شمائلہ حسین
ایم اے اردو کی سٹوڈنٹ کے طور پر ایک نیا سفر شرو ع کر تو لیا لیکن آگے ہو گا کیا یہ میں بھی نہیں جانتی تھی۔
ہاسٹل میں اینٹری بھی ہوگئی اب اپنی سینئرز کے نخرے سہنے کا وقت بھی آن پہنچا۔ جس کمرے میں ہاسٹل کلرک ہمیں بھیجتی وہاں سے ہم لوگ نہایت درشتی بھری دھتکار سمیٹ کر لوٹ آتے۔ یہاں ہم سے مراد میری دوست انیل کومل اور میں ہوں۔
انیل کومل کالج کے چار سال میں میری بہترین سہیلی بن چکی تھی ۔ چونکہ اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے اس کا تعلق تھا تو اسے کم ازکم معاشی مسائل کا سامنا نہ تھا، ویسے بھی قد کاٹھ اور جثے میں وہ مجھ سے تقریباً دو گنی تھی۔ آخر اسے ہاسٹل میں رہنے کا گر سمجھ میں آیا کہ یہاں دھونس اور جھگڑے کے بغیر کچھ نہیں ملنے والا لہٰذا اس نے ایک روم میں جا کر باقاعدہ قبضہ گروپ کی طرح جگہ گھیری اور میری الاٹمنٹ بھی وہاں کروا لی۔ ہم سے پہلے جو لڑکی وہاں تھی اس کی ڈگری مکمل ہوگئی تھی اور وہ جلد ہی وہاں سے جانے والی تھی۔
عائشہ ہال کا کمرہ نمبر 95 آج تک ہماری یادوں سے محو نہیں ہوپایا۔ یہ کمرہ بڑی آئیڈیل جگہ پر تھا۔ کرش ہال یعنی ہاسٹل میں داخل ہوتے لابی میں سیڑھیوں سے اوپر جا کر الٹے ہاتھ پر دو ونگز کے عین درمیان ، کمرے کے سامنے کوریڈور جو متوازی ونگز کو جوڑنے کا کام بھی کرتا تھا اور ساری رات لڑکیوں کے گرِل کے ساتھ لٹک کر یا ٹیک لگا کر باتیں کرنے کی جگہ بھی فراہم کرتا، چونکہ ہر طرف سے مرکز بنتا تھا تو پانی کا الیکٹرک کولر بھی اسی چوک میں نصب تھا اور ٹیلی فون بوتھ بھی۔
اس کی کھڑکی سے ہاسٹل کا گیٹ اور سامنے کا روڈ بھی واضح دکھائی دیتا۔ اب ہوا یہ کہ ہم بلا کی شریر سہیلیاں ایک ہی جگہ اکٹھی ہوگئیں تیسری ہم میں آن ملی رابعہ بصری جو ضرورت سے زیادہ سادہ مزاج رکھتی تھی لیکن ہماری شرارتوں میں ہمارا ساتھ ضرور دیتی تھی۔
بہر حال ہاسٹل میرے لیے گھر سے زیادہ آرام دہ جگہ بن گئی۔ اللہ بھلا کرے اس وقت کی یونیورسٹی انتظامیہ کا کہ میس سرکاری تھا یعنی یونیورسٹی اس کھانے پر سبسڈی دیتی تھی۔ کھانا دو وقت کا بنتا دوپہر اور رات کا، طالبات کھانا لیتیں اور ایک رجسٹر پر اپنے نام اور کمرہ نمبر کے سامنے اپنے سائن کر دیتیں۔ ہر ماہ کے آخر میں ہمیں میس کا بل تھما دیا جاتا ۔ مگر ایک مسئلہ بہرحال موجود تھا کہ ناشتے کا انتظام خود کرنا پڑتا۔
اب گھروں سے خالص دیہاتی کلچر کے رسیا ہم لوگ جنہیں روز دہی پراٹھے سے ناشتے کی عادت تھی وہ ڈربوں جیسے کمروں میں تین یا چار روم میٹس کی موجودگی میں آٹے کے کنستر، گھی کے ڈبے اور دہی کی کنالیاں کہاں رکھتیں؟ یوں بھی یہ سارے کام تو امی ہی کرتی تھیں سو دوسری لڑکیوں کی دیکھا دیکھی بریڈ جیم اور ٹی بیگز والی چائے کا انتظام کرنا پڑا۔
ہوتا کچھ یوں کہ دو جیم لگی بریڈ اور پاؤڈر والی چائے کا ایک کپ پی کر ڈیپارٹمنٹ جاتے اورپہلی کلاس کے بعد ہی پراٹھے اور دہی کی بھوک ایسی جاگتی کہ انتڑیاں قل ھواللہ چھوڑ سب کچھ پڑھنے لگ جاتیں۔ دو کلاسز کے بعد کینٹین کی طرف دوڑ لگاتے لیکن وہاں بھی سینڈوچ اور چکن کی ہڈیوں والے چاولوں کے ملغوبے سے واسطہ پڑتا جسے بریانی کا نام دیا جاتا۔ اس طرح تھوڑے بہت روپے جو بنیادی خرچوں کے علاوہ پس انداز کر رکھے تھے وہ پہلے ہفتے میں ہی گل ہو گئے۔
پریشانی سوا ہوگئی اور حالت پتلی، گھروالوں سے روپوں کا مطالبہ کرتی تو ا بو جی کہتے کہ دیکھا میں نے کہا تھا نہیں کر پائے گی، مس شائستہ سے کہتی تو بھی شرم آڑے آتی کہ اتنا کچھ تو انہوں نے کر دیا اب کیا ان کی جان کو جونک بن کر چپک جاؤں؟ نئے اساتذہ مجھے نہیں جانتےتھے اور میں انہیں نہیں جانتی تھی۔
اب ہر وقت ہاتھ میں کشکول پکڑے رہوں کیا؟عزت نفس کہتی کہ بھوک کاٹ لو کسی کو اندر کا حال مت بتاؤ، اور بھوک کہتی کہ عزت نفس گئی تیل لینے کسی سے ذکر کرو گی تو مسئلے کا حل نکلے گا۔ ایسے میں انیل کومل نے میرے بغیر کہے آتے جاتے میرے لیے ناشتے کا سامان اور دیگر ضروری چیزیں لا کر رکھنی شروع کر دیں۔ میں سمجھ رہی تھی لیکن شکریہ کہتی تو وہ اپنا بھاری بھرکم ہاتھ ایسا میرے منہ پر جڑتی کہ ٹوٹا ہوا منہ چھپانا محال ہوجاتا۔
میں نے کوشش شروع کردی کہ کوئی کام ایسا جو میں کرسکوں اور کم از کم اپنے لیے اتنا کما لوں کہ خرچہ اٹھاؤں، لیکن نیا شہر نئے لوگ پھر شہر سے بہت دور یونیورسٹی، ہاسٹل کے کھلنے بند ہونے کے اوقات، سب باتیں ایسی تھیں جو کسی طور معاملات کو بہتر نہیں ہونے دے رہی تھیں۔
اس دوران کلاس میں نئی سہیلیاں بنیں، پہلی سہیلی فریحہ اسلم اور دوسری رابعہ سنجرانی۔ فریحہ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہتی تھی اور رابعہ اسی شہر کی رہائشی تھی۔
پہلا سمسٹر ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ دن میں ایک بار کھانا کھانے اور باقی وقت کی بچت کے چکر میں مجھے بیماری نے آن لیا۔ میرا معدہ شروع سے حساس تھا یہاں کے فاقوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے میری حالت بہت خراب ہوگئی۔ ایسے ہی ایک روز رابعہ نے میری حالت دیکھی تو مجھے اپنے ساتھ گھر جانے کی آفر کی۔ میں نے جھجھکتے ہوئے اس پیشکش کو قبول کر لیا کہ مجھے بہر حال دوا اور دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔
رابعہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ اس کے اماں ابا بہت ہی سادہ اور اچھے لوگ تھے مجھے انہوں نے اپنی بیٹی کی دوست ہونے کے ناطے اتنی محبت اور مان دیا کہ میں سرتاپا ان کی محبتوں کی قرض دار ہوگئی۔
اس کی بھابھیوں نے بھی مجھے بہنوں جیسا پیار دیا اور ایسی دوستی کے رشتے میں بندھے ہم سب کہ ملتان میں میرا تقریباً مستقل ٹھکانہ رابعہ کا گھر بن گیا۔ میں اور رابعہ سگی بہنوں کی طرح ہی آپس میں لڑتے جھگڑتے ایک دوسرے پر پورا مان رکھتے دوسری طرف فریحہ اسلم نے میری اماں کی جگہ لے لی اور یونیورسٹی کے آداب سکھانے کا حق ادا کیا۔ وہ ہم سے سینئر تھی کیونکہ اس نے ایم اے اردو سے پہلے اسی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کررکھا تھا اور اتفاق سے فریحہ بھی اپنے چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ ایک اور سہیلی ہم میں آن ملی اس کانام زنیر ظفر تھا اور عجیب اتفاق کہ وہ بھی اکیلی بہن تھی۔ اب یوں سمجھیں کہ اتنی اکلوتیوں کی سہیلی ہونا ایسا ہی تھا جیسے میں ہر سہیلی کی ایک اور بہن ہوں۔
ان تینوں نے میرا بہت خیال رکھا خصوصاً رابعہ نے مجھے میری تکلیف کے دنوں میں جس طرح سنبھالا میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ ہفتے کے تین دن میں اس کے گھر ہوتی اور تین دن اپنے ہاسٹل میں ہوتی۔ اس کے کپڑے، جیولری، نوٹس کھانا پینا ، اس کے بہن بھائی بھتیجے بھتیجیاں سب پر میرا برابر حق ہوتا اور وہ سب لوگ ایسا بڑا دل رکھتے تھے کہ بھابھیوں سے آدھی رات میں پراٹھے کی فرمائش کرتی تو وہ کبھی انکار نہ کرتیں، انکل کی ہاتھ کی چائے کے لیے ایک سے دوسری بار انہیں کہنا نہ پڑتا ۔ اسی طرح میری پہلی جاب جو ملتان میں مجھے ملی وہ رابعہ کے بھائی کا کسی این جی او کے ساتھ چھوٹا سا پراجیکٹ تھا اس میں میں نے ان کی مدد کی تو غالباً تین چار ہزار تک کی رقم مجھے ملی۔
یہاں سے میرا اعتماد اور بھی بڑھا کہ میں کام کر سکتی ہوں۔ ایسے ہی ہنستے کھیلتے پہلا سمسٹر گزر بھی گیا اور دوسرے سمسٹر میں ایڈمیشن کا وقت آگیا۔
ایک بار پھر فیس کا انتظام نہیں ہو پا رہا تھا۔ میری سب سہیلیاں خود بھی سٹوڈنٹ تھیں اتنا تو ان کے پاس بھی نہ تھا کہ فیس کا انتظام ہو پاتا۔ اب گھر والوں کے سامنے فریاد کی تو جواب وہی ملا جس کی امید تھی۔ بہنوں نے اپنی اپنی جمع پونجی میرے سامنے رکھ دی جو کل ملا کر ایک ہزار روپے بھی پورے نہیں بن رہے تھے۔ اوپر سے بیماری نے ناک پہ دم کر رکھا تھا، علاج ضروری تھا اور داخلہ بھی۔
گھر سے واپس یونیورسٹی پہنچی اور فیصلہ کر لیا کہ اب سلسلہ یہاں ختم کرنا پڑے گا کہ جان پر بن آئی ہے۔ یہاں بغیر روپو ں کے رہی تو کسی دن ویسے ہی بیماری کے ہاتھوں گھل گھل کے ختم ہوجاؤں گی اور تعلیم کا سلسلہ نہیں ہوتا تو یہاں رہنا بھی چہ معنی دارد۔
بہت سوچا اور آخر چپ چاپ اپنا سامان پیک کیا، بستر باندھا اور اگلے روز ڈیپارٹمنٹ گئی سب دوستوں سے ملی اور ملتے وقت کسی سے یہ ذکر نہ کیا کہ آج میرا یونیورسٹی میں آخری دن ہے۔ اپنی ہار اپنے ہاتھوں کسے قبول کرتی میں، کسی کو بتاتی تو لوگ ترس کھاتے، لیکن کوئی کیا کر پاتا کچھ بھی نہیں۔ لیکن رابعہ کو بتانا ضروری تھا کہ وہ مجھ سے کچھ بھی اگلوالینے کی مہارت رکھتی تھی۔ اس نے سنا اور پریشان ہوگئی مجھے دو ایک دن رک جانے کا کہا اور میں نے اس سے جھوٹا وعدہ کر لیا کیونکہ میں نے آخری فیصلہ کر لیا تھا۔ پہلے ہی سیمسٹر میں اتفاق کہیے کہ آئی آر کے شعبے کے کچھ لوگوں سے بھی ہماری بہت اچھی علیک سلیک ہوگئی تھی بلکہ اسے دوستی کہیں تو مناسب رہے گا۔ میں نے رابعہ سے کہا کہ ان لوگوں سے بھی مل لیتے ہیں پھر پتہ نہیں میں کب واپس آؤں یا شاید کبھی نہ آؤں۔ لہٰذا ہم ان سے ملنے گئے گپ شپ کرتے رہے اور ان میں سے ایک دوست کے سامنے رابعہ نے ذکر کر دیا کہ شمائلہ اپنا ایم اے ادھورا چھوڑ کر جا رہی ہے۔ اس کا چونکنا بھی فطری تھا تفصیل پوچھنے پر میں نے مختصراً کوئی بات اسے بتائی اور کوئی بہانہ بنا کر اٹھ آئی۔
اس دن رابعہ اپنے گھر چلی گئی اور میں ہاسٹل آگئی۔ شام ساری سو کر گزاری اور رات گزارنے کے لیے رونے کا سہارا لیا۔ میرے لیے زندگی ختم ہو رہی تھی کہیں کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک بار پھر خدا کے حضور گڑگڑائی، خوب جھگڑا کیا، جتنے گلے شکوے ہوسکتے تھے کیے لیکن خدا بول کے کب جواب دیتا ہے؟ رات کے تیسرے پہر اپنے کمرے میں آئی تو دونوں روم میٹس سو رہی تھیں۔ انہیں سوتا دیکھ کر مجھے یکا یک موت کا خیال آیا اور مجھے لگا خودکشی بھی تو کی جا سکتی ہے۔ مجھے معلوم تھا میری ایک روم میٹ نیند کی گولیاں استعمال کرتی ہے اور رکھتی کہاں ہے وہ بھی ہم جانتے تھے۔
بس پھر اس مسئلے کا حل مجھے ان گولیوں میں دکھائی دیا اور میں نے چار ہوں گی یا پانچ گولیاں وہ اٹھائیں اور ایک ایک کر کے پانی سے نگل لیں۔ مجھے اب یقین تھا کہ میں مر جاؤں گی کیونکہ فلموں ڈراموں میں تو نیند کی گولیاں کھانے سے لوگ مر جاتے ہیں۔ مجھے رونا آتا رہا اٹھ کے کمرے سے باہر چلی گئی اور کاریڈور میں بیٹھ کے مرنے کا انتظار کر تی رہی۔ لیکن تین سے چار گھنٹے گزر گئے صبح ہو گئی اور میں مری بھی نہیں۔ رو رو کے اس قدر ہلکان ہو چکی تھی کہ چکر آنے لگے آخر اپنے کمرے میں آئی تو روم میٹس کو کیمپس جانے کی تیاری کرتے پایا۔
انہوں نے میری شکل دیکھی انہیں لگا بیمار ہوں تو اس لیے ایسی اتری ہوئی شکل بنا رکھی ہے۔ دونوں نے مجھے کلاس بنک کرکے آرام کا مشورہ دیا اور چلی گئیں۔ لیکن میں تو مر رہی تھی کیونکہ مجھے پورا یقین تھا نیند کی گولیاں اپنا اثر ضرور دکھائیں گی۔ وہ چلی گئیں تو میں لیٹ کے ایک بار پھر موت کو یاد کرنے لگ گئی، اللہ میاں سے معافیاں بھی ساتھ ساتھ مانگتی جا تی، آخرکار مجھے نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اپنی دانست میں میں نے یونیورسٹی چھوڑنے کے ساتھ ساتھ یہ دنیا بھی چھوڑ دی تھی۔ میں نے حالات سے ہارنے کی بجائے موت کو گلے لگانا افضل سمجھا لیکن دو بجے کے قریب رابعہ کی آواز نے مجھے حیران کر دیا۔
یعنی مجھے موت نہیں آئی تھی یا واقعی مرنے کے بعد مجھے لوگوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اور صرف آوازیں ہی نہیں مجھے تو رابعہ خود بھی دکھائی دے رہی تھی ، شدید حیرت میں مبتلا ہو کر میں نے آنکھیں پوری طرح کھول دیں تو معلوم ہوا کہ میں مری ہی نہیں ہوں، نہ صرف زندہ تھی بلکہ صحیح سلامت بھی تھی بس سر میں درد تھا شدید اور آنکھیں ابھی تک سوجی ہوئی تھیں جبکہ رابعہ مجھے ڈانٹ رہی تھی کہ حالت دیکھو کیا بنا رکھی ہے۔
اس نے مجھے اپنے ساتھ کیمپس چلنے کو کہا ۔۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ