نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ سکرپٹ کون لکھتا ہے کیوں لکھتا ہے۔۔۔||ملک سراج احمد

۔ یہ سکرپٹ رائٹر کون ہے جو اس سکرپٹ پر کام کرنے والے اداکاروں کا انتخاب کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے ۔کروڑوں عوام کو ایک سکرپٹ کے تحت چلانے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے ۔

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاطمہ جناح پر غداری کا الزام ، شیخ مجیب کو حق مانگنے پر پابند سلاسل رکھا گیا ۔شیخ مجیب سے جوبھی وعدہ کیا گیا اس کی پاسداری نہیں کی گئی لیکن غدار پھر بھی شیخ مجیب الرحمن تھا۔بھٹو پرالزام کہ اس نے ملک توڑا ۔ بے نظیر بھٹو سکیورٹی رسک تھیں اور نواز شریف تو مودی کا یار تھا۔جبکہ عمران خان یہودی ایجنڈے پر عمل پیرا اور اور سازش کے تحت ملک پر مسلط کیا گیا ہے ۔ اگر یہ سب الزامات درست ہیں بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ الزام درست ہی ہیں کیونکہ محب وطن قیادت کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا جیسا ان مندرجہ بالا قائدین کے ساتھ ہوا ہے تو پھر سوال تو اٹھتا ہےکہ ملک وقوم کے ساتھ مخلص کون ہے۔یہ بھی تو سوال پیدا ہوتا ہےکہ کیا ہر سیاسی قیادت غدار، کرپٹ اور نااہل ہے؟یہ بھی تو سوال ہے کہ سیاسی قیادت جب اقتدار میں آتی ہے تو غلطیاں کرتی ہے اور پھر ان غلطیوں کی اصلاح کرتے کرتے جب میچور ہوتی ہے تو یا تو اس کو قتل کردیا جاتا ہے یا پھر جلاوطن کردیا جاتا ہے۔کیوں ہوتا ہے ایسا کوئی جواب ہے کسی کے پاس۔یا پھر کون ایسا ہے کہ جس کی سنی جائے جس کو مسیحا مان کر اس کےپیچھے چلا جائے جس کی کہی ہوئی باتوں پراعتبار کیا جائے۔
آپ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی سوچ یا نظریے کے حامی ہیں جو بھی ہیں مگر ایک پاکستانی تو ہیں تو براے کرم ایک لمحے کو رک کر سوچیں کہ اگر ماضی کے تمام سیاسی قائدین پرلگے الزامات درست ہیں تو پھر ٹھیک کون ہے ۔اگر یہ الزامات غلط ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تمام سیاسی قائدین ٹھیک ہیں پھر خرابی کسی اور جگہ پرہے ۔ ہم اس مرحلے پررک کر اس کا فیصلہ کیوں نہیں کرلیتے کہ کیا ٹھیک ہے کیا غلط ہے ۔ قابل احترام قبلہ وجاہت مسعود کا فرمانا درست ہے کہ "جب ہم تاریخ سے انکار کرتے ہیں یا تاریخ کو مسخ کرتے ہیں تو دراصل ہم اپنی گزشتہ غلطیوں ، ثابت شدہ غلط ترجیحات اور از کار رفتہ اقدار پر اصرار کررہے ہوتے ہیں ۔تاریخ سے انکار ، ارتقا سے انکار ہے”اور ہماری تاریخ تو ہر محب وطن کو غدار قرار دینے جیسے عظیم کارناموں سے بھری پڑی ہے۔
اسلاف کا ماضی تو چھوڑیں دور کی بات ہے گزشتہ 74 سالوں کی تاریخ کو سرکاری نصاب میں جس طرح پیش کیا گیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہےکہ ہم تاریخ کو مسخ کرنے میں کس قدر ماہر ہیں۔آج ایک ایک کرکے پرتیں ہٹتی جارہی ہیں حقائق کا ایک جہان جاننے والوں کا منتظر ہے۔اب تو قیامت کا سماں ہے کہ جو کچھ ماضی میں کیا یا کہا ہے وہ انگلیوں کے ناخنوں پر نظر آنے کی مثل موبائل پر نظر آرہا ہے۔کسی بات سے انکار ممکن نہیں رہا سوائے اقرار کے مگر اس سب کے باوجود ہم بقول وجاہت مسعود اپنی گزشتہ غلطیوں ، ثابت شدہ غلط ترجیحات اور ازکار رفتہ اقدار پر اصرار کررہےہیں۔کیسے کررہے ہیں تو اس کی ایک دلیل پیش خدمت ہے۔ سابق چیف جسٹ گورنر ووزیراعلیٰ بلوچستان جسٹس (ر)میر خدا بخش بجارانی مری بلوچ کی کتاب سے اقتباس پیش خدمت ہے اس کو پڑھیں تاریخ جانیں اور ان حالات کا موجودہ حالات سے موازنہ کریں اندازہ ہوجائے گا کہ ازکار رفتہ اقدار پر اصرار کیا ہوتا ہے ۔
سابق چیف جسٹس گورنر و وزیراعلیٰ بلوچستان جسٹس (ر) میر خدا بخش بجارانی مری بلوچ اپنی کتاب مارشل لا ، آئین اور عدالتیں کے باب اول ملٹری ازم اور عدالتی انجینئرنگ میں لکھتے ہیں کہ "جنرل ایوب خان جو بعد میں فیلڈ مارشل ایوب خان بنے کا دس سالہ دور حکومت سرکاری طورپر ترقی کی دہائی قرار دیا گیا مگر عوام نے بجا طورپر اسے زوال کی دہائی قرار دیا۔اس دور حکومت میں جیسا کہ ہر فوجی آمریت کے دور میں ہوا کرتا ہے عوام کو سیاسی رائے اور اداروں سے محروم کردیا گیا۔انہوں نے اپنے مخالفوں کو ترغیب اور تحریص میں مبتلا کیا ۔انہیں پوری طرح بدعنواں بنایا۔یا پھر وحشیانہ قوت کے زریعے ان کی آواز اس حد تک دبا دی کہ اب ملک میں صرف جنرل صاحب کی آواز ہی سنائی دیتی تھی ۔
انہوں نے دنیا کےہر موضوع پر اس طرح بلند آہنگ میں بات کی گویا وہ ہر علم پر حاوی ہیں۔جب تک وہ نفع پہنچاتے رہے ان کے پالتو ان کی پالیسی کے ہر موڑ کو ہر خامی کو صیحح قرار دیتے اور اس کا جواز پیش کرتےرہے۔انہوں نے ایوب حکومت کےجواز کے سوال کو سرے سے ہی نظر انداز کئےرکھا۔انہوں نے رائے عامہ کے بتدریج بڑھتے ہوئے دباو کو بھی نظر انداز کردیا۔اچانک صدر ایوب خان نے خود کو چاروں طرف سےگھرا ہوا پایا ۔ ان پر ہرطرف سے لعن طعن ہو رہی تھی ۔وہ پیش قدمی کی قوت سے محروم ہوگئے ۔ان کے پاوں جکڑے گئے جیسا کہ ہر فوجی حکمران کا مقدر ہوتا ہے”
ایوب خان کا زریں اور سنہرا دور جس کی مثالیں چند مخصوص تجزیہ نگار دیتےنہیں تھکتے کی حقیقت میر خدا بخش کی کتاب میں پڑھی جاسکتی ہے۔آج کے حالات کے مطابق غور کریں تو لگتا یہی ہے کہ ایک ہی سکرپٹ رائٹر ہےاور ایک ہی کہانی ہے اور کم وبیش حالات بھی یکساں اور ایک سے ہیں بس کرداروں کے ناموں کا فرق ہے۔مگر عادات ، اطوار اور طرز حکمرانی بھی ایک سی ہے ۔عوام کی حالت بھی ایک جیسی ہے اور شائد انجام بھی ایک سا ہونے والا ہے ۔تو آخری سوال یہ ہےکہ کون لکھتا ہے یہ کہانیاں ۔ یہ سکرپٹ رائٹر کون ہے جو اس سکرپٹ پر کام کرنے والے اداکاروں کا انتخاب کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے ۔کروڑوں عوام کو ایک سکرپٹ کے تحت چلانے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے ۔ان کو فیصلے کرنے کا اختیار کیوں نہیں دیا جاتا ۔عوام کو اپنے غلط فیصلوں کو ٹھیک کرنے کا موقع دیں ۔یہ غلطیاں کرکےہی سیکھیں گے ۔مشکلات میں گھرجائیں گے تو ان سے نکلنے کی تدبیر بھی کریں گے جدوجہد کریں گے ۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کی غلطیاں کم ہوتی جائیں گی اور ایک دن یہ بہترین قیادت کو منتخب کرنے کے قابل ہوجائیں گے مگر فیصلے ان کو خود کرنے دیں ان کو کہانیاں لکھ کر مت دیں۔

براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author