گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں بے روزگاری ۔
آج میں نے جب ڈیرہ کے مرد و خواتین حضرات سے بے روزگاری کا فیس بک پر پوچھا تو بڑے معلوماتی جوابات آۓ ۔ میں جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے ۔۔
* 74 ۔سال سے ہمارے حکمران عوام میں بے روزگاری دور کرنے کے وعدے کرتے رہے لیکن عمل صفر ۔جو منصوبے بناۓ جاتے ہیں وہ بے روزگاری تو دور نہیں کرتے بلکہ کرپشن کر کے پیسہ لوٹ لیا جاتا ہے اور پھر ملک پر قرضہ بڑھ جاتا ہے ۔
* موجودہ حکومت میں بھی غریب کی زندگی آسان بنانے کے لیے جو وعدے کیے گیے وہ مہنگائ ۔بے روزگاری ۔کرپشن۔ نا انصافی کی صورت میں سب کے سامنے ہیں۔
* عام آدمی اب مایوسی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے اس لیے حکومت کی جانب دیکھنے کی بجاۓ عوام خود
کوئ قدم اٹھائیں۔
* آجکل انٹرنیٹ پر بہت سے ایسے سائٹس موجود ہیں جن پر سروس مہیا کر کے غریب اپنا پیٹ پال سکتا ہے۔ لڑکیوں کو گھر سے باہر بھی نہیں نکلنا پڑتا اور غریب عزت دار لوگوں کی سفید پوشی کا بھرم قائم رہتا ہے۔
* میری ان درد دل رکھنے والے ہنر مند skilled لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ غریب بچوں کو
انٹرنیٹ کے ذریعے روزگار کمانے کے طریقوں سے آگاہ کریں تاکہ وہ اپنے گھر کا خرچہ چلا سکیں۔
باقی قیامت تک نہ بجلی ٹھیک ہو گی نہ جرمانے ختم ہونگے نہ ہمارے خزانے کا پیٹ بھرے گا نہ رشوت سفارش کے بغیر روزگار ملے گا البتہ IMF کے جہنم جتنا پیٹ بھرنے کے لیے ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور زر مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کا لالی پاپ جاری رہے گا جس سے غریب کی زندگی مشکلات کا شکار رہے گی۔
رب دا واسطہ ہے پٹرول اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں 5 روپے سے نیچے کسی کمی کا عوام کو ریلیف نہ دیں۔ یہ ریلیف آپ پٹرول ڈیلروں اور بڑے مافیاز کو دیتے ہیں عوام کو اس ریلیف کا ککھ فائدہ نہیں۔
حکومت باتیں غریبوں کی کرتی ہے عملی طور پر امیروں اور مافیاز کے لیے کام کرتی ہے۔
اتنا چھوٹا ریلیف عام آدمی کو تو فاعدہ نہیں دیتا کم ازکم قومی خزانے میں تو یہ رقم جمع ہوتی رہے۔
یہ باتیں حکومت کو سمجھ کیوں نہیں آتیں ؟
کہاں گئیں وہ پیار کی رسمیں ؟
شروع میں جب میں لاھور سے ایک الارم والی گھڑی جو تین انچ گولائی میں ہوتی لے آیا۔ گاوں والے نہر کا پانی اپنی باری کے حساب سے لگاتے تو بہت خوش ہوۓ کہ چلو اب ٹایم دیکھ کے پانی لگایا کریں گے۔گاوں کے کارپینٹر سے اس کا شیشم کی لکڑی کا ڈبے نما فریم بنایا گیا پالش ہوئی اس کو پکڑنے کے لیے اوپر ہینڈل لگا دیا۔ گاٶں کے کسان ایک ہاتھ میں گھڑی اور دوسرے میں کہی اٹھاے خوشی خوشی پھرتے اور اپنے نمبر پر کھیت کو پانی دیتے۔ بعض تو اتنا سادہ تھے کہ پہلے ان کو سمجھانا پڑتا کہ بڑی سوئی جب 12 بجے پہنچے گی تمھاری پانی لگانے کی باری شروع ہو گی۔ یہ گھڑی 24 گھنٹے میں ایک دفعہ ہمارے گھر اس لیے واپس آتی کہ ہم اس کو چابی دے دیں۔اب ویسی گھڑیاں کہیں نظر نہیں آتیں…
ویسے جن زمینوں میں کاشت ہوتی تھی اب وہ کالونیاں بن گئیں اور جن کھالوں میں نہر کا صاف و شفاف پانی آتا تھا اب وہاں گٹر چلتے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ