واقعہ تو 14 برس پرانا ہے مگر لگتا ہے کل کی بات ہے جب ایک آ مر نے اپنی کلف لگی وردی ، بغل میں دبی لاٹھی اور چمک ما رتے جوتوں کی اکڑ میں آ کر ایک “چودھری” صاحب کوانکی نوکری سےفا رغ کرنے کی (ناکام ) کوشش کی تھی. ایسا کرتےوہ یہ بھول گیۓ کہ انکا شکارکوئی بھٹو،جونیجو ،جمالی ،لغاری حتی کہ کو ئی شریف بھی نہیں بلکہ ایک ” چودھری ” ہے جس میں سے بلوچستان جیسے ریاست کے نشانے پر رہنے والے صوبے کا ڈومیسائل بھی”چودھرا ہٹ” نہ نکال سکا توقصۂ مختصرجب چوہدری صاحب اورجنرل صاحب کے درمیان میچ پڑا ہوا تھا اسی دوران ہمارے بہت ہی قا بل احترام بیرسٹر صاحب جو خود بھی چودھری ہی ہوتے ہوۓ اور ہماری خوشنصیبی سے بین القوامی دانشور کا امتیاز بھی حاصل کر چکے ہیں انہوں نے ایک طویل اوردلوں کو گرما دینےوالی نظم لکھی تھی جس کا ایک شعرتوہمیں جالب اور فیض کے کلام پربھی بھاری لگا اوروہ تھا” ریاست ہوگی ماں کےجیسی” سوچا تھا چلو کسی نے تو سمجھا،جانا اورپھراتنی ہمت بھی کرلی کہ لاکھوں نہیں تو ہزاروں کے مجمعے کی وساطت سے اونچا سننے والے طاقتورحلقوں اورانکےگرد طواف کرنے والے چھوٹے بڑےچمچوں تک یہ بات پہنچا ہی دی کہ ریاست کا کام عوام کوصرف زخم دینا اورپھراسمیں مرچیں بھرنا نہیں بلکہ ریاست کو ماں کی طرح ہونا چا ہیے جواپنے بچے کی طرف بڑھنے والے ظالموں کے ہاتھ پکڑے بھی اورضرورت پڑنے پر توڑ بھی دے مگر کہاں جی ؟ یہاں تو ریاست منہ کان لپیٹ کراپنی ہی کہتی، سنتی اورکر گزرتی ہے اور اگرکبھی ہاتھ ” سیدھے” کرنے ہوں تو اسی یتیم” مار کھانےکی نشانی” بچے پر پل پڑتی ہے
لوگ بھوکوں مرجائیں یا کسی بڑے حادثے کی نظرہوجاییں کوئی آسمانی آ فت نازل ہوجاۓ یا کوئی ہمسایہ حملہ آ ور ہوجاۓ یا پھر کوئی انکا لنگوٹیا یار کہلانے والا انپررات کےاندھیرے میں پیٹھ پیچھے وارکردے مگراس ” سوتیلی ماں ” جیسی ریاست کا حال یہ ہے کہ اپنے تو سب کرتوتوں پر پردے ڈال لے گی مگر ہم میں سے کوئی اگرچھوٹی موٹی بھول چوک کربیٹھے تو اسکا انجام یا دوسری زمین ہے دوسرا جہاں! اسپر بھی بس نہیں اس بیچارے مقتول کا جنازہ پڑھنے کی صرف چارمزارعوں کو اجازت ملتی ہے یا پھراسکی بھی کیا ضرورت ہے بس ڈبوں میں بند کرو ، تا لے لگا ؤ اور حکم دے دو کہ آپکا ہر دلعزیز بزرگ جو ہمیں ناپسند تھا اس ڈبے میں بند ہے” ماننا ہے تو ما نو ورنہ ہم نے تو اپنا کام کر دیا ہے” اس ماں نے تو اپنی زیادتیوں میں تمام ان سوتیلی ماؤں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جنکا ذکر ہم بچپن کی کہانیوں میں سنتے اورپڑھتے تھے اس وقت بھی سوتیلی ماں کے یتیم بچوں پر مظالم کی داستانیں رات بھرسونے نہ دیتں تھیں آ ج بھی معا ملہ وہیں کا وہیں ہے بلکہ رات کی نیند تو اڑتی ہی ہے دن کا سکون بھی اس سوتیلی ماں نے غارت کر دیا ہے
آپ اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو آپ کو ایسا لگے گا کہ آپ ایک جنگل میں ہیں جہاں نہ کسی کی جان محفوظ ہے اور نہ عزت ! کوئی اپنے کام پر جاتے ہوئے مارا جارہا ہے تو کوئی اپنی بچوں کے لیے شاپنگ کرتے ہوۓ کسی اینٹی ٹیررسٹ فورس کے ہاتھوں گولیوں سے چھلنی ہوجاتا ہے،کوئی خاتون کسی زیادتی کا رونا روتی روتی دنیا سے رخصت ہورہی ہے تو
کوئی بچہ جسکو بیوہ ماں نے دین حاصل کرنے مسجد بھیجا بھنبھوڑی گئی لاش کی صورت واپس آیا اورتو اوردنیا کی تعلیم حاصل والے بھی آج لگتا ہے کہ اپنے تعلیمی اداروں کی طرف نہیں بلکہ مقتل کی طرف رواں دوا ں ہیں
آپ اپنی سیاسی وابستگیوں کو بالاۓ طاق رکھ کردومنٹ کے لیے بھی سوچیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ یہ کس کا قصور ہے؟ کون سے ادارے ہیں جو ماضی سے آج تک کسی
ٹوٹ پھوٹ کا شکار” نہیں ہوۓ یا کم ازکم دعوی یہی کرتے ہیں کہ ہم سا مضبوط کوئی ہو تو دیکھاؤ. کبھی اپنے بارے میں گم نام اداروں سے سروے کرواتے ہیں کہ جی ہم تو دنیا بھر میں “ نمبرون “ ہیں تو کبھی رنگ برنگی پھلجڑیوں سے ہمسایوں کا دل دھلانے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں
کیا ان طاقتور حلقوں کا فرض نہیں تھا کہ وہ اس وطن میں بسنے والوں کی جان ومال،عزت و آبرو کا تحفظ کرتے نہ کہ انکو برباد کرتے؟ کیا یہ کام ان افرد پرچھوڑ دینا چاہیے جن کو نہ اپنے منتخب ہونے پر اختیار ہے اور نہ کسی منصب پر بیٹھ کرانہیں یہ یقین نصیب ہوتا ہے کہ وہ اپنی مدت ملازمت پر قایم رہ سکیں گے. ایک معمولی نوکری کرنے والے کو بھی اگریہ شک پڑجاۓکہ میری سیٹ چھن جاۓ گئی تو اسکا سارا وقت فرایض منصبی ادا کرنے کی بجاۓ اپنی نوکری بچانے ، سفارشیں ڈھونڈنے ، افسروں کی مٹھی چاپی کرنے اور” ساب” کی بیگم کی جھوٹی بلائیں لینے میں گزر جاتا ہے یہاں بھی ہر منتخب حکومت کی یہی صورتحال رہتی ہے اول تو 5 سال نصیب ہونا ہی ایک کما ل ہے مگر جس کو یہ نصیب ہوں وہ بھی ہر دوسرے روز اپنے پاؤں میں لگائی “ ریاستی آگ “ بھجانے میں اپنا وقت اور طاقت برباد کرتا رہتا ہے
حقیقت حال یہ ہے کہ ریاست ایک طویل عرصے سے سوتیلی ماں کی طرح عوام جیسے یتیم ، بے بس اور بیکس بچے پر ظلم توڑتی رہی ہے ، اسکے خلاف سازشیں کرتی رہی ہے ، جب بھی کسی نے اسکو آ ئینہ دیکھا نے کی کوشش کی اس نے ہمیشہ اس آ ئینہ دیکھانے والے کا ایسا عبرتناک حشر کیا کہ آہستہ آہستہ تمام طرف خاموشی پھیلتی چلی گئی مزید ستم یہ توڑا کہ اس خاموشی اور اندھیرے میں مایوسی بھی پھیلا دی. حالات کا نہ بدلنا اور پھر بار بار اس بات کی تکراراپنے گماشتوں کے زریعےکروا نا کہ ” حالت کبھی ٹھیک نہیں ہونگے ، فلاں فلاں چور ہے، بڑامگرمچھ ہے، بڑا ملزم ہے، کرپٹ ہے، ڈاکو ہے، قاتل ہے، یہ توغدار ہے وہ جو “نیا” ہے وہ محب وطن ہے ، وہ ہے جو ہماری کشتی پارلگاۓ گا ،فلاں فلاں ہے جو نجات دھندہ ہے، سب مسائل کا حل یہی نکلے گا ،یہ فرشتہ ہے باقی سب شیطان ” اور پھر یہی راگ کچھ رد و بدل کے ساتھ کسی مزید نئے چہرے کے ساتھ دوبارہ الاپنا اس طرح کہ سننے والا مایوسی کا شکار ہوجاۓ اوراپنے حالا ت کی گہرائی میں جانے کی بجاۓ سطح پر پھیلی گندگی کو کسی ایک شخص کے کھاتے میں ڈال کراپنے آپکو بری الزمہ قرار دے کراس بات سے بے پرواہ ہوجاۓ کہ میں بھی اس معا شرے کا حصہ ہوں کیا میں نے اپنا کام دیانت داری سے کیا ؟ اگرمیں اورمیرے بزرگ ایک جیسے حالات کا شکار رہے ہیں توکون ہے اسکا ذمہ دار؟ وہ جو خود اپنا نظام نہ چلا سکے اورمنوں مٹی تلے بھیج دیۓ گیۓ یا یہ ہماری سوتیلی ماں؟ جو کسی ڈ ا ئین کی طرح برس ہا برس سے ہمارے ہی خون پر پل رہی ہے، ہمارے ہی کلیجے چبا کراسکو اوراسکے مضبوط نظام کو جلا مل رہی ہے
آنکھیں بند کرنے سے یا مسلسل دیدے مٹکانے سے اگر مسایل حل ہو جاتے تو آج ہمیں کوئی بھی مسلہ درپیش نہ ہوتا کیونکہ جہاں عوام آنکھیں بند کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتی ہے وہیں نیوز چینلز پر بیٹھے ہوۓ” رنگ برنگے” اینکرز کو آنکھیں گھمانے کے ہی پیسے ملتے ہیں. یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اگر ہم سب کی نیت درست ہو تو ہمارے مسا ئل حل نہ ہوں اور ہم سب اس سوتیلی ماں کو مجبورنہ کردیں کہ وہ ہمارے گھرمیں بیٹھ کرہمارے خلاف سازشیں کرنا بند کرے ورنہ ہم اسکا حقہ پانی بند کردیں گے.
یہ بھی پڑھیے:
تحریک انصاف کا شیش محل۔۔۔ آئینہ سیدہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر