احمد اعجاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے جب یہ کہا کہ ’’نوازشریف کو نااہلی کی سزاپانامہ اسیکنڈل پر نہیں اَقامہ پر ہوئی‘‘مجھے لندن میں بیٹھے نوازشریف یاد آگئے۔میاں نواز شریف کو نااہلی کی سزا پانامہ سکینڈل پر ہوئی یا اقامہ پر،اس پہلو سے قطع نظر،حقیقت یہ ہے کہ میاں نوا زشریف نے بطور سیاست دان اور تین بار کے وزیرِ اعظم، خود کو ناکام ثابت کیِا ہے۔
میاں نواز شریف نے دوہزارتیرہ کے عام انتخابات کے بعد تیسری بار وزیرِ اعظم بن کر اور پھر اپنے نااہل ہونے تک کے عرصہ میں جو فیصلے کیے یا جس طرح کا اندازِ سیاست اَپنایا،اُس کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ میاں صاحب سیاسی فیصلوں میں بہت سطحی نوعیت کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔علاوہ ازیں وہ اس سارے عرصہ میں بہت گھبرائے ہوئے رہے۔حالانکہ پیپلزپارٹی کی مفاہمتی اپوزیشن کی پالیسی بھی اُن کو بہت سپیس مہیاکرتی رہی ،اس کے باوجود میاں نوازشریف ،وزیرِ اعظم ہائوس میں مقید ہو کر رہ گئے اور ملکی نظام دھرنوں اور احتجاجوں میں پھنس کررہ گیا۔اس عرصہ میں میاں نواز شریف کی تقاریر یا اُن کے قریبی رفقاء و وزراء کے بیانات سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ پی ایم ایل این نوے کی دہائی کی سیاست کا احیاء کررہی تھی۔
واضح رہے کہ پانامہ کیس اور قبل ازیں دوہزار چودہ میں پی ٹی آئی او ر پی اے ٹی کے مشترکہ دھرناکے دوران میاں نواز شریف اور اُن کی پارٹی کے کئی سینئرممبران متعددبار مخالفین پر نوے کی دہائی کی سیاست کا الزام لگاتے رہے تھے ،لیکن جب میاں نوازشریف پر سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ خود کو بند گلی میںلا کر ناکام سیاست دان کا رُوپ دھار رہے تھے ،تو اس کے پیچھے اُن کا وہ طرزِ سیاست تھا،جونوے کی دہائی کا تھا۔یعنی اپنے مخالفین پر نوے کی دہائی کی سیاست کے الزام سے زیادہ ،اُن پر خود یہ صادق آتا تھا۔میاں نواز شریف نوے کی دہائی کے بعد دو بار نوے کی دہائی کی طرزِ سیاست کا ثبوت دے چکے تھے ۔ ایک عرصہ وہ تھا ،جب خو دکالا کوٹ اُوڑھ کر میمو گیٹ کی سیاست پر عدالت جا پہنچے تھے۔دوسرا عرصہ پانامہ سکینڈل کے بعد کا تھا۔
پانامہ سکینڈل کے نتیجے میں جب میاں نواز شریف اپنی سیاست کی بھاری قیمت ادا کر رہے تھے تویہ مخالفین کی عمدہ سیاسی حکمتِ عملی کے نتیجے سے زیادہ ، اُن کی اپنی ناکام سیاسی حکمتِ عملی کا شاخسانہ تھا۔ پانامہ فیصلے کا نتیجہ جو بھی نکلتا ،میاں نواز شریف نے خود کو ایک ناکام سیاستدان کے طور پر قوم کے سامنے پیش کر دیاتھا۔ اُس عرصہ میں میاں نوازشریف نے اپنی تقریر اور اپنے عمل ہر دولحاظ سے خود پر سوالات کھڑے کرائے تھے ۔اُنھوں نے سابق امریکی صدر اُوبامہ سے ملاقات کے دوران جیب سے لکھی ہوئی پرچیاں نکالی تھیں اور جے آئی ٹی میں پیشی کے بعدمیڈیا سے گفتگو کے دوران بھی کئی بار لکھی ہوئی پرچیوں سے گفتگو میں مدد لی تھی۔واضح رہے کہ پرچیوںکی مددسے تقریر یا گفتگو کرنا کوئی معیوب اَمر نہیں لیکن یہ کوئی معمولی واقعہ بھی نہیں ہوتا ۔اس طرح کا اندازِ گفتگو اُس اعتماد کو مجروح کرتا ہے ،جس اعتماد کا مظاہرہ اُس وقت ضروری ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں اُس دَور کی اُن کی پارلیمنٹ میں تقاریر بھی ریکارڈ پر ہیں ۔دھرنے کے دِنوں میں جب میاں نواز شریف نے اُس وقت کے آرمی چیف سے مصالحت کار ہونے کا کہا اور آرمی چیف نے عمران خان اور طاہرالقادر ی کے ساتھ ملاقاتیں کیں تو اگلے روز جب پارلیمنٹ میں اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے للکار نما تقریر کی ۔ وہاں پر موجودمیاں نواز شریف اس بات سے ہی مکر گئے کہ اُنھوں نے فوج سے کسی طرح کی مددچاہی تھی۔نیز پانامہ سکینڈل کے بعد کی تقاریر اور عدالت میں اختیار کیا گیا مؤقف بھی تضاد کا حامل رہا ۔ میاں نواز شریف نے اپنے عمل سے کس طرح خود پر سوالات کھڑے کرائے؟ یہ پہلو دو حوالے رکھتا ہے۔اس ضمن میں بھی وہ نوے کی دہائی کی سیاسی سوچ سے باہر نہیں نکل سکے تھے۔
اُنھوں نے دوہزارتیرہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں جیسے ہی وزیرِ اعظم ہائوس میں قدم رکھا ،اُس احساسِ تفاخر کی چادر کو لپیٹ لیا تھا جو وہ نوے کی دہائی کے عرصہ میں دو بار لپیٹ چکے تھے۔وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکے کہ کسی بھی ملک کو فردِ واحد کی سوچ اور اُس کا اندازِ عمل نہیں چلا سکتا۔چونکہ وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکے تھے تو ایک بادشاہ کے رُوپ میں دکھائی دیے(اُس عرصہ میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اُن کے لیے بادشاہ کے طعنے بھی گونجتے رہے)اور ملکی و بین الاقوامی معاملات کو جہاںذاتی سوچ کی بنیاد پر ڈیل کرنے کی کوشش کرتے رہے وہاں اداروں سے ٹکرائو بھی مول لے بیٹھے تھے۔
وہ جب تک وزیرِ اعظم رہے ملک کے وزیرِ خارجہ بھی خود رہے ۔ حالانکہ اُن لمحوں میں عالمی سطح پر جس طرح کی سیاسی تبدیلیاں رُونما ہوئیں اور جس طرح کے سفارتی تقاضوں کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ،ایک وزیرِ خارجہ کی ازحد ضرورت تھی۔نیز داخلی سطح پر میاں نوا ز شریف نے خود کو کئی بار فوج کے مقابل لا کھڑا کیا تھا۔اُس وقت کے وزیرِداخلہ چودھری نثار علی خان روزانہ کی بنیادوں پر کہتے ہوئے پائے جاتے تھے کہ فوج اور حکومت ایک صفحہ پر ہیں ۔ وزیرِ داخلہ کو ایسے بیانات دینے کی نوبت کیوں پیش آتی رہی؟
یقینی طور پر میاں نواز شریف کے اُس طرزِ عمل کی وجہ سے جو نوے کی دہائی کی سیاست کا آئینہ دارتھا۔دھرنے کے دِنوں میں قدرت نے میاں نواز شریف کو یہ موقع عنایت کیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو مضبوط کرتے ،لیکن یہ موقع گنوا دیا گیا ۔ میاں نواز شریف نے اپنے عمل سے تیسری بار وزیرِ اعظم کے طور پر عوام کو کیا دیا؟ سیاسی بے چینی…؟
میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما جب اُس وقت اپنے مخالفین کو یہ کہتے تھے کہ اُنھیں نوے کی سیاست سے باہر نکل آنا چاہیے تو دَرحقیقت سب سے پہلے اُنھیں اور اُن کی پارٹی کو نوے کی دہائی کا طرزِ سیاست ترک کرنا چاہیے تھا۔ میاں نواز شریف بطور سیاست دان اپنا ،اپنی پارٹی ،اپنے خاندان اور عوام کا جو نقصان کرواچکے ہیں ،اُس نقصان کے بارے اُنھیں خود معلوم ہے؟اُنھیں معلوم ہے کہ وہ بیماری کا بہانہ کرکے ملک چھوڑ کر اپنا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔یہ اب جو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘کی جگہ ’’خدمت کو عزت دو‘‘متبادل بیانیہ کی تجویز زیرِ غور ہے یہ دَرحقیقت میاں شہباز شریف کی جانب سے اُس نقصان کے ازالے کی مساعی ہے جو اِن کے بڑے بھائی دوہزار تیرہ کے بعد اور بالخصوص بیماری کے بہانے لندن میں جا کر، پارٹی کا کر چکے ہیں۔مگر شہباز شریف کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر