ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنے اعمال و اطوار کو اپنی نظر سے دیکھوں یا اوروں کی نظر میں۔ اور بھی تو مختلف طرح کے ہوتے ہیں جیسے پیار کرنے والے، دوست، مداح، ناقد۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں پیار کا دعوٰی ہوتا ہے اور بعض اوقات بلند بانگ نوع کا مگر تعلق کے کچھ عرصے بعد جب ضرورتیں اور اختلافات ٹکرانے لگتے ہیں تب محبت کی قلعی اگر یک دم نہیں تو بتدریج اترنے لگتی ہے، پھر آپ ان کی نظر میں وہ نہیں رہتے جو وہ سمجھتے تھے اور آپ بھی یہی سمجھتے تھے کہ وہ آپ سے پیار کرتے ہیں اور آپ جیسے ہیں، انہیں ویسے ہی قبول ہیں۔
آپ پر بھی وہ بعد میں کھلتے ہیں اور جیسے آپ کو وہ لگتے تھے، وہ ویسے نہیں تھے۔ ایک جانب تو آپ انہیں اور طرح کے، ظاہر ہے اچھے تو ہرگز نہیں، مگر کچھ برے یا بہت برے لگنے لگتے ہیں دوسری طرف ان کا گلہ ہوتا ہے کہ آپ ان کے ساتھ جیسے ہوا کرتے تھے، اب ان کے ساتھ ویسے نہیں رہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے ، یہ قبیل بیویوں کی ہوتی ہے اور محبوبہ سے بیویوں میں ڈھلی عورتوں کے سامنے تو آپ کا زیر جامہ تک اترا ہوتا ہے، وہ آپ کی کھال اتار کے لوگوں کے سامنے یا کم از کم آپ کے سامنے رکھ سکتی ہیں اور نچے ہوئے آپ اپنے آپ کو بھلے تھوڑا نہ لگیں گے۔
پھر آپ کو ان کی نگاہ اور بڑی حد تک ان کے مبینہ پیار پہ شک ہونے لگتا ہے۔ دوست آپ کے وہ نقص بھی دیکھتے ہیں جو آپ کو اپنے نقص نہیں لگتے، وہ انہیں آشکار تو کر سکتے ہیں، آپ کے سامنے یا دوسرے دوستوں کے سامنے مگر بیشتر اوقات آپ کی نہ تو تحقیر کرتے ہیں نہ ہی آپ سے ترک تعلق کا سوچتے ہیں۔ اچھے دوست ہوں تو اگر آپ سے عارضی ترک تعلق کر بھی لیں تو بھی کسی نہ کسی وقت آپ سے پھر آ جڑتے ہیں۔ پیار کرنے والا ہو، چاہے بیوی ہی کیوں نہ ہو، آپ سے یکسر جدا ہو بھی جائے، تب بھی کبھی نہ کبھی احساس ہونے پر آپ کے نقائص کو نظرانداز کرنے کی روش اپنا سکتا ہے۔ مداح تو آپ کے اعمال سے زیادہ آپ کے افعال سے متعلق ہوتے ہیں جیسے آپ کے لکھنے، بولنے، گانے وغیرہ سے تو ان کی آپ سے متعلق پسندیدگی اگر آپ کا فن جوان رہے تو شاید ہی ماند پڑ سکتی ہو۔ رہے ناقد تو ان کی تو بات ہی کیا کرنی، وہ تو آپ میں جو اچھا ہے، اس کی تنقیص کا بھی جواز ڈھونڈ نکالیں گے۔
چلیے میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو اپنی نگاہ سے دیکھوں اور اس کا جواز بھی پیش نہ کروں، شروع میں بتاتا چلوں اگر میں کہوں کہ میں لاڈ پیار سے بگڑا ہوا بچہ ہوں تو یہ جواز نہیں حقیقت ہوگا اور ایسا ہی ہے۔ مجھے میری ماں کی مجھ سے لگن اور گھر میں موجود تین بہنوں کی محبت نے ہر وہ عام کام، جو کم و بیش سب کر سکتے ہیں، کو کرنے کے حوالے سے عضو معطل بنا دیا تھا، یا اگر آپ کو ناپسند نہ ہو، ہڈ حرام بنا دیا ہے۔ خاص کام تو اپنا چنا ہوا ہوتا ہے جیسے لکھنا، تحقیق کرنا وغیرہ تو میں اس میں طاق ہوں۔
کچھ بھی ایسا ذمہ لے لوں تو جب تک اسے انجام تک نہ پہنچا لوں، مجھے کھانے پینے تک کی فکر نہیں رہتی۔ اس کے برعکس اگر مجھے ان کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی کرنا پڑ جائے جو دوسرے میرے لیے کرتے ہیں تو مجھے وہ کرنا عذاب لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے ہمہ وقت ایک کام کرنے والے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں میرا جی تو ہوں نہیں کہ غلیظ اور بھوکا رہوں اور اپنی ذہنی بالیدگی کو افضل جانوں۔ مجھے اپنی ذہنی بالیدگی کا اس قدر گمان ہے بھی نہیں، جیسے کچھ عرصہ پہلے شائع ہوئی میری خودنوشت لوگوں کو پسند آئی تو مجھے حیرت ہوئی، یقین جانیں اچنبھا ہوا کہ اس میں پسند آنے والی کون سی بات ہے۔
بیباکی اور راست گوئی۔ بیباک کوئی بھی چاہے تو ہو سکتا ہے، سچ بولنا البتہ مشکل ہوتا ہے مگر سچ بھی تو سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے نا۔ مجھے اچھے اور صاف ستھرے، اچھی طرح استری ہوئے کپڑے پہننا پسند ہے مگر میں کپڑے نہیں دھو سکتا۔ اب تو مشین دھو دیتی ہے، مجھے مشین سے نکال کے سکھانے کو ٹانگنا بھی پسند نہیں۔ مجھے اچھا کھانا اچھا لگتا ہے مگر مجھے کھانا پکانا مصیبت لگتا ہے اور اچھا پکانا تو آتا ہی نہیں۔ آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ میں یہ کپڑے دھونے، استری کرنے اور کھانا پکانے کا ذکر کیوں لے بیٹھا وہ اس لیے کہ چالیس برس کی عمر میں بدیس پہنچ کے یہ سب کرنے پڑے۔ ایسا بھی نہیں کہ میں بالکل ہی بیکار شخص ہوں۔ ایک طویل عرصہ بیگم مئی سے ستمبر کے وسط تک اپنے دیہاتی گھر میں جا کے رہتی تھی تو میں سودا سلف بھی لے آتا تھا، کھانا بھی پکا لیتا تھا، مشین سے دھلے کپڑے نکال کے الگنی پر سوکھنے بھی دھر لیتا تھا اور کھانا بھی جیسا کیسا بنا لیتا تھا۔
اچھا کھانے کا شوقین تو ہوں مگر جیسے اچھی کتاب پڑھتے پڑھتے کہیں بھی اکتا جاوؑں تو فقرہ مکمل کیے بغیر ٹھپ دیتا ہوں اسی طرح کھانا کھاتے کھاتے بھی اکتا جاوؑں تو پلیٹ صاف نہیں کروں گا۔ روٹی سے بھی چند برکیاں رہنے ہی دوں گا۔ یہ عادت کچھ دیکھنے والوں کو چبھتی ہے تو میری بلا سے۔
ویسے میں میری بلا سے کہنے کا عادی نہیں ہوں اور نہ کہنا چاہتا ہوں مگر مجھے اگر سماج کی عائد کردہ اخلاقیات، فرائض وغیرہ وغیرہ کا احساس دلایا جائے تو مجھ سے زیادہ ان سے اغماض برتنے والا شاید ہی کوئی ہو لیکن میں اپنے طور پر ان سے اغماض برتنے کا قائل نہیں ہوں۔ حفظ مراتب کا بے حد خیال کرتا ہوں، فرائض اتنے ہی نبھاؤں گا جتنے نبھا سکتا ہوں۔ بیوی بچوں کی ضروریات، کیونکہ ماں باپ، بہن بھائیوں کی ضروریات پوری کرنے کا معاملہ سامنے اس لیے نہیں آیا کہ آمدنی محدود رہی، اس حد تک ہی پوری کر پایا اور پاتا ہوں جتنے میرے وسائل رہے یا جو بچے کھچے موجود ہیں۔
میں اخلاقیات کے انسانی اصولوں جیسے چوری نہ کرو، بدعنوانی سے بچو، جھوٹ نہ بول، کسی کا حق مت کھاوؑ جیسے بنیادی اوصاف کو بے حد سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہوں، اس لیے تجاوز کر کے بیوی بچوں کی خاطر آمدنی میں اضافہ کرنے سے باز رہا ہوں۔ یوں میں وابستہ لوگوں کی نظر میں نہ اچھا شوہر ہوں اور نہ اچھا باپ۔ مجھے اس سے اختلاف ہے۔ اچھا شوہر اچھی بیوی کا ہی ہوا جا سکتا ہے۔ اچھی بیوی کیا ہوتی ہے وہ سب جانتے ہیں، اچھا شوہر وہ ہوتا ہے جو اس کی تمام ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ حسن سلوک سے بھی پیش آئے، جب ضروریات جو عموماً میرے معلوم وسائل سے زیادہ کی ہوں گی تو بیوی اچھی رہ نہیں سکتی یوں جناب میری طرف سے یک طرفہ حسن سلوک برتنے کا تقاضا بھی نامناسب ہوگا۔
میں بیٹا اور بھائی بھی انہیں دنیاوی وجوہ کے سبب اچھا نہیں رہ پایا کیونکہ آپ اچھے تب ہوتے ہیں جب آپ ان کی مادی ضروریات بڑھ چڑھ کے پوری کریں مگر ایسا نہ کرنے کے باوجود بہن بھائیوں کو مجھ سے جو پیار ہے وہ اسے ترک کرنے سے رہے۔ میں جتنا کر سکا میں نے ضرور مدد کی، مگر بڑھ کے اگر میں بیوی بچوں کی اعانت نہیں کر سکا تو بہن بھائیوں کی کیسے کر سکتا ہوں۔
البتہ میں دوست اچھا ہوں، ایک طرح سے اتنا اچھا بھی نہیں ہوں۔ جیسے اگر مجھے کوئی دوست پکڑنے کو اپنا پہنچہ دے تو میں اس کی کلائی کو دو ہاتھوں سے مضبوطی سے تھام لیتا ہوں۔ اس کی محبت، تعلق، مدد اور تعاون کو میں اس کا فرض تو خیال نہیں کروں گا لیکن اپنا حق ضرور سمجھنے لگ جاتا ہوں۔ البتہ اگر کوئی دوست محض محبت سے کام چلانا چاہے تو اسے بھی بدلے میں محبت دینے سے گریز نہیں کرتا۔ اگر کوئی محبت، مدد، تعاون سب کسی بھی لمحے آ کے چھوڑ دے تب بھی اس سے تعلق اسی شد و مد کے ساتھ برقرار رکھتا ہوں۔
میں دوست کے نقائص پر نگاہ نہیں رکھتا البتہ اسے باور کرا دیتا ہوں، بار بار یاد دلاتا ہوں، جیسے یہ کہ یار جھوٹ مت بولا کرو، یار غیبت سے احتراز کرو وغیرہ مگر ان منفی اوصاف کی بنا پر اس سے ترک تعلق چاہے عارضی طور پر ہی، نہیں کرتا۔ ہاں البتہ جس طرح میں خود حفظ مراتب کا قائل ہوں، اگر کوئی دوست کم عمر ہو یا ہم عمر یا عمر میں زیادہ بے تکلفی میں حد سے گزر جائے تو میں رنجیدہ ہو کے اس سے ترک تعلق کر لیتا ہوں مگر اس کو بھلاتا نہیں ہوں جیسے میں حسن نثار سے 1981 سے نہیں بولا، اس کی یاوہ گوئی سے بھی شناسا ہوں، یہ بھی میں نے ہی اسے کہا تھا کہ وہ لفظوں کی جگالی کرتا ہے مگر میں اس کا کالم دیکھتا ضرور ہوں چاہے اچٹتی نگاہ سے سہی۔ جب پاکستان میں اس کی چھوٹی بہن غزالہ سے ملتا ہوں تو حسن کا حال پوچھنا نہیں بھولتا۔
میں روسیوں کی طرح اگر کوئی کچھ دیتا ہے تو لے لو اور اگر کوئی پیٹنا چاہے تو بھاگ جاوؑ کے انداز میں دوستوں کی دی چیز یا مالی مدد سے رسمی طور پر انکار ضرور کرتا ہوں مگر لے لیتا ہوں۔ کسی کے ہاں کوئی چیز لے جانا جیسے مٹھائی، کپڑے وغیرہ مجھے کبھی نہیں آیا اور نہ ہی ایسا کرتے ہوئے کوئی بھایا، لے آیا تو انکار نہیں کیا مگر خود کبھی کچھ لے کے نہیں گیا، اسی لیے میری ایک تایا زاد نے کہہ ہی دیا تھا کہ ہاتھ لٹکا کے آ جاتا ہے مگر میں نے بڑی بہن کے اس کہے کا برا نہیں منایا تھا، بتا دیا تھا کہ میں ایسا ہوں یعنی کچھ اور طرح کا۔
بچوں کے لیے کھلونا یا کھانے پینے کی کوئی شے شاید ہی میں لے کے آیا ہوں گا، یہ فریضہ نبھانا ماں کے ذمہ ہے۔ باوجود اس کے بچوں نے ہمیشہ ہی مجھ سے پیار کیا۔ میں نے انہیں بتا کے کہ میں تمہارے لیے کچھ نہیں لاتا پھر میں تمہیں کیوں پسند ہوں پوچھا بھی تو بچوں نے کہا اس لیے کہ آپ اچھے ہیں یا کہہ دیا اس لیے کیونکہ آپ مزاحیہ ہیں، وجہ یہ کہ میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بچہ بن جاتا ہوں۔ مائیں بچوں کے ساتھ کم ہی کھیلا کرتی ہیں۔
مجھے بچے اچھے لگتے ہیں مگر ایک آدھ گھنٹہ کے لیے ان کی ہو ہاوؑ پسند کر سکتا ہوں پھر مجھے ان کا شور اور ہنگامہ آرائی بالکل نہیں بھاتا۔ تاحتٰی بچپن میں بھی نہیں بھاتا تھا۔ لاہور میں ماموں کی کوٹھی میں بہت سے بچے کھیلتے تھے، بھاگتے تھے، شور کرتے تھے مگر میں ان کی ان حرکتوں میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہوتا تھا۔ اب بھی میں ایک عرصہ سے تنہائی میں رہنا پسند کرتا رہا ہوں۔
بہت ضروری ہو تو میں کہیں جا سکتا ہوں ویسے میں گھر میں بندھے جانور ایسا ہوں۔ میں اگر محبوبہ سے ملنے یا دوسری بیوی کی طرف بھی جاتا تھا تب بھی رات کے کسی بھی پہر گھر لوٹ کے آنے کو ترجیح دیتا تھا۔
ہر مرد کی طرح مجھے جنسی تنوع پسند رہا۔ المیہ یہ کہ میں جس کے ساتھ ملوث ہوا اخلاقی طور پر اس کے ساتھ انسانی تعلق محسوس کرنے لگا۔ محض تعیش کی خاطر میں کسی انسان کو پامال یا مالامال نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے پے در پے ان کی بات مان کر انہیں بیویاں بنانا پڑا۔ محبوبہ کے ساتھ وقت بتانا اور بات ہے اور بیوی کی مسلسل لن ترانی سننا اور شکوے سہنا دوسری بات۔ بچے ہو جائیں اور ضروریات بھی پوری کرنے کے آپ لائق نہ ہوں تو یہ تیسری بات۔ اس لیے ہر بیاہ کر کے میں پریشاں بھی ہوا اور پشیماں بھی۔ میں نے اپنے طور پر کسی کو نہیں چھوڑا اگرچہ ان کی بدمزاجی سے کئی بار ایسا کرنے کو جی چاہا بھی۔ اگر انہوں نے چھوڑنے کا تقاضا کیا تو جتنا بن پڑا روکا۔ باگ ہاتھ سے چھوٹ گئی تو بھی دکھی رہا شکر ادا نہیں کیا۔
قصہ مختصر اپنے تو اوصاف بھی کچھ کو نقص لگتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر