نومبر 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ترجمہ کرنے کا فن||رضاعلی عابدی

ہے دکھ دینے والی بات۔ ایک بار ایک فائیو اسٹار اسکول کے طالب علموں سے پوچھا گیا کہ آج کل وہ کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ پتہ چلا کہ کچھ بھی نہیں پڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح کے مسلسل سوال کرتے ہوئے آخر میں یہ انکشاف ہوا کہ بعض گھروں میں کوئی کتاب ہی نہیں۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اخبار اور ٹیلی وژن والوں کو سمجھا سمجھا کر تھک گیا مگر کیامجال جو کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔بہت سیدھی سی، سادہ سی بات ہے مگر دھیان دینا تو ضروری ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ انگریزی کے لفظ havenاور heavenمیں زمین آسمان کا فرق ہے۔زمین آسمان کی بات میں نے یوں ہی نہیں کہہ دی۔ اس وقت آپ کے سامنے انگریزی کے دو لفظ ہیں۔ پہلے لفظ سے مراد کمیں گاہ یا گھات لگا کر بیٹھنے کا ٹھکانا ہے۔ اور دوسرے لفظ کے اردو متبادل بہشت یا جنت ہوتے ہیں۔ لیکن اخباروں میں یا ٹی وی پر مستقل اس طرح کے فقرے پڑھنے، سننے میں آتے ہیں کہ افغانستان دہشت گردوں کی بہشت بن گیا ہے یا قبائلی علاقے شدت پسندوں کی جنّت بن گئے ہیں۔مگر ترجمہ کرنے والوں کے بارے میں کیا عرض کروں۔ جانتا ہوں کہ سب پڑھے لکھے ہیں، سب تعلیم یافتہ ہیں مگر عام لوگوں کے بارے میں اکثر دکھی دل سے شکایت کرتا ہوں کہ لوگ پڑھتے نہیں۔ کلاس روم چھوڑنے کے بعد پڑھنے لکھنے کا عمل رک جاتا ہے اور خود اپنی تربیت کا سلسلہ وہیں رک جاتا ہے۔مجھے اپنا کار چلانے کا ٹیسٹ پاس کرنے کا دن یاد رہے گا۔ میرے معلم نے پاس ہونے کے بعد کار کی چابی میرے حوالے کرتے ہوئے کہا: تمہاری اصل تربیت اب شروع ہوتی ہے۔

ہے دکھ دینے والی بات۔ ایک بار ایک فائیو اسٹار اسکول کے طالب علموں سے پوچھا گیا کہ آج کل وہ کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ پتہ چلا کہ کچھ بھی نہیں پڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح کے مسلسل سوال کرتے ہوئے آخر میں یہ انکشاف ہوا کہ بعض گھروں میں کوئی کتاب ہی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تعلیم کبھی مکمل نہیں ہوتی، علم حاصل کرنے کا سلسلہ ایک روز بھی نہیں ٹھہرتا۔ ہم نے تو اپنے بعض بزرگوں کے بارے میں سنا ہے کہ جس کاغذ میں لپٹا ہوا گھر کا سودا آتا تھا، وہ کاغذ لے کر پڑھ لیتے تھے کہ شاید کوئی کام کی بات لکھی ہو۔

علم کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ظالم چھپی نہیں رہتی۔سب ہی جانتے ہیں کہ کلام کرتے ہی انسان کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ وہ قول کس نے نہیں سنا کہ کلام کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے گھروں میں ہمارے بزرگ ہم لوگوں کی بول چال پر کڑی نگاہ رکھتے تھے۔ بے شمار لفظ ایسے تھے جو ہم اپنے بڑوں کے سامنے نہیں بولتے تھے۔ مثال کے طور پر جسے سب ڈھکّن کہتے ہیں،ہم پر لازم تھا کہ ڈھکنا کہیں۔ جسے عام لوگ چدّر کہتے تھے ، ہمیں حکم تھا کہ چادر کہیں۔جسے سب چٹخنی کہتے ہیں، ہم سٹکنی کہتے تھے۔ یہ مہذب گفتگو کے الگ ہی ڈھنگ تھے۔اس میں لفظ اپنی شکل بدل بھی لیتے تھے۔ مثلاً شوربہ کو گھر کے بچے شُروا کہا کرتے تھے اور پیالے کو کٹورا اور کاسہ، کباب کو کواب اور بھاجی کو ہم نے ہمیشہ بھجیا کہا۔ اس بات کا اگرچہ علم کے کم یا زیادہ ہونے سے تعلق نہیں لیکن اس میں بھی ایک طرح کا رکھ رکھاؤ ہوتا تھا اور اس سے بھی شائستگی جھلکتی تھی۔

بات ترجمے سے شروع ہوکر بہت دور نکل گئی۔ فکر کی تگ و دو میں ایسا اکثر ہوا ہے۔ ترجمے کا ہماری زندگی میں بڑا دخل رہا ہے۔تیرتھ رام فیروز پوری ہمارے ذہنوں سے ابھی تک محونہیں ہوئے ہیں۔ کونن ڈائل اور شرلک ہومز کو ہم نے ترجمے کی شکل میں پڑھا۔ رائیڈر ہیگرڈ کے نیندیں اڑا دینے والے ناول، مثلاً شی اور ریٹرن آف شی اگر عائشہ اور عائشہ کی واپسی کی شکل میں نہ ملے ہوتے تو ہم شاید محروم ہی رہ جاتے۔تیرتھ رام کے بارے میں تو مشہور ہے کہ انہوں نے انگریزی کی واجبی سی تعلیم پائی تھی مگر انگریزی ناولوں کا جیسا ترجمہ کیا ، کوئی دوسرا نہ کرسکا۔ ان کی تو یہ حالت تھی کہ بقول شخصے، جب انگریزی پڑھتے تھے تو سطروں کے درمیان اردو عبارت نظر آتی تھی۔

ترجمہ علم کی ترسیل کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ہمارے دوست محمد عمر میمن بتایا کرتے تھے کہ ان کی اہلیہ جاپانی تھیں اور بے حد پڑھی لکھی تھیں۔ اس کا سبب وہ یہ بتاتے تھے کہ جاپان والے راتوں رات ترجمہ کرکے چھاپ دینے کے ماہر ہیں، اور دنیا میں جوں ہی کوئی معرکہ آرا کتاب چھپتی ہے، جاپانی زبان میں اس کا ترجمہ فوراً ہی شائع ہوجاتا ہے اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتا ہے۔

ترجمے کے میدان میں بڑا نام شکیل عادل زادہ کا ہے جنہوں نے ایک عجب کام یہ کیا کہ اپنا جریدہ سب رنگ نکالا جو دنیا بھر کی مختصر کہانیوں کی وجہ سے شہرت پاگیا ۔ہوا یہ کہ ان کے گرد مردو زن کی ایسی برادری قائم ہوگئی جس نے عالمی فکشن کو اردو میں ڈھالنے کی ذمہ داری سنبھال لی اور کہانی کے انتخاب سے ترجمہ اور اشاعت تک سارے مرحلے طے کرنے کا ہنر سیکھ لیا۔اس کہانی کار طبقے نے دنیا بھر کے معروف اور کم معروف افسانوں کا اردو ترجمہ کیا، کبھی توانا، کبھی کم توانا مگر ایسا بڑا کام کردیا کہ اردو دنیا عرصے تک یاد رکھے گی۔ اب عادل زادہ کے دست راست حسن رضا گوندل، بُک کارنر ،جہلم کے اشتراک سے ان فسانوں کو بڑی نفاست سے شائع کررہے ہیں۔ اس طرح پرانے اور بہت پرانے شماروں سے اڑان بھر کر یہ کہانیاں ہمارے گھروں میں اتر رہی ہیں۔ سچ پوچھئے تو اردو زبان پر یہ ادب نوازی کی جھڑی لگی ہے جس میں شرابور ہونے کا الگ ہی لطف ہے۔

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author