دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاست سے لے کر روپے کی گراوٹ تک||ملک سراج احمد

خدا کرے کسی کی سمجھ میں آ جائے کہ ملک کو کمپنی کی طرح نہیں چلایا جاتا بلکہ امور مملکت چلانے کے لیے کسی ویژن کی ضرورت ہوتی ہے کسی سوچ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی کتابوں میں پڑھتے تھے کہ قوموں پر زوال آگیا اور پھر ان قوموں کے زوال ک اسباب بھی دئیے گئے ہوتے تھے۔پڑھتے ہوئے سوچتے تھے کہ زوال پذیر قومیں دیکھنے میں کیسی ہوتی ہوں گی ۔شائد تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا اور اپنی زندگی میں ہی انحطاط پذیر معاشرہ دیکھ لیا۔بلکہ دیکھ کیا لیا اسی انحطاط پذیر معاشرے کا حصہ ہوکر حیران ہیں اور ستم یہ کہ حیرانی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
کس کس چیز کو رویا جائے کس کس چیز کی دھائی دی جائے ۔کوئی ایک ایسی بات جس پر اطمینان قلب حاصل ہو۔بہت سوچا مگر وہ بات نہیں ملی ۔ملتی بھی کیسے کہ کوئی بات تھی ہی نہیں ۔اردگرد نظر دوڑائیں تو سوائے پریشانی ، اضطراب اور بے یقینی کے کچھ نہیں ملتا۔بیمار علاج کو تڑپ رہے ہیں تو بھوکے دو وقت کی روٹی کو بلبلا رہے ہیں ۔حقیقت یہی ہے کہ آج عصمتیں سستی اور دو وقت کی روٹی مہنگی ہوگئی ہے، اب اس سے بڑھ کر زوال اور کیا ہوگا۔؟
ایک رہنما نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر کہا کہ میرے پاس معاشی ماہرین کی ٹیم ہے جو ملک کے معاشی حالات کو بہتر کردے گی ۔سادہ لوح قوم نے تسلیم کرلیا۔اور کنٹینر سے اتار کر وزیراعظم ہاوس یہ سوچ کر بھیج دیا کہ اب حالات اچھے ہوجائیں گے ۔ حالات کیا اچھے ہونے تھے اس پر تو جالب بہت پہلے لکھ گئے تھے کہ دن پھرے ہیں فقط امیروں اور پاوں ننگے ہیں بے نظیروں کے اور ہمارے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا۔
چینی اسکینڈل، آٹا اسکینڈل ، انسانی زندگی بچانے والی ادویات میں ہوشربا اضافہ ، پٹرول اسکینڈل نے تبدیلی کے نشے ہرن کردئیے۔لیکن کچھ ناعاقبت اندیشوں کی ضد کہ کپتان ڈٹا ہوا ہے۔کپتان کا ویژن ملک ڈولتی ہوئی معاشی ناو کو کنارے لگائے گا۔مولا خوش رکھے اب تو جناب صدر نے بھی مشترکہ اجلاس میں کہدیا کہ دنیا کو کپتان کےویژن سے استفادہ کرنا چاہیئے۔اس کے بعد کس سے گلہ کریں کس سے منصفی چاہیں۔؟
منصفی کے لیئے منصفوں کے پاس وقت ہونا ضروری ہے اور منصف فی الوقت اگلی قرعہ اندازیوں کے منتظر ہیں لہذا سپریم کورٹ بار کے صدر جتنا چیخ وپکار کرلیں کام اتنا ہی ہوگا جتنا ہورہا ہے اس سے زیادہ کی توقع عبث ہے بلکہ گستاخی ہے ۔مطلب ریاست کا یہ ستون بھی کارگر نا ہوا اور کسی منصف نے ہوشربا مہنگائی پر از خود نوٹس نہیں لینا۔
دوسرے ستون کی حفاظت کے لیے پی ایم ڈی اے کا بل لایا جارہا ہے ۔بل کی حمایت اور مخالفت میں لکھا اور بولا جارہا ہے ۔کہیں پر یہ آزادی اظہار پر حملہ تو کہیں مثبت صحافت کے لیے پہلا قدم ۔ اس کشمکش میں طے ہوگیا کہ عام آدمی کے مسائل پر فی الوقت بات مشکل ہے کہ اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اب اپنی جان چھوٹے تو عام آدمی کی طرف دیکھیں
عام آدمی کی طرف توجہ دینے کے لیے پارلیمان موجود ہے ۔مگر وہاں پر مشترکہ اجلاس سے صدر خطاب کرکے سمجھاتے ہیں کہ سب اچھا ہے ۔اگر سب اچھا ہی ہے تو پھر پارلیمان میں اتنا شور کیوں ہے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
اب رہ گئی حکومت تو خاطر جمع رکھیں وہ ملک وقوم کے مفاد میں دن رات کام کررہی ہے ۔مصروفیت اس قدر ہے کہ ایف بی آر کی سائٹ ہیک ہوئی مگر ہمیں پتہ نہیں چلا ۔روپے کی قدر گرنے لگی اور اس قدر گری کہ سابقہ حکومتوں کے بھی ریکارڈ توڑ دئیے۔پہلے ایماندار ہیں جن کی کارکردگی بے ایمانوں سے بھی بری ہے ۔
معاشی بے یقینی کے سبب ڈالر کی خرید میں اضافہ ہوا ہے ۔اسٹیٹ بینک نے مداخلت کرکے اس تنزلی کو وقتی طورپر روکا ہے۔مگر یہ شائد زیادہ دیر قائم نا رہ سکے ۔کیونکہ گزشتہ چار ماہ میں ڈالر کی قیمت میں 17 روپے 22 پیسے اضافہ ہوا ہے۔چارماہ قبل مئی میں ڈالر کا ریٹ 152 روپے تھا۔
اس حکومت میں محض روپے کی تنزلی نہیں ہوئی بلکہ سیاسی ، اخلاقی طورپر بھی تنزلی کا شکار ہوئے ہیں ۔یہ اخلاقی تنزلی نہیں تو اور کیا ہے کہ انتخابی مہم میں جتنے وعدے کیئے کسی ایک پر عمل نہیں کیا اور سیاسی تنزلی یہ ہے کہ حکومتی وزیرمشیر اپنی وعدہ خلافیوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ۔
ساری باتیں چھوڑیں اور سوچیں کہ اگر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی حکومتیں کرپٹ تھیں اور اس وقت حالات برے تھے تو صدق دل سے بتائیں کہ موجودہ حالات کو کیا نام دیں گے ۔کیا یہ حالات ماضی سے بہتر ہیں یا اس سے برے ہیں ۔مہنگائی ، بے روزگاری ، امن وامان کی صورتحال ماضی کے مقابلے میں کیسی ہے ؟ کیا یہ ہے وہ نیا پاکستان جس کا خواب دیکھا تھا۔
خدا کرے کسی کی سمجھ میں آ جائے کہ ملک کو کمپنی کی طرح نہیں چلایا جاتا بلکہ امور مملکت چلانے کے لیے کسی ویژن کی ضرورت ہوتی ہے کسی سوچ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے ۔اگر اس سب کچھ سے ہٹ کر ملک کو کمپنی کی طرح چلانے کی کوشش کی جائے تو وہی کچھ ہوتا ہے جو اس وقت ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔شائد اسی لیئے سہیل وڑائچ نے لکھا تھا کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔اور حضور والا اطلاع ہو کہ کمپنی نہیں چل رہی۔
حرف آخر کہ قوم کا مسلئہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین نہیں ہے اس مشین کے بعد اگر آپ نے برسراقتدار آنا ہے تو جناب والا آپ اس وقت بھی برسراقتدار ہیں لہذا قوم کی بنیادی ضروریات کی طرف توجہ دیں۔مہنگائی کو کنٹرول کریں بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔اگر یہ سب کچھ نا کیا تو نئی الیکڑانک ووٹنگ مشین بھی مدد نہیں کرسکیں گی اور نتائج توقع کے بالکل برعکس ہوں گے۔ لہذا اپنی توجہ مشینوں کی بجاے زندہ انسانوں پر مرکوز کریں تاکہ آئندہ حکمرانی کی خاطر آپ کو رعایا دستیاب ہو۔اگر سارے مرگئے تو آپ کے لنگر خانے کا کھانا کون کھائے گا پناہ گاہ میں کون رہے گا ایک کروڑ نوکریاں کون لے گا اور پچاس لاکھ گھر ویران پڑے رہیں گے۔

براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author