رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا میں ہزار عیب ہوں گے مگر دو چار خوبیاں بھی ہیں اور وہ بھی بڑی خوبیاں۔ فیس بُک ہو یا یو ٹیوب ، زوم ہو یا میٹ گوگل، گفتگو اور مکالمے کے ایسے ایسے دریچے وا ہوئے ہیں کہ علم وا دب کا چہرہ ہی بدل رہا ہے۔ جب سے کورونا نے انسان کا جینا دشوار کیا ہے اور اپنی اپنی جان بچا کر ہر ذی شعور گھر میں بند ہوکر بیٹھ رہا ہے، یہی سوشل میڈیا آہستہ سے ایک نیا پینترا بدل کر سامنے آیا ہے۔ اس پر ایسے میدان کھلے ہیں جن پر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لوگ یکجا ہوکر اپنی بیٹھک جما سکتے ہیں اور دنیا کے ہر موضوع پر خیال آرائی بھی کر سکتے ہیں اور تحقیق اور تجسس کے شعبوں میں ایک دوسرے کے خیال سے استفادہ بھی کر سکتے ہیں اور اختلاف بھی۔ ایسا اختلاف کہ جس سے آگے چل کر کسی اور ہی نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے،بہتر اور زیادہ سود مند نتیجہ۔
پچھلے دنوں اسی طرح کا ایک آن لائن مذاکرہ ہوا۔ عنوان تھا ’اکیسویں صدی میں نسائی ادب‘۔ مذاکرے کا اہتمام ورلڈ اردو ایسو سی ایشن اور انجمن ترقیء اردو ہند نے کیا تھا۔پہلا بنیادی سوال یہ تھا کہ بدلتے ہوئے وقت اور ہر روز اپنی شکل بدلتی دنیا میں ’نسائی ادب‘ سے کیا مراد ہے؟ عورتوں کا لکھا ہوا ادب یا عورتوں کے لئے لکھے جانے والا ادب؟عام خیال یہی ہے کہ نسائی ادب سے مراد خواتین کے ہاتھوں ضبط تحریر میں آنے والا ادب ہے۔وہ زمانہ ابھی تاریخ کے اوراق سے محو نہیں ہوا جب خواتین کے لئے الگ ہی کتابیں لکھی اور چھاپی جاتی تھیں ۔ اس کام میں اگرچہ علامہ راشد الخیری اور ڈپٹی نذیر احمد کے نام نمایاں ہیں لیکن رازق الخیری، مولانا سیماب اکبر آبادی، مولوی عبدالغفار خیری جیسے نام سر فہرست ہیں۔اسی طرح خواتین کے لئے خواتین ہی کے لکھے ہوئے ادب میں بھی بہت سے نام ملتے ہیں۔علامہ کے گھرانے سے محترمہ آمنہ نازلی کا نام بہت نمایاں ہے جو خواتین کے لئے شائع ہونے والے رسالے عصمت کی جوائنٹ ایڈیٹر تھیں، اسی ادارے سے نوعمر لڑکیوں کے لئے رسالہ ’’بنات‘‘ چھپتا تھا۔خواتین کے لئے لکھنے والی خواتین میں کئی نام قابل ذکر ہیں:منجھوبیگم،بلقیس جمال، خاتون اکرم، صغرا ہمایوں مرزا، نذر سجاد حیدر، بلقیس بیگم ، حجاب اسماعیل اور سرور جہا ں رعنا بی اے وغیرہ۔ یہ سارا ادب خواتین کے لئے تھا۔ باقی ادب میں خواتین کو کیا نہیں پڑھنا چاہئے، اس کا احوال بہشتی زیور جیسی تاریخی اور یادگارکتاب میں ملتا ہے۔ بعض کتابیں خواتین سے دور رکھی جاتی تھیں یا جن کا گھر میں لانا منع تھا۔ اس پر مثنوی زہر عشق، مصور خاص طور پر قابل ذکر ہے جسے دیکھنے کا موقع ملا تو بڑے اشتیاق سے دیکھی۔محبوبہ اپنے محبوب کے ساتھ لیٹی تھی اور بس۔ اُس زمانے میں اس قسم کی ممانعت جاری کرنے والے آج کے دور میں لوٹ آئیں تو شرم و حیا سے بار بار مریں اور غور سے دیکھنے کی خاطر ہر بار جئیں۔
اس کے بعد ہم نے نسائی ادب کے کتنے ہی دور دیکھے۔ میری بہنیں جب تک چھوٹی تھیں ، مجھے یقین ہے ان کے لئے رسالہ بنات آتا ہوگا۔اسی زمانے میں ، سنہ 1933کے لگ بھگ میری سب سے بڑی بہن باقری بیگم نے رسالہ عصمت کو اپنی ایک تحریر بھیجی جو شائع بھی ہوئی لیکن اس میں ان کا نام بنتِ اکبر علی لکھا تھا۔ ان دنوں عوام کے لئے شائع ہونے والی تحریروں میں خواتین اپنا نام لکھنا مناسب نہیں سمجھتی تھیں۔جب میں نے ہوش سنبھالا، ماہنامہ عصمت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور حور، زیب النسا اور بانو جیسے مقبول رسالے آگئے تھے۔پھر کچھ عرصے شمع اور بیسویں صدی ابھرے جنہیں عورتوں سے پرے ہی رکھاگیا۔ مجھے یاد ہے ،میرے ضعیف ماموں نے ایڈیٹر شمع کو پوسٹ کارڈ لکھا تھا کہ آپ کے رسالے میں افسانے پڑھ کر مجھ بوڑھے کو بھی ہیجان ہوتا ہے۔
پھر وقت بدلا۔خواتین کے ناولوں نے زور پکڑا۔ عورتوں کے لئے موٹے موٹے ضخیم ناول چھاپنے کا خیال نہیں معلوم کس کو آیا ، مگر یہ ناول اتنے مقبول ہوئے کہ مردوں نے عورتوں کے نام سے بھاری بھرکم ناول لکھنا شروع کردئیے۔ یہ سلسلہ ختم ہوا تو ڈائجسٹو ں کا زمانہ آیا۔یہ راز آج تک نہیں کھلا کہ خواتین کو ڈائجسٹ کیوں بھائے لیکن یہ سچ ہے کہ ناشروں نے خواتین کو ذہن میں رکھ کر ڈائجسٹ نکالنا شروع کئے جو آج بھی خوب چھپتے ہیں اور خوب خریدے جاتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ بے شمار خواتین نے لکھنا شروع کیا اور اس طر ح مصنف خواتین کی ایک فوج کھڑی ہوگئی۔پھر تین عورتیں تین کہانیاں جیسے عنوان سے نسائی تحریروں نے زور پکڑا اور بے شمار عورتیں لکھنے کی طر ف مائل ہوئیں۔
یہ سب ہوتا رہا، ترقی پسند ی کا دور آیا اور اب لکھنے والی خواتین نے اپنا چولا بدلا اور مردوں کے شانہ بشانہ لکھنے لگیں۔ اُس مرحلے پر یہ سوال کیا جاسکتا تھا کہ نسائی ادب کے نام سے یہ تخصیص کیوں؟ کیا ان کا لکھا ہوا مردوں کی تحریر سے مختلف ہوتا ہے، کم تر ہوتا ہے، کچھ الگ شناخت رکھتا ہے یادور ہی سے پہچانا جاتا ہے؟ اگر خواتین کے لکھے ہوئے کو ایسی کوئی شناخت دی جائے تو اس کے خلاف احتجاج ہونا چاہئے اور جلوس نکلنے چاہئیں۔مشرق ہو یا مغرب، خواتین بڑھ چڑھ کر لکھ رہی ہیں ، نام پا رہی ہیں اور سراہی جارہی ہیں۔میں نام لینے سے گریز کروں گا ۔ اس آن لائن مذاکرے میں صالحہ عابد حسین اور جمیلہ ہاشمی کا نام سننے میں نہیں آیا ، مگر ایسا ہوجاتا ہے، کسی کا قصور نہیں۔یہ بے حد پڑھی لکھی خواتین تھیں اور انہوں نے نہایت اعلیٰ ادب تخلیق کیا۔ مجھے یا د ہے جمیلہ ہاشمی مرحومہ منصور حلاج کے بارے میں کچھ لکھ رہی تھیں اور وہ اور ان کی بیٹی لندن میں ایک کتاب ڈھونڈتی پھر رہی تھیں۔ ان کا اشتیاق دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ تخلیقی ادب میں تحقیق کی کتنی اہمیت ہے۔ حسنِ اتفاق سے اس کتاب کا ایک نسخہ میرے ذخیرے سے نکل آیا جو میں نے تحفے کے طور پر انہیں پیش کردیا۔ اس روز ان کی سرشاری دیکھنے کے قابل تھی۔
میں جانتا ہوں، تحقیق کرنے والے اسی دھج کے ہوتے ہیں۔
بشکریہ جنگ
مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی
کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی
جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر