نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایسے ہوتے ہیں محبّت نامے||رضاعلی عابدی

پھر کیا ہوا۔ سن لیجئے۔ شام کو ڈیرہ اسماعیل خان کے عمائدین شہر سے ملا قات ہوئی۔نشست جمی ہوئی تھی۔ باتوں باتوں میں قیدی بھائی کے اس خط کا ذکر آگیا۔ جیل کے حکام بالا وہیں موجود تھے۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاید آپ نے غور نہ کیا ہو۔ خط لکھنے کا رواج اٹھتا جارہا ہے۔ کوئی دن جاتا ہے جب ڈاکیہ صرف بجلی گیس اور پانی کے بل لایا کرے گا۔ ان کا بھی چل چلاؤ صاف نظر آرہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب خط کو آدھی ملاقات کہا کرتے تھے۔ یوںکہ اس میں پیار بھی ہوتا تھا،اور محبت بھی۔ صرف آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا ممکن نہ تھا اس لئے اس کو آدھی ملاقات کہا کرتے تھے۔ مگر اس نسل اور قماش کے خط صفحہ ہستی سے رخصت ہورہے ہیں اور ان کی جگہ ہتھیلی پر دھرا ہوا اسمارٹ فون ہے یا واٹس ایپ ہے جس پر چھ سات بٹن دبائیے، نہ خیریت مطلوب ہے نہ دعائے خیر ہے، بس گفتگو شروع ہوگئی کہ گفتگو نہ ہوئی کاروبار ہوگیا۔ چنانچہ خط لکھنے، اس پر ٹکٹ چپکانے اور لیٹر بکس تک جانے پھر چھ سات دن جواب کا انتظار کرنے کی کھکیڑ میں کون پڑے؟ٹھیک ہے، یہی زمانے کا نیا چلن ہے پر اس چلن میں نہ وہ پیار کے میٹھے رس میں ڈوبے دو چار جملے رہے اور نہ وہ مٹھاس میں گھُلے لطیف اور شگفتہ فقرے رہے ۔بڑا خسارہ ہے اور بہت بڑا۔یہ ڈیجیٹل دور ہمارے زمانے کو اتنا سپاٹ، بے رنگ اور بے کیف بنادے گا، ہمارے گمان میں نہ تھا۔

اپنے پچاس سال پرانے کاغذات میں سے احباب کے جو خط نکل رہے ہیں انہیں پڑھنے کے بعد دل کی وہی کیفیت ہوئی ہے جو اوپر بیان کر آیا ہوں۔ آج یاد تازہ ہوئی ہے اپنے محبوب دوست محمد عمر میمن کی جو رفاقت اور شفقت کی مثال بنے ہوئے تھے کہ دنیا سے سدھار گئے۔ پہلی بار لندن میں ملاقات ہوئی جس کے بعد ان کا یہ کہنا دل کو چھولیتا تھا کہ ہم نے زندگی کے پچاس سال گنوا دئیے اور پہلے کیوں نہیں ملے۔ان کا سنہ پچاس کا لکھا ہوا ایک ایک فقرہ محبت میں ڈوبا ہوا ہے، بس یہاں یہ بتادوں کہ محمد عمر میمن کا تعلق بے حد پڑھے لکھے گھرانے سے تھا۔امریکہ کی ایک یونی ورسٹی سے وابستہ تھے اور اردو کی ترویج کے لئے لا جواب کام کر رہے تھے۔ اردو ادب کے شاہ کاروں سے مغربی دنیا کو روشناس، کرایااور ایک اعلیٰ ادبی ، تعلیمی اور تحقیقی مُجلّہ جاری کیا۔ دھیما سا مزاج تھا مگر کام شور انگیز کرتے تھے۔ ان کا خط پڑھئے، ایسے ہی خطوں کو کبھی محبت نامہ بھی کہا جاتا تھا:

۱۰ اگست ۱۹۹۵ءمیڈیسن۔ امریکہ

برادرم عابدی صاحب الاندلس کا سفر، جھلسادینے والی گرمی کے باوصف، ایک طرف عبرت انگیز اور دل گیر اور دوسری طرف اتنا ہی خوش گوار گزرا لیکن لندن میں آپ سے جو ملاقاتیں رہیں، ان کا اپنا الگ رنگ تھا:فالسائی مدھم، عجیب دل موہ لینے والی محبت کی آنچ سے مہکتا ہوا۔ مجھے تو گئے دنوں کا افسوس ہے، وہ پچاس سال جو ایک دوسرے سے لاعلمی میں گزرے۔ سچ ، بھائی، آپ اور بھابی دونوں نے مجھے بے حد متاثر کیا۔وہ مہمان نوازی، وہ احساسِ رفاقت، زندہ رہنے کے لئے اور کیا چاہئے۔

کل میں نے سالنامے کی ایک کاپی دفترکے پتے پر سمندری ڈاک سے آپ کو بھیج دی ہے۔ ایک ماہ کے اندر پہنچ جائے گی۔ بھابی سے کہئے گا کہ میں نے شاید قرطبہ یا اشبیلہ سے ہی اجمل کمال کو لکھ دیاتھا کہ آئندہ شمارے سے ’آج‘ اُن کے نام جاری کردیں۔ یہاں پہنچنے کے دو دن بعد اجمل کمال کا ایک خط ملا جس کے لہجے کی اداسی اور مایوسی نے بے حد متوحش کیا۔ وہ بالغ نظر اور بڑے مضبوط ارادے کے آدمی ہیں لیکن کراچی کی موجودہ صورت حال نے انہیں بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک جملہ نقل کرتا ہوں:مکتبی دل چسپی کا سوال اب یہ ہے کہ موت پہلے آئے گی یا پاگل پن۔ جس قسم کے بد خواب دن رات دماغ میں چکراتے رہتے ہیں ان میں گوارا ترین یہ ہے کہ راہ چلتے گولی لگنے سے ہلاک ہوجائیں۔ باقی تمام صورتیں اس سے زیادہ بھیانک ہیں‘‘۔

امید ہے میری کتاب رالف رسل نے اب تک آپ کو بھجوادی ہوگی۔ بتائیے گا۔

بھئی رفاقت کا یہ جو سلسلہ قائم ہوا ہے، اسے جاری رہنا چاہئے۔ گاہے گاہے یاد کرلیا کیجئے گا۔ اب جب کہ میر صاحب آپ کی بزم میں چلے آئے ہیں اور میری بزم میں بھی۔میں رالف رسل کو لکھ رہا ہوں کہ ’’جرنیلی سڑک‘‘ کے کون سے پڑاؤ مجھے پسند ہیں ، وہ ترجمہ کرکے دیں گے تو ۱۹۹۶ کے سالنامے میں شائع کرنے کا پورا ارادہ ہے۔ یہ خط بھابی صاحبہ کو ضرور پڑھوا دیجئے گا اور میری طرف سے ان کی پر تپاک ملنساری کا شکریہ بھی ادا کردیجئے گا۔ عبید صدیقی صاحب کو میری طرف سے سلام۔میں جلد انہیں الگ سے خط لکھوں گا۔آپ کا :محمد عمرمیمن

اور محبت میں ڈوبا ہوا یہ اگلا خط اپنا تعارف خود کرائے گا ۔ حرف بہ حرف نقل کر رہاہوں۔پڑھئے اور سوچئے

جناب رضا علی عابدی صاحب السلام علیکم

مزاج گرامی!آپ کی خیریت خداوند کریم سے نیک مطلوب چاہتا ہوں۔ میں ۲۵ اسال کا قیدی ہوں اور سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان میں قید گزار رہا ہوں۔ پانچ سالوں سے میں بی بی سی کی خبریںباقاعدگی سے سنتا ہوں۔ اور آپ کے دورہ پاکستان آنے پرہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔اور آپ صاحب پاکستان کے کئی علاقوں مثلاً پشاور، پنڈی، کراچی، لاہور، ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان کادورہ کررہے ہیں اور خاص کر ڈیرہ اسماعیل خان کا جب میں نے سنا تو ہم خوش ہوئے اور آپ صاحب جب ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ کرو گے تو نزدیک بالکل سامنے۲ فرلانگ کے فاصلہ پر قائم سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ بھی شامل کرلو۔ اور ہم بے حد مشکور ہوں گے۔ہم ڈی آئی خان جیل کے دورے کی دعوت دیتے ہیں اور ہم قیدیوں کی خواہش ہے ، ان شاءاﷲ ہم کو امید ہے کہ آپ ڈی آئی خان کی بجائے ڈیرہ جیل کا دورہ بھی ضرور کریں گے۔اور خاص کر قیدیوں سے گفتگوکریں گے۔ میں اپنا نام ظاہر نہیں کرتاکیونکہ یہ جیل ہے اور ان خطوں پر ہمیں سزا ملتی ہے۔ہم آپ کے دورہ جیل کے لئے شکر گزار ہوں گے۔( شکریہ)

والسلام آپ کا خیر اندیش ،فقط قیدی بھائی مورخہ 24-3-94

پھر کیا ہوا۔ سن لیجئے۔ شام کو ڈیرہ اسماعیل خان کے عمائدین شہر سے ملا قات ہوئی۔نشست جمی ہوئی تھی۔ باتوں باتوں میں قیدی بھائی کے اس خط کا ذکر آگیا۔ جیل کے حکام بالا وہیں موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ بس کل صبح آپ کو جیل کا دورہ کرایا جائے گا۔ اگلی صبح پہنچا تو میرے استقبال کی تیاری تھی۔ جیل کا دورہ شروع ہوا۔ قیدیوں کی ٹولیاں جگہ جگہ بیٹھی تھیں ۔ ان سے کہا گیا کہ یہ رہے رضا علی عابدی۔ ان کو دورے کی دعوت کس نے دی تھی۔ کوئی نہ بولا۔ کئی با ر پیار سے کہا گیا کہ بتاؤ کس نے بلایا تھا۔ سب خاموش رہے۔ میں نے بھی کچھ نہ کہا کہ کہیں کوئی قیدی بھائی مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائے۔

پچیس سال ہوگئے۔ اگروہ رہائی پا گیا(جیل سے) تو اسے میرا سلام پہنچے۔ اب تو کسی طرح اپنا نام بتا دے۔

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author