے بلکہ ریاست یا اس عہدے کو ملتے ہیں جس پر وہ براجماں ہوتا ہے‘ اس لیے امریکہ جیسے ملکوں میں بھی تحائف وہاں کے توشہ خانے میں جمع کرا دیے جاتے ہیں اگر وہ مہنگے ہوں۔ ہاں اگر معمولی نوعیت کے ہوں تو پھر وہ گھر لے جاسکتے ہیں۔ اب اگر حکمران پاکستانی ہو تو وہ بھلا کیسے قیمتی تحفے اٹھا کر توشہ خانے میں جمع کرا دے کہ یہ قوم کا خزانہ ہے قوم کے پاس رہے۔ لہٰذا ان حکمرانوں اور بیوروکریٹس نے مل کر چپکے سے اپنے لیے ایک الگ قانون بنا لیا کہ جو تحفہ ملے گا واپسی پر پاکستانی بازار سے اس کی قیمت کا اندازہ لگوایا جائے گا اور جو بھی کل لاگت ہوگی اس کا دس فیصد ادا کرکے وہ حکمران یا بیوروکریٹ یا دیگر لے جا سکتے ہیں۔ اگر تحفہ ایک کروڑ روپے کا ہے تو آپ دس لاکھ روپے ادا کرکے نوے لاکھ روپے کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اب ہوتا یہ ہے کہ افسران حکمرانوں اور سرکاری افسران کو اس لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ فائدہ دینے اور خوشامد کے لیے ان قیمتی تحائف کی پاکستانی بازار سے قیمت کم سے کم لگواتے ہیں تاکہ انہیں اس کا دس فیصد بھی کم دینا پڑے۔ ان تحائف کی مقامی بازار سے لاگت کیسے کرائی جاتی ہے کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ شوکت عزیز نیپال گئے تو گورنر نیپال نے ان کی بیگم صاحبہ کو دو ریشمی سکارف تحفے میں دیے۔ واپسی پر ان سکارفس کی قیمت صرف پچاس روپے لگائی گئی۔ مطلب پچیس روپے فی سکارف۔ اسی طرح برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر پاکستان کے دورے پر آئے تو شوکت عزیز کیلئے تحفہ لائے جس کی قیمت یہاں صرف دو ہزار روپے لگا کر تحفہ شوکت عزیز کو تھما دیا گیا۔ شہزادہ چارلس پاکستان آئے تو اپنے ساتھ ایک لیڈی بیگ لائے جو بیگم شوکت عزیز کو تحفہ کے طور پر دیا۔ اس کی قیمت افسران نے صرف تین سو روپے لگوائی اور بیگم صاحبہ کو تھما دیا گیا۔
حکمرانوں کو کیا کچھ ملتا ہے اس کی ایک جھلک اس سے ملے گی کہ بیگم پرویز مشرف کو سعودی عرب کے دورے میں ایک جیولری باکس ملا۔ کھولا گیا تو اس میں سے نیکلس، ڈائمنڈ سیٹ، بریسلیٹ، گولڈ سیٹ، اور دیگر اشیا نکلیں۔ وطن واپسی پر اس جیولری باکس کی قیمت کم کراتے کراتے بھی ستر لاکھ روپے لگائی گئی۔ جنہوں نے شوکت عزیز کے تحائف کی قیمتیں دو ہزار روپے، تین سو روپے یا پچیس روپے فی سکارف لگوائی تھیں وہی اس جیولری باکس کی لاگت لگوا رہے تھے‘ لیکن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود لاگت ستر لاکھ تک لا سکے۔ دس فیصد ادائیگی کی گئی اور جیولری باکس صہبا مشرف گھر لے گئیں۔ اب ذہن میں رکھیں کہ ایسے جیولری باکس یا قیمتی تحائف ہر دفعہ پاکستان کا جو بھی وزیراعظم یا صدر عمرہ کرنے جاتا ہے اس کی بیگم صاحبہ کو میزبان پیش کرتے ہیں۔ ان تحائف میں اتنی گڑ بڑ کی گئی کہ اس وقت گیلانی، زرداری اور نواز شریف نیب میں توشہ خانہ ریفرنس کا سامنا کررہے ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھاکہ ان تحائف کی تفصیل اگر قومی اسمبلی یا سینیٹ مانگ لیتی تھی تو کابینہ ڈویژن وہ سب تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کرتا تھا‘ لیکن نواز شریف جب تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے دنیا کے ایک سو سے زائد ملکوں کا دورہ کیا اور انہیں بڑی تعداد میں تحائف بھی ملے۔ ایک دن سینیٹر کلثوم پروین نے سینیٹ میں سوال اٹھا دیاکہ نواز شریف دور کے تین سالوں میں بیرونی ممالک سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ اس پر وزیراعظم ہائوس اور کابینہ ڈویژن میں تھرتھلی مچ گئی کہ اب کیا کریں۔ سرکاری بابوز حکمرانوں کی کرپشن چھپانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ فوراً پرویز مشرف دور کے انفارمیشن آرڈیننس 2002 کا حوالہ دیا گیا‘ جس کے تحت ان تحائف کو قومی راز ڈکلیئر کر دیا گیا اور کہا گیا کہ اگر تحائف کی فہرست دی گئی یا ملک کے نام کا پتہ چلا کہ کس نے دیا ہے تو ریاستوں کے تعلقات خراب ہوں گے۔ اندازہ کریں جو جیولری باکس، ہیرے جواہرات، نیکلس، رولیکس گھڑیاں، ڈالروں میں نقدیاں، بریسلیٹ تحائف کے نام پر گھر لے جا رہے تھے اچانک انہیں پتہ چلا کہ یہ تو قومی راز ہیں۔ سب کا خیال تھاکہ عمران خان مختلف ثابت ہوں گے لیکن اب جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں اور خاتون اول کو بیرونی ملکوں سے کیا کیا تحائف ملے ہیں تو بالکل وہی جواب دیا گیا جو نواز شریف حکومت نے کلثوم پروین کو دیا تھاکہ یہ قومی راز ہیں۔ ان قومی رازوں میں سے ایک راز یہ بھی ہے چھوڑیں شوکت عزیز کو ملنے والے کروڑوں روپے کے باقی 1126 تحائف کو جو وہ اونے پونے لے گئے، صرف بیگم رخسانہ عزیز بارہ نیکلس اپنے گھر لے گئی تھیں۔
اب آپ کو اندازہ ہورہا ہے کہ جناب وزیراعظم بیرونی دوروں میں ملنے والے تحائف کو کیوں قومی راز ڈکلیئر کئے بیٹھے ہیں؟
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ