دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎کیا ہم نے گندہ لفظ استعمال کیا؟||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

مان لیجئے کہ آپ اپنے نصابی تعصبات اور ضعف اخلاقی کے اسیر ہیں۔ ہم نے تو طبی مسائل پر لکھا تھا، آپ کو غالباً محترم  مولانا طارق جمیل کی زبانی ذکر تلذذ آمیز سے واسطہ رہا ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے کچھ کرم فرماؤں کا کہنا ہے کہ ویجائنا جیسے گندے لفظ پہ ہم نے لکھنے کی آخر ہمت کیسے کی اور کیوں کی؟ اب کیا ہمارے گھروں میں ویجائنا لفظ بولا جائے گا پاکباز اور نیک بیبیوں کی موجودگی میں؟

خوشی اس بات کی ہے کہ ہمارا وہ خیال صحیح ثابت ہوا کہ عورت کو کمتر اور انسان نہ سمجھنا ہمارے معاشرے میں اس قدر رچ بس چکا ہے کہ اس کے مسائل اور تکالیف پہ بات کرنا بہت سوں کے ماتھے پر بل ڈال دیتا ہے۔ ان کی پریشان اور حیرت بھری سوچ سوا ہوئی جاتی ہے کہ یہ کب ہوا کہ ہماری محکوم عورتیں اس قدر اہم ٹھہریں کہ ان کے “پوشیدہ” معاملات چھیڑے جائیں اور ان کی زندگی سہل کرنے کی کوشش کی جائے۔

کچھ احباب سوچ رہے ہیں کہ ہمارا ان موضوعات کو چھیڑنا کہیں لذت کوشی کی کوشش تو نہیں؟ یا شاید سستی شہرت حاصل کرنے کا عزم؟

ہم کیا کہیں سوائے اس کے کہ یہ نچوڑ ہے ہماری 35 برس پر پھیلی اس ریاضت کا جو ہم نے عورتوں کے امراض سیکھنے کے لئے کی ہے۔ اگر ہم کسی ایسے موضوع پہ ہاتھ ڈالتے جس میں مہارت کا ہم دعوی نہ کر سکتے تو آپ کے شکوک میں کچھ سچائی ہو سکتی تھی۔ لیکن کیا کہیے کہ پنتیس برس سے عورتوں کی کہانیاں سن کر ان کی بیچارگی محسوس کرنا ہی تو ہمیں اس راستے پر لے آیا ہے کہ ہم دن رات کڑوی کسیلی سن کے بھی چپ رہنے کو تیار نہیں۔ سو آپ ہماری نیت اور اس کے تناظر میں ان موضوعات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔

ہمارا کہنا یہ ہے کہ معاشرے میں عورت کو زنجیروں سے آزاد تب ہی کروایا جا سکتا ہے جب اسے برابر کا انسان سمجھتے ہوئے اس کی جسمانی اور ذہنی صحت پہ کھل کے بات کی جائے۔ صحت کو درپیش سنگین مسائل کے ٹیبوز توڑ دینا ہی اصل میں عورت کی آزادی ہے۔

سوچیے ایسی عورت معاشرے کو کیا دے سکتی ہے جو اپنے جسم کے ایک اہم عضو کا نام بھی نہیں لے سکتی اور مختلف تکالیف کے لئے سینہ بہ سینہ چلتے ہوئے ان ٹوٹکوں کا سہارا لیتی ہے جو ماؤں اور دادیوں کی سرگوشیوں کی صورت میں اس تک پہنچتے ہیں۔

تکلیف حد سے تجاوز کر جانے کی صورت میں کسی ڈاکٹر تک پہنچ بھی جائیں تو بوکھلاہٹ دیدنی ہوتی ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہے اور کیسے کہے۔

“ نیچے اور اندر” جیسے الفاظ کا استعمال یا اشاروں کنایوں میں بات کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عورت کو اس کے جسم سے کس قدر شرم دلائی گئی ہے کہ وہ اپنی تکلیف بیان کرنے کے لئے بھی لفظ ویجائنا اپنی زبان پہ نہیں لا سکتی۔

چلیے بات بڑھانے سے پہلے یہ طے کر لیں کہ آخر کیسے پکارا جائے اس مظلوم عضو کو؟

شرم گاہ ؟

تاکہ پہلے سے شرم کے بوجھ تلے دبی عورت مزید شرم تلے دوہری ہوتی جائے۔

ماہواری آنے والی جگہ؟

لیکن زیادہ تر کو تو ماہواری کا نام لینے کی بھی اجازت نہیں۔

بچہ پیدا ہونے کی جگہ؟

توبہ توبہ اتنی بے شرمی کی بات۔ ہم تو بچوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ بچہ پری لے کر آتی ہے یا رات کو کوئی فرشتہ ماں کے سرہانے رکھ جاتا ہے۔

پیشاب اور پاخانے کے راستوں کے بیچ والا رستہ ؟

لگتا ہے، کہیں رستہ بھول گئے ہیں اور پتہ پوچھا جا رہا ہے۔

اندام نہانی؟

کیا سب کو یہ لفظ سمجھ آئے گا؟ کہیں صابن دانی ہی نہ سمجھ لیں۔

فرج؟

لیکن یہ بھی تو عربی لفظ ہے

مھبل؟

پھر عربی لفظ….

گالیوں میں استعمال ہونے والے کچھ تضیحک آمیز لفظ بھی کافی مشہور ہیں لیکن وہ بھی تو عورت کو پاتال کی طرف دھکیلتے ہیں۔

تضحیک سے یاد آیا کہ بعض اوقات صدیوں کی دھول الفاظ کے معنی کو کچھ سے کچھ کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پہ لفظ رنڈی ہی کو لیجیے جو حالیہ زمانوں میں طوائف کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ماہر لسانیات ڈاکٹر رؤف پاریکھ لفظ رنڈی کا اصل مجلس ترقی ادب لاہور کے زیر اہتمام شائع ہونے والی لغوی مباحث میں اٹھارویں اور انیسویں صدی سے تلاش کرتے ہیں جب رنڈی عورت اور بیوی کے لئے بولا جاتا تھا۔ اس کی سند سترہ سو چھیالیس میں شائع ہونے والی قصہ گل افروز و دلبر اور اٹھارہ سو میں چھپنے والی قصہ گل و ہرمز ہے۔ انیسویں صدی میں یوسف کمبل پوش کے سفرنامے میں یہ لفظ عورت ہی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اردو زبان پڑھنے والا کون سا مرد یا عورت ہے جس نے 1804ء میں شائع ہونے والی میر امن دہلوی کی کتاب قصہ چہار درویش کے اقتباسات نہ پڑھ رکھے ہوں۔ اس کتاب میں بھی رنڈی بمعنی عورت ہی لکھا ہے۔ ذرا آج کسی خاتون کو رنڈی بول یا لکھ کر تماشا دیکھیے۔ (الاۤ یہ کہ آپ کراچی سے شائع ہونے والے کسی پارسا روزنامے کا صفحہ اول مرتب کرتے ہوں۔)

مطائبات غالب میں کیچڑ اور کیچ کی حکایت تو آپ نے پڑھ یا سن رکھی ہو گی۔ خطوط غالب میں نطق غالب کی روانی سے آپ آشنا ہوں گے اور آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ منٹو نے اپنے افسانے "بو” کا دفاع کرتے ہوئے کس چیز کو مونگ پھلی لکھنے کی تجویز دی تھی۔ اردو زبان میں وکٹورین عہد کی اخلاقیات متعارف کروانے والے ڈپٹی نذیر احمد کے نواسے ڈاکٹر اشرف کی شاعری ممکن ہے، آپ نے نہ پڑھی ہو لیکن پاکستان یا ہندوستان سے تعلق ہو اور آپ نے گلی کوچوں میں اعضائے نسواں و مرداں کی بلند آہنگ تکرار مع ربط باہم نہ سن رکھی ہو، یہ ممکن نہیں۔

مان لیجئے کہ آپ اپنے نصابی تعصبات اور ضعف اخلاقی کے اسیر ہیں۔ ہم نے تو طبی مسائل پر لکھا تھا، آپ کو غالباً محترم  مولانا طارق جمیل کی زبانی ذکر تلذذ آمیز سے واسطہ رہا ہے۔

سو سمجھ لیجیے کہ الفاظ کی ماہیت و معنی بدلنے میں معاشرے میں مروجہ اقدار و روایات اور افراد کے رویے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

 ہم مانتے ہیں کہ ویجائنا انگلش کا لفظ ہے لیکن کیا مہربان ماں جیسی زبان اردو نے پہلے سے انگریزی کے بے شمار الفاظ کو اپنے دامن میں جگہ نہیں دے رکھی؟

سکول، سٹیشن، ائر پورٹ، یونی فارم، پینسل، شارپنر، فون، موبائل، کار، موٹر سائیکل، ہسپتال، ڈاکٹر، انجیکشن، ویکسین، وائرس، کینسر، پپارلیمنٹ، اسمبلی، الیکشن ……

ہم کہتے کہتے تھک جائیں گے لیکن فہرست ختم نہیں ہو گی۔ اردو کی یہی تو بڑائی ہے، سب کو اپنا بنا لیتی ہے۔

تو پھر ویجائنا ہی استعمال کرتے ہیں۔ میڈیکل میں بولا جانے والا بین الاقوامی لفظ، سنجیدہ حروف، اور ہر خاص و عام کی سمجھ میں آنے والا لفظ، ویجائنا۔

ہماری بات جاری ہے۔

About The Author