وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر انڈیا چین سرحد کی لمبان ساڑھے تین ہزار کلو میٹر ہے تو پاک انڈیا بارڈر کی طوالت بھی تین ہزار تین سو کلومیٹر سے کم نہیں۔ مگر چین کی خوش قسمتی کہ وہ پاکستان نہیں ورنہ اب تک جانے کیا سے کیا ہو چکا ہوتا۔
بیس فوجیوں کا مرنا اور وہ بھی کسی دھشت گرد یا خود کش کے زریعے نہیں بلکہ مدِمقابل اصلی باوردی دشمن کے ہاتھوں ڈنڈوں، سریوں سے مرنا کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے ملک کے لیے ناقابلِ برداشت ہے جبکہ بھارت کوئی چھوٹا ملک بھی نہیں۔ چین اگر بیس ہے تو بھارت انیس۔ مگر چین خوش قسمت ہے کہ وہ پاکستان نہیں۔
یاد نہیں جب پندرہ دسمبر دو ہزار ایک کو انڈین لوک سبھا پر پانچ دھشت گردوں نے حملہ کر کے نو محافظ ہلاک کر دیے تھے تو جواب میں ایک بھی دھشت گرد نہیں بچ پایا تھا۔ بلکہ افضل گرو سمیت پورا نیٹ ورک بھی پکڑا گیا تھا۔
واجپائی حکومت نے محض زبانی احتجاج نہیں کیا تھا بلکہ عملاً پوری سرحد پر پوری فوج لا کے کھڑی کر دی تھی جو نو ماہ تک ٹس سے مس نہ ہوئی۔ وہ تو امریکہ بیچ میں آ گیا اور اس نے بھارت کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ جس طرح اس واردات سے دو برس پہلے کرگل مہم جوئی کے موقع پر بھارت کا غصہ ٹھنڈا کیا تھا۔
جب چھبیس تا انتیس نومبر دو ہزار آٹھ کو ممبئی دھشت گرد حملوں میں ایک سو چھیاسٹھ عام شہری اور نو دھشت گرد مارے گئے اور ایک زندہ پکڑا گیا۔ اس وقت بھی بظاہر پاکستان ان حملوں میں براہِ راست ملوث نہیں تھا مگر آج تک ان حملوں کے نتائج پاکستان کا پیچھا کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی عمارت سے واشنگٹن کے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ تک اور اجمل قصاب کی سزائے موت سے سے لے کر مطلوب ملزم زکی الرحمان لکھوی اور حافظ سعید کی پاکستانی عدالتوں کے زریعے گوشمالی تک ایک ایسا باب ہے جو بارہ برس سے کھلا ہوا ہے۔
اسی طرح اٹھارہ ستمبر دو ہزار سولہ کو کشمیر کی لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب واقع اڑی چھاؤنی پر حملے میں انیس بھارتی فوجی اور چار حملہ آور ہلاک ہو گئے۔ چند گھنٹے میں ہی بھارت اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ یہ میڈ ان پاکستان کاروائی ہے۔
چنانچہ ’گھس کے ماریں گے‘ کا نعرہِ مستانہ بلند ہوا۔
پاکستان سے ہر طرح کا سفارتی، سیاسی، تجارتی ثقافتی لین دین و رابطہ معطل ہوگیا۔ اس دوران مودی سرکار نے سرحد پار کوئی سرجیکل سٹرائیک بھی کی جس کا ریکارڈ آج تک کلاسیفائیڈ ہے۔ البتہ بالی وڈ اڑی اور سرجیکل سٹرائکس پر فلمیں بنا چکا ہے۔
جب چودہ فروری دو ہزار انیس کو کشمیری قصبے پلواما کے قریب ایک خودکش نے بارودی ٹرک اڑا دیا اور چالیس کے لگ بھگ بھارتی نیم فوجی جوان ہلاک ہوئے تب بھی چند ہی گھنٹے کے اندر اندر خود کش کے قدموں کے نشانات اسلام آباد تک جاتے ہوئے پہچان لیے گئے۔
ایک بار پھر گھس کے ماریں گے کا غلغلہ ہوا۔ ایک ہفتے کے اندر اندر بھارتی فضائیہ نے بالاکوٹ پر سرجیکل سٹرائکس کیں اور اتنے دہشت گرد مار ڈالے کہ آج تک گنتی جاری ہے۔
پورا لوک سبھا الیکشن پلواما کے شہیدوں کے نام پر لڑا اور جیتا گیا۔ آج بھی جب کوئی کہتا ہے کہ پاکستان سے بات چیت کا سلسہ بحال کیا جائے تو دلیل یہ آتی ہے کہ دھشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
اس تناظر میں چین کی خوش قسمتی پر مزید رشک آتا ہے کہ وہ پاکستان نہیں۔ ورنہ اور کچھ نہیں تو پچھلے ایک ہفتے کے دوران ساڑھے تین ہزار کیلو میٹر کی سرحد پر کہیں نہ کہیں تو انڈین توپ خانے نے کشمیر کی لائن آف کنٹرول کی طرح اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہوتا۔
انڈین وزیرِ داخلہ امت شا نے سال بھر پہلے لوک سبھا میں سینہ ٹھونک کر کہا تھا کہ انڈیا نہ صرف پاکستان کے زیرِ قبضہ کشمیر، گلگت و بلتستان بلکہ چین کے قبضہ سے اکسائی چن کا علاقہ بھی چھڑوائے گا۔ آج چین کہہ رہا ہے کہ لداخ کی وادیِ گلوان بھی اسی کی ہے۔ مگر امت شا چپ ہیں۔
بیس فوجیوں کی ہلاکت کوئی معمولی بات نہیں ہوتی مگر ماضی کے برعکس اب تک لوک سبھا کا اجلاس تک نہیں بلایا گیا۔ بیجنگ سے بھارتی سفیر کو صلاح مشورے کے بہانے بھی واپس آنے کو نہیں کہا گیا۔ کسی جونئیر وزیر تک کے منہ سے یہ تک نہیں کہلوایا گیا کہ کرارا جواب ملے گا یا چن چن کے ماریں گے۔ یہ تک نہیں کہا گیا کہ انڈیا اپنی مرضی کے وقت اور مقام پر مناسب جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی ایسی کسی واردات کے بعد دن میں چوبیس بار پاکستان کا نام لے چکے ہوتے مگر پچھلے سات دن میں ان کے لبوں پر ایک بار بھی چین کا نام نہیں آیا۔ بس یہ فرمایا کہ شہیدوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔
کئی انڈین شہروں میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے۔ چینی صدر کے پتلے، چینی کھلونے اور ٹی وی سیٹ بھی جلائے گئے ہیں مگر اب تک دلی سے یہ اعلان نہیں ہوا کہ بھارت دوطرفہ تجارتی تعلقات عارضی طور پر معطل کر رہا ہے جیسا کہ پاکستان کے ساتھ پچھلے ڈیڑھ برس سے معطل ہیں۔
بات یہ ہے کہ جب تجارتی تعلقات کا دائرہ نوے ارب ڈالر سے بھی بڑا ہو۔ جب انڈیا میں چینی سرمایہ کاری کا حجم تیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہو۔ جب پاکستان کے علاوہ نیپال، سری لنکا، مالدیپ، بنگلہ دیش اور برما سمیت کسی سے بھی ایسے مثالی مراسم نہ ہوں کہ ان پر بلاجھجھک تکیہ کیا جا سکے۔ اور جب چینی معیشت کا حجم چودہ ٹریلین اور بھارتی معیشت کا حجم تین ٹریلین ڈالر ہو تو پھر گھس کے ماریں گے کا نعرہ مارنا زرا مشکل ہو جاتا ہے۔
ان حالات میں کمہار کا غصہ گدھے پر ہی نکل سکتا ہے۔ اور دھینگا مشتی کے بعد چور نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہونا ہی دانش مندی ہے۔ اتنی عقل تو پاگل میں بھی ہوتی ہے کہ کس کنگلے کے دروازے پر کب پتھر مارنا ہے اور کس چوہدری کے دروازے کو محض گھور کے نکل جانا ہے۔
سفید کرتا پاجامہ واسکٹ پہنے ایک صاحب گلی سے گذر رہے تھے کہ اوپر سے کسی نے باسی دال کی دیگچی الٹ دی۔ سفید پوش صاحب چیخے ابے ہمت ہے تو سامنے آ یہ بزدلوں کی طرح دال پھینک کر چھپ کیوں گیا ہے۔ تھوڑی دیر میں ایک چھ فٹا ہٹا کٹا پہلوان سیڑھیاں الانگھتا نیچے آیا۔ ہاں جی بتاؤ کیا تکلیف ہے؟
سفید پوش صاحب نے پہلے خود کو اور پھر پہلوان کو جانچا اور پھر متانت سے کہا ارے صاحب کچھ نہیں۔ آپ نے جو دال پھینکی وہ اتنی لذیذ ہے کہ سوچا آپ کو نیچے بلا کر اس کی ترکیب ہی پوچھ لیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر