رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائے کیسا زمانہ تھا جب برصغیر کے آسمان پر اردو زبان چھائی ہوئی تھی۔فارسی کا چل چلاؤ تھا اور ایک مقامی بولی اس کی جگہ لے رہی تھی۔ کوئی اسے ریختہ کہتا تھا تو کوئی ہندی، پھر کسی نے اسے ہندوستانی کا نام دیا اور اکثر اُس کو اردوکہنے لگے، بالآخر اردو ہی ا س کا نام قرار پایا۔ہر طرف اس کا چلن تھا،ہر جگہ اس کا رواج تھا، ہر مقام پر بولی اور سمجھی جاتی تھی لیکن بس ایک کمی تھی۔ اسے سرکار کی سرپرستی حاصل نہیں تھی۔ پھر اردو کے نصیب جاگے اور سرکار کا رنگ و روپ بدلنے لگا۔ اب میں آتا ہوں اپنے اصل موضوع کی طرف۔
مغل دربار کی فصیلوں میں دراڑیں پڑنے لگیں، حکمران خاندان کے پاؤں اکھڑنے لگے۔ سرزمینِ ہند کے نظام میں خلا وسیع ہونے لگا ۔ مختلف طاقتیں اس خلا کو پُر کرنے لگیں۔ ان میںسرکارانگلشیہ پیش پیش تھی۔ اس کا اثر و نفوذ دیکھتے دیکھتے پھیلتا گیا اور کلکتہ سے اٹھنے والی یہ گھٹا افغانستان کی سرحدوں تک برسنے لگی۔سات سمندر پار سے آنے والے یہ سفید فام حکمران اپنا رنگ تو نہ بدل سکے البتہ انہوں نے اپنا روپ بدلنے کی ٹھانی۔ قصہ مختصر یہ کہ انہوں نے مقامی بولی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور بہت جلد یہ حقیقت جان لی کہ دربار یا سرکار میں فارسی کی کھپت نہیں رہی۔ ذہین لوگ تھے ، معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے۔
مجھے یہ شرف حاصل رہا ہے کہ برصغیر میں اردو کے وجود میں آنے کی نشانیاں اور علامتیں میری نگاہ سے گزریں۔ کلکتہ میں اردو کا بیج یوں بویا گیا کہ وہاں طے پایا کہ انگلستان سے جو فرنگی سرکار کی ملازمت کے لئے سمندری جہازوں میں سوار ہوکر کلکتہ پہنچیں گا اُسے سب سے پہلے مقامی بولی سیکھنی ہوگی، وہی بولی جس کانام اُن دنوں ہندی تھا۔ یہ زبان سکھانے اور اسے فروغ دینے والے اور بھی بہت سے لوگ ہوں گے لیکن اس زبان کے حق میں ایک فرشتہ صفت آگے آیا ۔ اسکاٹ لینڈ کا باشندہ جان گلکرسٹ۔دوسری زبانوں کا تو وہ ماہر تھا لیکن اردو کا عاشق تھا۔ اس کے سر پر دھن سوار تھی کہ فارسی زدہ اردو کو رخصت کیا جائے اور سہل اور عام فہم اردو کو رواج دیا جائے۔چنانچہ کلکتے میں اردو کی تعلیم دینے والا کالج قائم ہوا، اردو چھاپہ خانہ بنا اور ہندوستان بھر سے اردو کے استاد لائے گئے ، اردو کتابیں لکھی گئیں اور ان کی چھپائی شروع ہوئی۔یہ بات خدا جھوٹ نہ بلوائے، آج سے دو سو بیس سال پہلے کی ہے۔ یہ اردو کتابیں ہی درسی کتابیںبن گئیں اور ان سب کے نسخے لندن کی برٹش لائبریری میں حفاظت سے رکھے ہیں اور جیسا کہ میںنے کہا، مجھے یہ کتابیں دیکھنے کا شرف حاصل ہے۔ اگرچہ شروع شروع میں چھپنے والی اردو کتابوں میں میر امّن کی باغ و بہار کو بہت شہرت حاصل ہے لیکن ایک کمال کی کتاب کہیں پس منظر میں رہی جس کا نام تھا: باغِ اردو۔دو سو بیس سال پرانی یہ کتاب شیخ سعدی کی گلستان کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ میر شیر علی افسوس نے کیا تھا ۔اس نئے نئے چھاپے خانے نے ہمت کرکے چھ سو صفحوں کی یہ کتاب دو حصوں میں چھاپی اور اس کی قیمت 32 روپے تھی۔ (ان دنوں عام تنخواہ دس روپے ماہانہ ہوا کرتی تھی) اس میں 14 صفحوں کا دیباچہ ہے جو خود جان گلکرسٹ نے لکھا ہے اور یہ دیباچہ ایسا ہے کہ جب بھی اردوزبان کی تاریخ لکھی جائے اس میں اس دیباچے کا متن ضرور شامل ہونا چاہئے۔اس دور کی تگ و دو کے مطالعے کے بعد کہہ سکتا ہوں کہ انگریزوں نے اردو کوہندوستان کی سب سے بڑی زبان تسلیم کیا اور اسے سہل بنانے اور فروغ دینے کی تحریک چلائی۔ اس تحریک کے سیاسی اسباب کیا تھے، یہ ایک الگ موضوع ہےجس پر مورخ ہی روشنی ڈال سکتے ہیں مگر باغِ اردو کا دیباچہ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ جان گلکرسٹ اردو کو عام لوگوں کی زبان بنانے کے لئے کس قدر کوشاں تھے اور ان کے سامنے کتنی مشکلیں تھیں۔یہاں میں گلکرسٹ کے الفاظ نقل کرتا ہوں جنہیں فریم میں جڑ کر آویزاں کرنا چاہئے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں: ’’بعض لو گ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہماری اس آسان اردو کو سمجھ نہیں سکتے۔ اچھا یوں کریں کہ وہ لوگ محض آزمائش کی خاطر میرے ساتھ آئیں اور ہندوستان کے گلی کوچوں میں چلیںتو وہ مان جائیں گے کہ یہ ان کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی۔ (آگےچل کر لکھتے ہیں) میں عربی اور سنسکرت کا احترام کرتا ہوںمگر جب ان زبانوں کا شفاف چشمہ اپنی قدرتی حدوں سے باہر ابل پڑتا ہے اور عام لوگوں کی زبان میں طغیانی کی طرح در آتا ہے تو پھر میں مخالفت میں اٹھ کھڑا ہوتا ہوں‘‘۔
اس کے بعد انہوں نے کچھ مثالیں دے کر اپنی بات سمجھائی ہے۔کہتے ہیں کہ عطا حسین خاں نے چار درویش کا ہندی میں جو ترجمہ کیا تھا اس پر شجاع الدولہ سے سات پارچے کا خلعت اور انعام پایا تھا۔ اُس ہندی کا ایک نمونہ دیکھئے۔ لکھتے ہیں: ’’جو منشی تقدیر کے بیچ سرنوشت میری کے حرف تولد فرزند کا نہیں لکھا اور ایام زیست کے قریب الانقضاہیں، آئندہ توقع استحصال اس نعمت غیر مترقب کے پیشِ نہاد خاطر کی رکھنا عبث ہے‘‘گلکرسٹ کہتے ہیں کہ یہی جملہ محاورے کے مطابق یوں بھی لکھا جاسکتا تھا کہ میری قسمت میں اولاد نہیں اور عرصہ زندگی کا کم ہے ، پھر اس نعمت کے حاصل ہونے کی توقع رکھنا عبث ہے۔تو یہ ہے اردو زبان کی تاریخ کا ایک روشن باب۔ مگر اس کے بعد ستم ہوا۔ کہاں تو دنیا کا ہر مضمون اردو میں پڑھایا جانے لگا اور دہلی کالج یا روڑکی کے سول انجینئرنگ کالج میں تمام کتابیں اردو میں منتقل کر دی گئیں اور کہاں ملک میں بغاوت کے آثار نظر آنے لگے۔ مسلمانوں نے اپنے لڑکو ں کو یہ کہہ کر تعلیم دلانے سے انکار کردیا کہ یہ کرسٹان ہو جائیں گے، انگریزوں نے بھی اردو کی بساط لپیٹی اور اعلان کردیاکہ جس کو تعلیم پانی ہو، انگریزی میں پائے۔
باغِ اردو کے سرورق پر لکھا ہے: دعویٰ عبث ہے ہم سے شاعر کو شاعری کا دیوان ہے ہمارا کیسہ جواہری کا۔ او رگلستان کے ترجمہ کی مناسبت سے پیشانی پر لکھا ہے:یہ ترجمہ مارکس ویلزلی گورنر جنرل بہادر کے لئے ہے اور یہ ترجمہ جان گلکرسٹ کی فرمائش پر کیا گیا ہے۔وہ بھی نہیں رہے، وہ بھی سدھار گئے۔ مقام شکر ہے کہ اردو ہے۔
بشکریہ جنگ
مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی
کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی
جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر