دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغانستان، کیا خوش ہونا بنتا ہے؟||ڈاکٹر مجاہد مرزا

رہی بات پاکستان کی تو طالبان پر اثر تو ثابت ہو گیا کہ انہوں نے دو ٹوک کہہ دیا تھا تحریک طالبان پاکستان جانے اور حکومت پاکستان جانے۔ ہم ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتے

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2013 میں میرے ساتھ حج کے لیے جانے والے ساتھی ڈاکٹر جمشید ساہی، کل مجھے مسجد کے باہر مل گئے۔ وہ دہائیوں سے مع اہل و عیال ماسکو میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ہونا تو افغانستان میں ہی رہ گیا تھا یہاں درمیانے درجہ کا کاروبار کر کے زندگی بسر کر رہے تھے، کورونا نے کاروبار بھی چھین لیا، اب بس ایک آن لائن پرچہ ترتیب دیتے ہیں پشتو اور دری میں۔ افغانستان سے متعلق، جہاں ان کے اعزا و اقربا ہیں پوچھا تو بولے کہ ہم تو برباد ہو گئے، اچھی بھلی حکومت چل رہی تھی کہ امریکہ ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔ لوگوں کے حالات بہت خراب ہیں، تنخواہیں مل نہیں رہیں، کاروبار نہ ہونے کے برابر ہوئے جا رہے ہیں۔ شہروں سے لوگ بھاگ کر یا تو دیہاتوں میں رشتہ داروں کے ہاں جا رہے ہیں یا بیشتر سرگرداں ہیں کہ ملک سے کیسے نکلیں اور جائیں تو جائیں کہاں۔

پہلے تو حاجی جمشید کے بارے میں بتاتا چلوں کے وہ داڑھی والے اور بہت مذہبی آدمی میں۔ نہ تو وہ بھارت کے ایجنٹ ہیں اور نہ ہی مغربی ملکوں میں سے کسی کے، امریکہ کے تو ہرگز نہیں بصورت دیگر روس کی بجائے امریکہ میں ہوتے۔ البتہ آپ چاہیں تو انہیں روس کے حامی کہہ لیں جس کے بارے میں پاکستان میں بیشتر لوگوں کو خوش فہمی ہے یا غلط معلومات کہ روس نے طالبان کی افغانستان میں اقتدار کے حصول میں مدد کی ہے اور یا وہ اب بھی کر رہا ہے، یوں ڈاکٹر جمشید نے جو دکھ ظاہر کیا وہ پروپیگنڈا تو ہے نہیں سراسر حقیقت ہے کہ نقصان پہنچتا ہے تو عام انسانوں کو۔

اب رہی بات روس کی تو جیسے کئی سال پہلے سے روس کے ڈیجیٹل میڈیا میں طالبان کا نام لینے کے فوراً بعد کہا جاتا تھا کہ روس میں قانونی طور پر ممنوعہ اور اسی طرح پرنٹ میڈیا میں لکھا جاتا تھا، آج بھی ویسے ہی بولا اور لکھا جا رہا ہے۔

البتہ روس نہیں چاہتا کہ دوسرے ملکوں کے معاملات میں زبردستی مداخلت کی جائے اس لیے کل دوشنبہ میں ہوئے ایس سی او کے اجلاس سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے روس کے صدر پوتن نے کہا کہ درست ہے طالبان کیے گئے وعدوں پہ پورے نہیں اترے، نہ ہی عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کو پورا کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر کی اور نہ ہی وہ ملک کی آبادی کے تمام حلقوں کی نمائندگی کر رہے ہیں مگر افغانستان کے عوام کو ہی فیصلہ کرنے دینا چاہیے کہ ان کے لیے کیا بہتر ہے چنانچہ اس سلسلے میں ساری دنیا کے ملکوں کو طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں۔

مگر امریکہ افغانستان کو بہتر حالات میں کیوں رہنے دیتا۔ کیا امریکی ریاست کے زعما کا دماغ خراب ہے؟ یہ بات میں نے ڈاکٹر جمشید سے تب کہی جب اس نے تھوڑے سے غم و غصہ کے ساتھ کہا کہ اگر ایسے ہی بے یارومددگار چھوڑنا تھا تو امریکہ افغانستان ٓ میں بیس سال پہلے آیا ہی کیوں اور اتنے زیادہ ڈالر خرچ کیوں کیے؟ میں نے ڈاکٹر جمشید سے کہا کہ ان کے اخراجات کی فکر تو تم نہ کرو لیکن وہ یہاں آیا کیوں تھا، اس کے بارے میں میں سمجھتا ہوں کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کوئی بھی عمل طویل مدتی منصوبہ بندی کے بغیر نہیں کیا کرتی۔ وہ یہاں اپنے ہمسایہ ملکوں جن میں روس، چین اور ایران جیسے اس کے براہ راست حریف ممالک بھی ہیں اور پاکستان جیسا گو مگو کی پالیسی پر گامزن حلیف ملک پاکستان بھی، سبھوں کے لیے خوب بندوبست کر کے نکلا ہے۔

روس کو افغانستان کے حالات خراب ہونے سے صرف دو مسائل سے متعلق پریشانی رہی ہے جو آج بھی ہے یعنی مذہبی شدت پسندی کا وسطی ایشیا کے ممالک کے توسط سے روس کے ان علاقوں میں نفوذ جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے اور ایسے خطے کئی ہیں چیچنیا کے علاوہ انگوشیتیا، کابردین بلکاریا، داغستان، تاتارستان اور بشکورتوستان۔ آخر الذکر چونکہ عین قلب میں ہیں اس لئے وہاں کے مسلمانوں پر روس کی ثقافت کا زیادہ اثر ہے چنانچہ مذہبی شدت پسندی کا عنصر تاریخی طور پر کم رہا ہے مگر باقی خطے پہاڑی علاقوں میں ملک کے سروں پر واقع علاقے ہیں جہاں روسی ثقافت کا اثر اگر ہے بھی تو بہت ہی کم۔

دوسرا مسئلہ روس کے لیے افغانستان سے سمگل کی جانے والی منشیات ہیں جو بالآخر یورپ پہنچتی ہیں جس کی وجہ سے روس کو یورپ کو جوابدہی کرنی پڑتی ہے۔ ان دونوں مسئلوں سے نمٹنے کی خاطر روس نے گزشتہ کئی سالوں سے جہاں ایک طرف پاکستانی فوج کے ساتھ ہمدستی بڑھائی ہے وہیں پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر ان دونوں معاملات پر سوچ بچار کرنے اور اقدامات لینے سے متعلق ”عملی کمیٹیاں“ بھی ترتیب دی ہوئی ہیں جن کے اجلاس کئی سال سے جاری ہیں اور وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا ہی پرچار کر کے عام لوگوں کو تاثر دیا جاتا ہے کہ روس اور پاکستان کے تعلقات بہتر سے بہتر ہوتے جا رہے ہیں جو درحقیقت آدھا سچ ہے کیونکہ کسی ایسے ملک کے ساتھ جس کے امریکہ کے ساتھ بہت حلیفانہ تعلقات ہوں، روس تعلقات کو بہتر بنانے میں از حد محتاط ہوتا ہے۔

چین کے بھی دو معاملات کا افغانستان کے حالات سے براہ راست تعلق ہے ایک تو چینی ترکستان میں شدت پسندی دوسرے پاکستان کے سمندر تک رسائی کے ضمن میں مرتب کیا گیا منصوبہ بہ نام سی پیک۔ جہاں ایک طرف امریکہ اور اس کے حواری ملک جب چاہیں فوری طور پر آبنائے ملاکا بند کر سکتے ہیں جہاں سے چین کو مشرق وسطٰٰی اور افریقی ممالک سے تیل جاتا ہے جو چین کی انتہائی پیش رفتہ معیشت کے لیے ازحد ضروری ہے وہاں امریکہ نے جنوبی بحیرہ چین میں چین کو نکیل ڈالنے کی خاطر اب آسٹریلیا کے ساتھ مل کر ایک نئی حکمت عملی کا اعلان کر دیا ہے۔

چین کے لیے سی پیک کا جلد از جلد یعنی مقررہ وقت میں مکمل ہونا بہت اہم ہے، اسی طرح روس کے لیے بھی افغانستان میں استحکام اہم تر ہے۔ ایران کو بھی یہی چاہیے تاکہ امریکہ پھر سے افغانستان میں نہ اتر آئے اور براہ راست ایران کے سر پر پھر سے بیٹھ جائے۔ ایسا ہونے کے لیے پاکستان کا کردار ایک بار پھر اہم ہو گیا ہے روس، چین اور ایران کے لیے مثبت طور پر اور امریکہ کے لیے منفی طور پر۔ امریکہ پاکستان کو جھنجھلائے رکھے گا کیونکہ امریکی امداد چاہے وہ آئی ایم ایف سے مالی مدد ہو یا امریکی عسکری ساز و سامان، جنگی طیاروں اور پرزوں کی شکل میں، پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے، ساتھ ہی روس اور چین کوشش کریں گے کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثر استعمال کرے۔

رہی بات پاکستان کی تو طالبان پر اثر تو ثابت ہو گیا کہ انہوں نے دو ٹوک کہہ دیا تھا تحریک طالبان پاکستان جانے اور حکومت پاکستان جانے۔ ہم ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ پھر ہمارے بڑ بولے وزیر خارجہ نے کہہ ہی دیا کہ اگر ٹی ٹی پی دہشت گردی سے باز آ جائے اور دستور پاکستان کو تسلیم کرے تو ہم انہیں ( باوجود ستر ہزار انسانوں جن میں افواج پاکستان کے کئی ہزار جوان اور افسر بھی شامل تھے ) معافی دیے جانے بارے سوچ سکتے ہیں جس پر ٹی ٹی پی والوں نے فوری طور پر ردعمل دیا اور کہا کہ معافی تو ہم حکومت پاکستان کو دیں گے جب ہم اپنے جہاد کے ذریعے پاکستان میں نظام اسلام نافذ کر لیں گے۔

یوں پاکستان کے عوام کو ایک بار پھر مذہبی شدت پسند تحریک کی چیرہ دستیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے چنانچہ افغانستان کے بارے میں خوش ہونا اس لیے نہیں بنتا کہ وہاں جب بھوک پھیلے گی جو پھیل رہی ہے تو بھوکے لوگ لڑیں مریں گے بھی، جرائم بھی بڑھیں گے، بھوکے اور جرم کی جانب راغب لوگ آسانی سے داخل ہونے کے قابل ملکوں جیسے پاکستان اور ایران میں آئیں گے بھی۔ افغانستان کے اندر خانہ جنگی بھی ہوگی۔ داعش جیسی خون آشام تنظیم بھی ویسی ہی غیر انسانی کارروائیاں کرے گی جیسے عراق اور شام میں کر چکی ہے۔ طالبان آپ کے بگڑے ہوئے بچے نہیں بلکہ پرائے بچے ہیں اور پرایا ملک کون سا ہے یہ بھی کیا میں بتاؤں؟

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author