محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکساں قومی نصاب کی بحث کے مختلف پہلوﺅں پر دانستہ لکھ رہا ہوں کہ یہ موضوع انتہائی اہم ہے۔ وہ نصاب جو ہمارے بچوں کو پڑھایا جانا ہے، اس کے بارے میں اگر ہم متفکر نہیں ہوں گے تو اور کیوں ہوگا؟اس حوالے سے بہت سے سوالات اورکئی آرا ہیں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ اپنی رائے قاری پرمسلط کرنے کے بجائے مختلف پہلو سامنے رکھے جائیں تاکہ وہ خود اپنی رائے بنا سکیں۔ دو تین مرکزی سوالات کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
کیا نئے قومی نصاب میں ایک کتاب پڑھائی جائے گی؟
اس کا جواب نفی میں ہے۔ تمام سکولوں میں ایک کتاب نہیں پڑھائی جائے گی ۔ اس کے لئے پہلے سوچا گیا اور شائد کچھ کوشش بھی کی گئی، مگر پھر عملی مسائل ، مشکلات، ردعمل اور بعض دیگر عوامل کے تحت ایسا نہیں کیا جا رہا۔ یکساں قومی نصاب سے اکثر لوگ یہی مراد لیتے ہیں کہ ایچیسن کالج یا اشرافیہ کے انگلش میڈیم سکولوں سے لے کر راجن پور، صادق آباد اور دور دراز کے پسماندہ علاقوں تک ایک ہی کتاب پڑھائی جائے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تصور میں کشش اور خاص قسم کی انقلابی رومانویت ہے۔ لوگ یہ سوچ کر ہی لطف اٹھاتے ہیں کہ ہم نے سرکاری سکول کے بچوں والی کتاب اشرفیہ سکولوں کے امیر زادوں کو بھی پڑھا دی ہے۔ایسے لوگوں کو نوید ہو کہ ایک درسی کتاب نہیں پڑھائی جائے گی،البتہ ایک نصاب سب کو فالو کرنا پڑے گا۔
نصابی خاکہ جو یکساں قومی نصاب کے لئے طے کیا گیا، وہی عام سرکاری سکولوں، درمیانے نجی سکولوں، اشرافیہ کے بیس پچیس ہزار ماہانہ والے سکولوں اورغیر ملکی کرنسی میں فیس لینے والے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جائے گا۔ اصولی اور قانونی طور پر نصابی خاکہ کو نظرانداز کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ایسا سکول بند ہوسکتا ہے۔ نصابی خاکے کی روشنی میں البتہ ایک سے زیادہ کتابیں تیار ہوسکتی ہیں ۔ این اوسی (NOC)لینے کے بعد وہ پڑھائی جا سکتی ہیں۔
کیااین اوسی لینا رسمی کارروائی ہوگی ؟
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ آکسفورڈ، کیمبرج جیسے بڑے اداروں کے لئے این اوسی (NOC)لینا ایک رسمی کارروائی ہوگی، وہ آسانی سے اپنی کتابیںمنظور کرا لیں گے اور یوں وہی پہلے والا معاملہ ہوجائے گا۔ یکساں قومی نصاب والوں نے اپنی طرف سے اس خدشے کو مدنظر رکھا ہے۔ اپروول کاایک باقاعدہ پراسیس ہے۔ جو بھی پرائیویٹ پبلشر کتاب چھاپ رہا ہے، وہ یکساں قومی نصاب یعنی نصابی خاکہ کی پابندی کرے گا۔ایسی ہر کتاب اس صوبے کے ٹیکسٹ بورڈ کے پاس جائے گی، پہلے ایکسٹرنل ریویو کمیٹی اس کا جائزہ لے گی، جو مختلف ماہرین پر مشتمل ہے، اس کے بعد انٹرنل ریویو کمیٹی (IRC) اسے دیکھے گی، پھر علما بورڈ جائزہ لے گا کہ کہیں کوئی غیر شرعی مواد تو اس میں شامل نہیں ہوگیا۔ اس کے بعد ہی کسی کتاب کو این او سی مل سکے گا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پہلے ایسی کتابیں بھی چھپ جاتی تھیںجن پر بعد میں اعتراضات پیدا ہوتے تھے یا غیر ملکی ایجنڈے والا قابل اعتراض مواد قومی نصاب کا حصہ بننے کا امکان رہتا تھا۔ اب” موم بتی مافیا “ کا ایک طرح سے راستہ روک دیا گیا ہے۔ ان حلقوں میں اسی وجہ سے نئے یکساں قومی نصاب کے حوالے سے تلملاہٹ موجود ہے، معمولی باتوں کو جواز بنا کر جومخالفانہ مہم چلائی جا رہی ہے، وہ قابل فہم ہے۔
ایک کتاب کیوں نہیں رکھی گئی ؟
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یکساں قومی نصاب کو ہر قسم کے سکول سسٹم پر نافذ کرنا تھا۔ پاکستان میں بعض سکول گروپ اتنے طاقتور اور بڑے ہیں کہ انہیں کسی بھی قسم کے ضابطوں یا اصولوں میں لانا بڑا کٹھن ہے۔اغلباً اسی وجہ سے حکمت سے کام لینے کا فیصلہ ہوا۔ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی کتابیں مجھے دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔ بہت عمدہ کتب ہیں، ہم نے تو اپنے بچپن میں ایسی کتابوں کا تصور ہی نہیں کیا تھا، بلکہ سچ یہ ہے کہ ابھی چند برس قبل تک بھی ایسے بھرپور مواد والی کتابیں نہیں تھیں۔ مجھے یہ کتابیں اچھی لگی ہیں، البتہ ان کی پرنٹنگ اور کاغذ کی کوالٹی مزید بہتر ہوسکتی تھی۔ مسئلہ پھر قیمت کا آ جاتا ہے کہ اچھے کاغذ پر دلکش رنگوں والی کتاب کی قیمت موجودہ قیمت سے تین چار گنا زیادہ ہوجاتی۔ حکومت کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرکاری سکولوں میںپڑھنے والے بچوں کی بہت بڑی تعداد مہنگی کتابیں افورڈ نہیں کر سکتی۔
اس لئے حل یہ نکالاگیا کہ اگر کوئی بڑا جائنٹ سکول گروپ کتاب پر اعتراض کرے تو اسے کہہ دیتے ہیں کہ بھیا یہ ہے نصابی خاکہ ، اس کو فالو کرتے ہوئے اپنے پسند کے مصنفین سے کتاب لکھوا لو، مواد مگر ان حدود وقیود کے اندر ہی ہو، اگر باہر ہوا تو مسترد ہوجائے گی۔ یوں آکسفورڈ، کیمبرج اور آفاق جیسے بڑے پبلشروں کی کچھ کتابیں منظور ہوئی ہیں، بعض دیگر پبلشرز کی کتابیں بھی این او سی کے عمل میں ہیں۔ البتہ ایک غلط فیصلے کی اطلاعات آئی ہیں کہ کے پی ٹیکسٹ بورڈ اور پھر پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے ایک بڑے نجی ادارے کے پچھلے سٹاک کو این اوسی دے دیا، حالانکہ وہ نئے یکساں قومی نصاب کے مطابق نہیں۔ پبلشرز ایسوسی ایشن نے اس پر شور مچایا ہوا ہے، میڈیا میں بھی چیزیں چل رہی ہیں۔ایک مسئلہ یہ بھی ہوا کہ کے پی اور پنجاب کے بعض شہروں میں سکولوں نے اپنا تعلیمی سال شروع کر دیا اور بچے پرانے نصاب کی کتابیں خرید چکے ہیں، نئے نصاب کی تمام کتابیں شائد ابھی ہر جگہ دستیاب بھی نہیں۔ بچوں کے والدین شاکی ہیں کہ ہمیں سال میں دوسری بار نصاب کی کتب خریدنا پڑیں گی۔ بہرحال یہ چھوٹے موٹے مسائل پہلے سال ہونے ہی تھے، اگلے تعلیمی سیشن سے امید ہے کہ چیزیں ان شااللہ بہتر ہوجائیں گی۔
نصاب اور درسی کتاب میں کیا فرق ہے؟
یکساں قومی نصاب میں ایک نصابی خاکہ ہے ، اس کی پابندی کرتے ہوئے درسی کتب بن رہی ہیں۔ مثال کے طور پر کلاس دوم کی اردو کی کتاب کے نصابی خاکہ کی پیروی کرتے ہوئے دو تین مختلف پبلشرز کی کتابیں بن سکتی ہیں ۔یہ ممکن ہے ان کی پیش کش، کاغذ، پرنٹنگ وغیرہ میں فرق ہو، ممکن ہے بعض میں نظموں اور نثر کا انتخاب بھی کچھ مختلف ہو، لیکن اس کا بنیادی فریم ایک ہی ہوگا۔
میرے سامنے کلا س دوم کی اردو کتاب کا نصابی خاکہ موجود ہے،یہ کتاب معروف مصنف، ادیب ، ریسرچر ناصر اعوان نے لکھی ہے۔ ناصر اعوان کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ان کے کئی تحقیقی مقالہ جات ڈاکٹر صفدر مرحوم نے اپنے کالموںمیں شائع کئے ہیں۔ اردو کلاس دوم کے نصابی خاکہ میں بہت سے اصول شامل کئے گئے۔ پہلی بار اس سطح کی کتابوںمیں خاص طور سے ہر باب کے ساتھ یہ لکھا گیا کہ اس باب کو پڑھانے سے کیا مقاصد حاصل کرنا مطلوب ہیں۔ ”حاصلاتِ تعلم“ ،” سوچیں اور بتائیں “،” کیا آپ جانتے ہیں “کے عنوانات سے ہر باب سے پہلے ایک صفحہ موجود ہے۔ جیسے صفحہ پینتیس پر ایک کہانی چڑیا اور چوہا ہے۔ اس کے حاصلات تعلم میں باقاعدہ طور پر کئی نکات ہیں جیسے لفظوں کو توڑ جوڑ ،جملوں کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے الفاظ میں کہانی بیان کرنا، ایک منٹ میں ساٹھ الفاظ روانی سے پڑھنا، مذکر مونث اسما کی عام جمع، تصویر یا خاکہ دیکھ کر کم از کم پانچ جملے لکھنے ، کہانی پڑھ کر مختصر سوالات کے جوابات لکھنا۔ سوچیں اور بتائیں کے عنوان میں سوال اٹھایا گیا کہ ہمسایے کون ہوتے ہیں؟ لڑائی جھگڑے سے کیا نقصان ہے؟ استاد کو کلاس میں یہ سوال اٹھانے اور ان کے جواب دینے ہیں۔ اسی طرح ”کیا آپ جانتے ہیں “ میں یہ معلومات دی گئی کہ جانور ، پرندوں کے اپنے گھر (گھونسلہ وغیرہ)ہوتے ہیں جبکہ چوہے وغیرہ اپنے بل میں رہتے ہیں۔ ممکن ہے نجی پبلشر کی کسی کتاب میں یہ کہانی نسبتاً مختلف انداز سے لکھی جائے، مگر یہ تمام نکات وہاں بھی موجود ہوں گے۔
اسی طرح نصابی خاکہ کے مطابق کلاس دوم کی اردو کتاب کے پہلے حصے میں ایک حمد اور نعت لازمی ہے۔ کچھ نثری اسباق جیسے سیرت ﷺ کے علاوہ قومی شخصیت (قائداعظم)، وقت کی پابندی، ورزش کے فائدے، پالتو جانور، سیروسیاحت، قومی پرچم ، اپنی حفاظت کے موضوعات ہیں، ان میں سیرت اور قومی شخصیت لازمی ہے جبکہ باقیوںمیں سے دو چھوڑے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے حصے میں نثری اور نظموں کے تجویز کردہ عنوانات ہیں، ان سے باہر نہیں جایا جا سکتا، البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی کتاب میںماحول کی صفائی کے بجائے پودے لگانے کا مضمون شامل ہوجائے، یا دونوں ہی آجائیں۔
کچھ چیزوں کی پابندی ہے، جیسے ہر کتاب میں سرکار مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے پہلے خاتم النبین لکھنا لازمی ہے۔ پبلشر جو بھی ہو، اسے یہ اصول ماننا پڑے گا۔ ان کتابوں میں ختم نبوت ﷺ کا نظریہ پہلی بار بہت عمدگی اور بھرپور طریقے سے شامل کیا گیا ہے۔ پرائمری کلاس کے طلبہ کے ذہنوں میں بھی یہ بات راسخ ہوجائے گی کہ عالی جناب حضرت محمد ﷺ ہی اللہ کے آخری نبی ہیں۔ بطور مسلمان میرے لئے یہ باعث اطمینان بات ہے کہ میرے بچے سکول ہی سے اس نظریے کی تربیت اور تعلیم پائیں، جو میرے نزدیک مرکزی اہمیت اور حیثیت رکھتا ہے۔ویسے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خاتم النبین والی بات سے کس حلقے کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچ رہی ہوگی۔
کیا نئے قومی نصاب میں ایک کتاب پڑھائی جائے گی؟
اس کا جواب نفی میں ہے۔ تمام سکولوں میں ایک کتاب نہیں پڑھائی جائے گی ۔ اس کے لئے پہلے سوچا گیا اور شائد کچھ کوشش بھی کی گئی، مگر پھر عملی مسائل ، مشکلات، ردعمل اور بعض دیگر عوامل کے تحت ایسا نہیں کیا جا رہا۔ یکساں قومی نصاب سے اکثر لوگ یہی مراد لیتے ہیں کہ ایچیسن کالج یا اشرافیہ کے انگلش میڈیم سکولوں سے لے کر راجن پور، صادق آباد اور دور دراز کے پسماندہ علاقوں تک ایک ہی کتاب پڑھائی جائے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تصور میں کشش اور خاص قسم کی انقلابی رومانویت ہے۔ لوگ یہ سوچ کر ہی لطف اٹھاتے ہیں کہ ہم نے سرکاری سکول کے بچوں والی کتاب اشرفیہ سکولوں کے امیر زادوں کو بھی پڑھا دی ہے۔ایسے لوگوں کو نوید ہو کہ ایک درسی کتاب نہیں پڑھائی جائے گی،البتہ ایک نصاب سب کو فالو کرنا پڑے گا۔
نصابی خاکہ جو یکساں قومی نصاب کے لئے طے کیا گیا، وہی عام سرکاری سکولوں، درمیانے نجی سکولوں، اشرافیہ کے بیس پچیس ہزار ماہانہ والے سکولوں اورغیر ملکی کرنسی میں فیس لینے والے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جائے گا۔ اصولی اور قانونی طور پر نصابی خاکہ کو نظرانداز کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ایسا سکول بند ہوسکتا ہے۔ نصابی خاکے کی روشنی میں البتہ ایک سے زیادہ کتابیں تیار ہوسکتی ہیں ۔ این اوسی (NOC)لینے کے بعد وہ پڑھائی جا سکتی ہیں۔
کیااین اوسی لینا رسمی کارروائی ہوگی ؟
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ آکسفورڈ، کیمبرج جیسے بڑے اداروں کے لئے این اوسی (NOC)لینا ایک رسمی کارروائی ہوگی، وہ آسانی سے اپنی کتابیںمنظور کرا لیں گے اور یوں وہی پہلے والا معاملہ ہوجائے گا۔ یکساں قومی نصاب والوں نے اپنی طرف سے اس خدشے کو مدنظر رکھا ہے۔ اپروول کاایک باقاعدہ پراسیس ہے۔ جو بھی پرائیویٹ پبلشر کتاب چھاپ رہا ہے، وہ یکساں قومی نصاب یعنی نصابی خاکہ کی پابندی کرے گا۔ایسی ہر کتاب اس صوبے کے ٹیکسٹ بورڈ کے پاس جائے گی، پہلے ایکسٹرنل ریویو کمیٹی اس کا جائزہ لے گی، جو مختلف ماہرین پر مشتمل ہے، اس کے بعد انٹرنل ریویو کمیٹی (IRC) اسے دیکھے گی، پھر علما بورڈ جائزہ لے گا کہ کہیں کوئی غیر شرعی مواد تو اس میں شامل نہیں ہوگیا۔ اس کے بعد ہی کسی کتاب کو این او سی مل سکے گا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پہلے ایسی کتابیں بھی چھپ جاتی تھیںجن پر بعد میں اعتراضات پیدا ہوتے تھے یا غیر ملکی ایجنڈے والا قابل اعتراض مواد قومی نصاب کا حصہ بننے کا امکان رہتا تھا۔ اب” موم بتی مافیا “ کا ایک طرح سے راستہ روک دیا گیا ہے۔ ان حلقوں میں اسی وجہ سے نئے یکساں قومی نصاب کے حوالے سے تلملاہٹ موجود ہے، معمولی باتوں کو جواز بنا کر جومخالفانہ مہم چلائی جا رہی ہے، وہ قابل فہم ہے۔
ایک کتاب کیوں نہیں رکھی گئی ؟
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یکساں قومی نصاب کو ہر قسم کے سکول سسٹم پر نافذ کرنا تھا۔ پاکستان میں بعض سکول گروپ اتنے طاقتور اور بڑے ہیں کہ انہیں کسی بھی قسم کے ضابطوں یا اصولوں میں لانا بڑا کٹھن ہے۔اغلباً اسی وجہ سے حکمت سے کام لینے کا فیصلہ ہوا۔ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی کتابیں مجھے دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔ بہت عمدہ کتب ہیں، ہم نے تو اپنے بچپن میں ایسی کتابوں کا تصور ہی نہیں کیا تھا، بلکہ سچ یہ ہے کہ ابھی چند برس قبل تک بھی ایسے بھرپور مواد والی کتابیں نہیں تھیں۔ مجھے یہ کتابیں اچھی لگی ہیں، البتہ ان کی پرنٹنگ اور کاغذ کی کوالٹی مزید بہتر ہوسکتی تھی۔ مسئلہ پھر قیمت کا آ جاتا ہے کہ اچھے کاغذ پر دلکش رنگوں والی کتاب کی قیمت موجودہ قیمت سے تین چار گنا زیادہ ہوجاتی۔ حکومت کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرکاری سکولوں میںپڑھنے والے بچوں کی بہت بڑی تعداد مہنگی کتابیں افورڈ نہیں کر سکتی۔
اس لئے حل یہ نکالاگیا کہ اگر کوئی بڑا جائنٹ سکول گروپ کتاب پر اعتراض کرے تو اسے کہہ دیتے ہیں کہ بھیا یہ ہے نصابی خاکہ ، اس کو فالو کرتے ہوئے اپنے پسند کے مصنفین سے کتاب لکھوا لو، مواد مگر ان حدود وقیود کے اندر ہی ہو، اگر باہر ہوا تو مسترد ہوجائے گی۔ یوں آکسفورڈ، کیمبرج اور آفاق جیسے بڑے پبلشروں کی کچھ کتابیں منظور ہوئی ہیں، بعض دیگر پبلشرز کی کتابیں بھی این او سی کے عمل میں ہیں۔ البتہ ایک غلط فیصلے کی اطلاعات آئی ہیں کہ کے پی ٹیکسٹ بورڈ اور پھر پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے ایک بڑے نجی ادارے کے پچھلے سٹاک کو این اوسی دے دیا، حالانکہ وہ نئے یکساں قومی نصاب کے مطابق نہیں۔ پبلشرز ایسوسی ایشن نے اس پر شور مچایا ہوا ہے، میڈیا میں بھی چیزیں چل رہی ہیں۔ایک مسئلہ یہ بھی ہوا کہ کے پی اور پنجاب کے بعض شہروں میں سکولوں نے اپنا تعلیمی سال شروع کر دیا اور بچے پرانے نصاب کی کتابیں خرید چکے ہیں، نئے نصاب کی تمام کتابیں شائد ابھی ہر جگہ دستیاب بھی نہیں۔ بچوں کے والدین شاکی ہیں کہ ہمیں سال میں دوسری بار نصاب کی کتب خریدنا پڑیں گی۔ بہرحال یہ چھوٹے موٹے مسائل پہلے سال ہونے ہی تھے، اگلے تعلیمی سیشن سے امید ہے کہ چیزیں ان شااللہ بہتر ہوجائیں گی۔
نصاب اور درسی کتاب میں کیا فرق ہے؟
یکساں قومی نصاب میں ایک نصابی خاکہ ہے ، اس کی پابندی کرتے ہوئے درسی کتب بن رہی ہیں۔ مثال کے طور پر کلاس دوم کی اردو کی کتاب کے نصابی خاکہ کی پیروی کرتے ہوئے دو تین مختلف پبلشرز کی کتابیں بن سکتی ہیں ۔یہ ممکن ہے ان کی پیش کش، کاغذ، پرنٹنگ وغیرہ میں فرق ہو، ممکن ہے بعض میں نظموں اور نثر کا انتخاب بھی کچھ مختلف ہو، لیکن اس کا بنیادی فریم ایک ہی ہوگا۔
میرے سامنے کلا س دوم کی اردو کتاب کا نصابی خاکہ موجود ہے،یہ کتاب معروف مصنف، ادیب ، ریسرچر ناصر اعوان نے لکھی ہے۔ ناصر اعوان کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ان کے کئی تحقیقی مقالہ جات ڈاکٹر صفدر مرحوم نے اپنے کالموںمیں شائع کئے ہیں۔ اردو کلاس دوم کے نصابی خاکہ میں بہت سے اصول شامل کئے گئے۔ پہلی بار اس سطح کی کتابوںمیں خاص طور سے ہر باب کے ساتھ یہ لکھا گیا کہ اس باب کو پڑھانے سے کیا مقاصد حاصل کرنا مطلوب ہیں۔ ”حاصلاتِ تعلم“ ،” سوچیں اور بتائیں “،” کیا آپ جانتے ہیں “کے عنوانات سے ہر باب سے پہلے ایک صفحہ موجود ہے۔ جیسے صفحہ پینتیس پر ایک کہانی چڑیا اور چوہا ہے۔ اس کے حاصلات تعلم میں باقاعدہ طور پر کئی نکات ہیں جیسے لفظوں کو توڑ جوڑ ،جملوں کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے الفاظ میں کہانی بیان کرنا، ایک منٹ میں ساٹھ الفاظ روانی سے پڑھنا، مذکر مونث اسما کی عام جمع، تصویر یا خاکہ دیکھ کر کم از کم پانچ جملے لکھنے ، کہانی پڑھ کر مختصر سوالات کے جوابات لکھنا۔ سوچیں اور بتائیں کے عنوان میں سوال اٹھایا گیا کہ ہمسایے کون ہوتے ہیں؟ لڑائی جھگڑے سے کیا نقصان ہے؟ استاد کو کلاس میں یہ سوال اٹھانے اور ان کے جواب دینے ہیں۔ اسی طرح ”کیا آپ جانتے ہیں “ میں یہ معلومات دی گئی کہ جانور ، پرندوں کے اپنے گھر (گھونسلہ وغیرہ)ہوتے ہیں جبکہ چوہے وغیرہ اپنے بل میں رہتے ہیں۔ ممکن ہے نجی پبلشر کی کسی کتاب میں یہ کہانی نسبتاً مختلف انداز سے لکھی جائے، مگر یہ تمام نکات وہاں بھی موجود ہوں گے۔
اسی طرح نصابی خاکہ کے مطابق کلاس دوم کی اردو کتاب کے پہلے حصے میں ایک حمد اور نعت لازمی ہے۔ کچھ نثری اسباق جیسے سیرت ﷺ کے علاوہ قومی شخصیت (قائداعظم)، وقت کی پابندی، ورزش کے فائدے، پالتو جانور، سیروسیاحت، قومی پرچم ، اپنی حفاظت کے موضوعات ہیں، ان میں سیرت اور قومی شخصیت لازمی ہے جبکہ باقیوںمیں سے دو چھوڑے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے حصے میں نثری اور نظموں کے تجویز کردہ عنوانات ہیں، ان سے باہر نہیں جایا جا سکتا، البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی کتاب میںماحول کی صفائی کے بجائے پودے لگانے کا مضمون شامل ہوجائے، یا دونوں ہی آجائیں۔
کچھ چیزوں کی پابندی ہے، جیسے ہر کتاب میں سرکار مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے پہلے خاتم النبین لکھنا لازمی ہے۔ پبلشر جو بھی ہو، اسے یہ اصول ماننا پڑے گا۔ ان کتابوں میں ختم نبوت ﷺ کا نظریہ پہلی بار بہت عمدگی اور بھرپور طریقے سے شامل کیا گیا ہے۔ پرائمری کلاس کے طلبہ کے ذہنوں میں بھی یہ بات راسخ ہوجائے گی کہ عالی جناب حضرت محمد ﷺ ہی اللہ کے آخری نبی ہیں۔ بطور مسلمان میرے لئے یہ باعث اطمینان بات ہے کہ میرے بچے سکول ہی سے اس نظریے کی تربیت اور تعلیم پائیں، جو میرے نزدیک مرکزی اہمیت اور حیثیت رکھتا ہے۔ویسے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خاتم النبین والی بات سے کس حلقے کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچ رہی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر