اسلام آباد:ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے سے متعلق درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف سماعت میں عدالت نے رجسٹر آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دے دیا
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیا دراخواست گزار اس معاملے میں متعلقہ بھی ہے کہ نہیں ؟ کیا یہ دراخواستیں بنیادی انسانی حقوق سے متعلق کوئی ٹھوس بات کرتی بھی ہیں کہ نہیں ؟ عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ ملک میں طاقتور سیاسی جماعتیں موجود ہیں انکی موجودگی میں آپ کیوں آئے۔
درخواست گزار احمد رضا قصوری نے کہا سیاستدان اگر ملک کے مفاد اور فلاح کا نہیں سوچتے تو کیا میں بھی خاموش ہو جاؤں، آئین پاکستان جن لوگوں نے بنایا ان میں واحد زندہ شخص اس وقت ملک میں موجود ہوں،
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آئین کے آرٹیکل 46 کے تحت وزیراعظم ریفرنڈم کے لیئے معاملہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے سامنے رکھتے ہیں،کیا یہ معاملہ وزیراعظم یا پارلیمان کے سامنے آیا بھی ہے کہ نہیں، کیا صدارتی نظام رائج کرنے کیلئے صرف فرد واحد کی خواہش ہے؟
احمد رضا قصوری نے کہا میں فرد واحد نہیں بلکہ ایک ادارہ ہوں،
اس پر جسٹس منیب اختر نے کہاقصوری صاحب جب آئین بن رہا تھا اور آپ رکن پارلیمنٹ تھے اس وقت آپ نے پارلیمانی نظام حکومت کی مخالفت کیوں نہیں کی؟
احمد رضا قصوری نے کہامیں نے تو اس وقت بھی آئین کے دستاویز کی مخالفت کی تھی،۔
جسٹس منیب اختر نے کہا قصوری صاحب آپ خود کو کیسے آئین بنانے والوں میں شمار کر رہے ہیں،
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کی درخواست میں سیاسی سوال ہے جو عدالت سے متعلقہ نہیں۔
احمد رضا قصوری نے کہا میں نے ملک کو 1971 میں دو لخت ہوتے دیکھا ہے،۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا احمد رضا قصوری صاحب عدالت کو غیر متعلقہ معاملات میں مت اُلجھائیں،
جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نےکیس کی سماعت کی
یہ بھی پڑھیے:کراچی: تیزاب گردی کا واقعہ،سابق اہلیہ نے نوجوان پر تیزاب پھینک دیا
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ