دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

طالبان حکومت: پہلے امتحان میں کس حد تک سرخرو؟||محمد عامر خاکوانی

دراصل طالبان کی بیس سالہ جدوجہد میں سراج حقانی اور ان کے جنگجوئوں نے ، جنہیں مغرب حقانی نیٹ ورک کہہ کر پکارتا رہا، انہوں نے غیر معمولی اہم کردار ادا کیا۔ سراج حقانی کے چار بھائی اس جنگ میں شہید ہوئے۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے نزدیک افغانستان میں طالبان کی آمد کے دو پہلو ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ انہوں نے طویل گوریلا جدوجہد کے ذریعے قابض افواج کا مقابلہ کیا اور سامرا ج کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔ امریکہ کی افغانستان میں ناکامی اور رسوائی آمیز انداز میں یہاں سے نکلنا کمزور اور مظلوم قوموں کے لئے امید کا باعث ہے۔ طالبان کا یہ پہلو ایسا ہے جس کی اہمیت ہمیشہ رہے گی۔ افغانستان میں طالبان کیسے حکومت چلائیں گے، اچھی گورننس کر پائیں گے یا نہیں؟یہ الگ پہلو ہے۔طالبان کا ایک خاص فہم دین ، طرز زندگی، سخت گیر ٹھیٹھ مذہبی فکر اور قبائلی افغانی روایات اور مسائل کو حل کرنے کا اسی انداز کا طریقہ کار ہے۔ یہ سب چیزیں ایسی ہیں جن سے بہت سوں کو اختلاف ہوسکتا ہے۔
طالبان اب حکومت بنا چکے ہیں، وہ اچھے کام بھی کریں گے، ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوسکتی ہیں۔ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ طالبان کی غلطیوں پر تنقید کی جائے اور کسی اچھے کام کی مدح۔ طالبان کی غلطیوں یا ان کی پالیسیوں کا دفاع کرنا ہمارا کام نہیں۔ پاکستان میں جو حلقے طالبان کی فتح پر خوش ہوئے، ان سب کو یہ اہم نکتہ سمجھنا ہوگا۔ طالبان مظلوم تھے، ان کی حمایت کرنے کا معقول جواز تھا۔
اب طالبان حکومت بن گئی۔ صورتحال بدل چکی ۔ وہ جلاوطن گروہ یا گوریلا تنظیم نہیں بلکہ افغانستان کے حکمران ہیں۔ ان کی پالیسیوں کا غیر جانبداری سے تجزیہ کرنا چاہیے ، تاہم اسے متوازن اور معتدل ہونا چاہیے، مغربی پریس کی طرح یک رخا ، متعصب اور یک طرفہ نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ طالبان کو سپورٹ کر ے۔ پاکستان پچھلی بار طالبان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بنا تھا، اس بار بھی ہم پہل کر سکتے ہیں۔ تاہم بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ بطور افغان حکومت طالبان نے اپنے ملک کا مفاد سامنے رکھنا ہے۔ وہ اپنے آپ کو آزاد ثابت کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔
ممکن ہے کہیں ہم سے مختلف موقف اپنانا پڑے۔ حکومت کے ساتھ ہمارے میڈیااور لکھنے والوں کو بھی یہ سب سمجھنا ہوگا۔ طالبان نے اپنی نئی حکومت کا اعلان کر دیا ہے، اگرچہ اسے عبوری حکومت کہا جا رہا ہے، مگر قرائن بتاتے ہیں کہ یہی سیٹ اپ چلے گا۔
افغانستان پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان کا یہ بڑا امتحان تھا۔ اس سے پہلے انہوں نے ایک بڑی کامیابی یہ حاصل کی کہ سابق حکومتی عہدے داروں اور سیاسی وعسکری اشرافیہ کے لئے عام معافی کا اعلان کیا۔معافی پر بڑی حد تک عمل ہوا ہے۔ طالبان سے اتنی کشادہ دلی اور وسعت قلبی کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔
جن لوگوں سے وہ بیس سال لڑتے رہے، جن کی وجہ سے بیشتر طالبان لیڈروں کی اولادیں، بھائی، بھتیجے اور جنگجو مارے گئے، انہیں معاف کرنا بڑا مشکل تھا۔ طالبان نے مگر یہ کر دکھایا۔ اس پر انہیں دس میں سے آٹھ نمبر تو ملنے چاہئیں۔ طالبان کی دوسری بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے پنجشیر کو فتح کر لیا۔ یہ اہم تاجک صوبہ اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ہمیشہ ناقابل تسخیر رہا۔ روسی اپنے پورے دورمیں کوشش کے باوجود اسے فتح نہیں کر سکے تھے۔ طالبان بھی اپنے دور میں بار بار کوششوں کے باوجود ناکام رہے۔
اس بار طالبان نے یہ کر دکھایا۔ اہم بات یہ کہ پنجشیر کی فتح کے بعد بھی وہاں قتل عام نہیں کیا گیا۔ جس نے سرنڈر کر دیا، اسے جانے دیا گیا۔ طالبان سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ وسیع البنیاد حکومت بنائیں گے جس میں دیگر گروپوں کی مناسب نمائندگی ہوگی۔
جو کابینہ سامنے آئی ہے، یہ کہیں سے بھی وسیع البنیاد نہیں۔ اس میں نہ صرف سابق افغان حکومتی عہدے داروں، اہم لیڈروں یا ان کی طرف سے دئیے گئے ناموں کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ بنیادی طور پر یہ پشتون حکومت ہی ہے۔ طالبان کی سابق حکومت کی طرح اس بار بھی نوے فیصد سے زیادہ وزرا پشتون ہیں۔ اس پہلے مرحلے پر وسیع البنیاد حکومت بنانے میں طالبان ناکام ہوئے ہیں۔ان کی اس حکومت یا کابینہ نے گیارہ ستمبر کو حلف اٹھانا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس موقعہ پر بعض سرپرائز اعلانات ہوسکتے ہیں۔
سردست تو عالمی سطح پر طالبان کے حامی مایوس ہوئے ہیں۔ کہا جارہا تھا کہ طالبان مصلحتاً ایک دو خواتین کو کابینہ میں شامل کریں گے۔ یہ امید بھی ٹوٹ گئی۔ جو کابینہ بنائی گئی ہے وہ طالبان کے سابق دور حکومت کے سٹائل کے مطابق ہی ہے۔ یہ البتہ کہا جا سکتا ہے کہ طالبان نے اپنے کیڈر اور مڈل، لوئر رینکس کو مطمئن کیا ہے۔ مختلف گروپوں کو اچھے انداز میں اکاموڈیٹ کیا گیا۔ملا حسن اخوند جنہیں سربراہ حکومت بنایا گیا ، ان کے بارے میں کم معلومات میڈیا پر تھیں۔
وہ پرانے آدمی ہیں، ملا عمر کے قریبی ساتھی، مگر لوپروفائل رہنے کی وجہ سے خبروں سے دور تھے۔ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ملا حسن نے ملا عمر کے دور حکومت میںاخبارات پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کی تھی کہ اخباری صفحات پیر تلے آ کر توہین کا باعث بنتے ہیں۔ ملا حسن سے یہ فقرہ منسوب ہے ،’’ افغان عوام ناخواندہ ہیں، ان کے لئے اخبار کی جگہ ریڈیو شریعت ہی کافی ہے، میں بھی اخبارپڑھنے میں وقت ضائع نہیں کرتا۔‘‘تاہم اپنی جدوجہد ، علم اور تقوے کی بنا پر ملا حسن اخوند کی نامزدگی پر طالبان کی اندرونی دنیا میں کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔
سراج حقانی کو وزیرداخلہ بنانا اور ملا یعقوب کو وزیردفاع بنانا اہم فیصلہ ہے۔۔ ملا یعقوب ملا عمر کے بیٹے اوراچھے جنگجو ہونے کے ناتے طالبان میں مقبول ہیں۔پکیتا سے تعلق رکھنے والے سراج حقانی کے والد مولوی جلال الدین حقانی مرحوم کو ملا عمر کی حکومت میں سرحدی امور جیسی غیر اہم وزارت ملی تھی۔کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں قندھاری ہمیشہ سے اہم رہے ہیں جبکہ پکتیا وغیرہ کو افغان قبائلی سیٹ اپ میںزیادہ اہمیت حاصل نہیں۔ اس بار سراج حقانی کو اہم وزارت ملی۔
دراصل طالبان کی بیس سالہ جدوجہد میں سراج حقانی اور ان کے جنگجوئوں نے ، جنہیں مغرب حقانی نیٹ ورک کہہ کر پکارتا رہا، انہوں نے غیر معمولی اہم کردار ادا کیا۔ سراج حقانی کے چار بھائی اس جنگ میں شہید ہوئے۔
انہیں وزیر داخلہ جیسی طاقتور سیٹ ملنا ان کی قربانیوں اور جدوجہد کا ثمر ہے۔ سراج حقانی کے چچا خلیل حقانی کو بھی وزیر بنایا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مشرقی صوبوں پکتیا، پکتیکا، لوگر، خوست ،ننگرہار، کنڑ وغیرہ میں گورنر بھی سراج حقانی کی مرضی کے لگائے جائیں گے۔معروف بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنے طویل آرٹیکل میں سراج حقانی کو اچھا شیئر ملنے پر سخت پریشانی اور فرسٹریشن ظاہر کی ہے۔ ملا برادر کو نائب وزیراعظم بنایا گیا ہے۔ ایک لحاظ سے ان کے سائز کو کچھ کم کیا گیا۔پہلے ملا برادرہی افغان وزیراعظم سمجھے جا رہے تھے۔ ان پرمگر ملا حسن اخوند کو ترجیح دی گئی۔
ملا برادر کے ساتھ ایک اور نائب وزیراعظم بھی بنایا گیا، ایک لحاظ سے یہ اس عہدے کی قوت میں مزید کمی کا اشارہ ہے۔ یہ منصب ملا عبدالسلام حنفی کو ملا ہے جو کہ نسلا ً ازبک اور طالبان تحریک کے پرانے ساتھی ہیں۔ ان کا تعلق شمال کے صوبے جوزجان سے ہے، ازبک وارلارڈ رشید دوستم بھی اسی صوبے سے تعلق رکھتا ہے۔دوحا مذاکرات کی سربراہی بھی ایک مرحلے پر ملا برادر سے لے کر ملا عبدالحکیم حقانی کو دی گئی تھی ۔ ملا عبدالحکیم حقانی کو اب وزارت قانون دی گئی ہے۔
وزارت خارجہ کے لئے شیر عباس ستانک زئی کو کنفرم امیدوار سمجھا جا رہا تھا۔ وہ اچھی انگریزی بول لیتے ہیں اور عالمی سطح پر اچھا خاصا ایکسپوژر رکھتے ہیں۔ انہیں بھی توقع سے کم عہدہ ملا۔وزارت خارجہ کی ذمہ داری ملا امیر محمد متقی کو دی گئی ۔ افواہ نما خبر کے مطابق ستانک زئی صاحب کے زلمے خلیل زاد کے ساتھ ذاتی مراسم اور ماضی میں بھارتی ملٹری اکیڈمی میں تعلیم آڑے آئی۔
امیر متقی صاحب نرم خو آدمی ہیں، طالبان تحریک کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ہیں، ملا عمر کی حکومت میں وہ وزیر اطلاعات رہے تھے۔ مذاکراتی کمیٹی میں بھی یہ رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں وہ ہزارہ شیعہ رہنمائوں کو قائل کر رہے تھے کہ طالبان کے نظریات داعش جیسے تکفیری نہیں اور طالبان حکومت میں اہل تشیع کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ دیگر اہم وزارتوں میں ملا خیر اللہ خیر خواہ کو اطلاعات کا وزیر بنایا گیا۔
یہ بھی پرانے طالبان رہنماہیں اور انہوں نے کئی سال تک گوانتاناموبے میں جیل کاٹی، سابق طالبان دور میں یہ وزیر داخلہ بھی رہے ۔ ملا ہدایت اللہ بدری کو وزارت خزانہ دی گئی ۔ ان کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ سابق طالبان دور میں زکواتہ جمع کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے ۔ طالبان کی نئی حکومت میں دو اہم چیزیں نظر آئیں۔ پرانے، تجربہ کار اور قربانیاں دینے والوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ محاذ جنگ میں وقت گزارنے اور گوانتا ناموبے میں قید وبند کی سختیاں سہنے والوں کو افغانستان سے باہر وقت گزارنے والوں پر فوقیت دی گئی۔ طالبان کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔
آگے آگے وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر طویل جدوجہد کی تھی۔ یہ ایک مثبت فیکٹر ہے۔ طالبان نے سردست دنیا کو مطمئن کرنے کے بجائے اپنی تنظیم، جنگجوئوں اور کمانڈروں کو خوش اور مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author