محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیض احمد فیض کی لافانی نظم ہے ، دیکھیں گے، ہم بھی دیکھیں گے…۔ کئی عشروں سے اس خطے کے حریت پسند اور انقلاب کا خواب آنکھوں میں بسانے والے لوگ اس نظم کو وظیفہِ دل بنائے رہتے ہیں۔ اسے اقبال بانو نے کمال انداز میں گایا ہے۔سنا جائے تو آدمی مسحور ہوجاتا ہے۔ جو سامراج کے خلاف جرات کے ساتھ سربلند کھڑے رہے، ان کے لئے اس نظم میں بہت کچھ ہے۔ یہ نظم بہت ہی مشہور ہے ، اقبال بانو کے علاوہ بھی اسے دیگر فنکاروں نے گایا ہے، تین سال پہلے پاکستانی الیکشن سے ایک دو دن پہلے کوک سٹوڈیو نے کئی گلوکاروں سے اسے گوایا اور پھر ریلیز کیا۔
سننے میں خوب ہے، دیکھنے میں خوب تر۔ آگے بڑھنے سے پہلے دل چاہ رہا ہے کہ اس کے چند مصرے نقل کئے جائیں: ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے جو لوح ازل میں لکھا ہے جب ظلم وستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے ٭٭٭ ہم اہل صفا مردو د حرم مسند پر بٹھائے جائیں گے سب تاج اچھا لے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی جو منظر بھی ہے ناظر بھی فیض کی اس نظم کا عنوان بھی کمال ہے،ویبقیَ وجہ ربک ۔ یہ قرآن کے الفاظ ہیں ، اس مشہور آیت سے لئے گئے ،کل مَن علیھافان ، ویبقیَ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام(ترجمہ: ہر ایک جو اس (زمین)پر ہے فنا ہونے والا ہے، اور تیرے رب کا چہرہ باقی رہے گا جو بڑی شان اور عزت والا ہے۔ ) اروندھتی رائے مشہور بھارتی مصنفہ اور سوشل پولیٹیکل ایکٹوسٹ ہیں، انہوں نے چند سال پہلے بھارتی ریاست کے خلاف مزاحمت کرنے والے کمیونسٹ مائو باغیوں کے ساتھ چند دن گزارے اور اس پر ایک طویل فیچر لکھا جو’’ Walking with Comrades ‘‘کے نام سے معروف بھارتی میگزین آئوٹ لک میں شائع ہوا۔ اس کا ترجمہ میں نے اپنے میگزین میں گوریلوں کے ساتھ سفر کے نام سے کرایا تھا۔ اروندھی رائے لکھتی ہیں کہ میں جب مائو باغیوں کے خفیہ کیمپ میں پہنچی تو گھنے جنگل میں واقع اس کمیں گاہ میں گوریلے اپنا حوصلہ بلند کرنے کے لئے صبح شام اقبال بانو کی آواز میں فیض کی یہی نظم’’ دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے‘‘ سنا کرتے۔
اردو گوریلوںکی زبان نہیں تھی، مگر اس نظم اور گائیگی میں ایسی تاثیر تھی کہ مائو جنگجو اس کے فسوں کے اسیر تھے ۔ افغانستان میں طالبان کی فتح اور امریکہ کی ذلت آمیز شکست کے بعد فیض کی یہی نظم گزشتہ رات سے بار بار یاد آرہی ہے۔ افغانستان سے نکلنے والے آخری امریکی فوجی کی تصویر شائع ہوچکی ہے۔ امریکی جو اپنے لائو لشکر کے ساتھ بڑی رعونت کے ساتھ افغانستان وارد ہوئے تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ اپنی بے پناہ عسکری قوت اور ٹیکنالوجی سے وہ ہر مخالف کو زیر کر لیں گے۔ قدرت کا مگر اپنا پلان تھا، ہمیشہ کی طرح وہی پلان کامیاب ہوا۔امریکی بھی روسیوں اور برطانویوں کی طرح رسوا ہو کر نکلے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس انجام سے بچنے کے لئے امریکی ماہرین اور منصوبہ سازوں نے بڑے ہاتھ مارے ۔
انہیں خطرہ تھا کہ طالبان ان پر حملے کریں گے اور یوں پسپائی کا تاثر پیدا ہوگا۔طالبان کے ساتھ امریکیوں نے محفوظ پسپائی کا معاہدہ کر لیا۔ پاکستان پر بھی دبائوڈالا کہ سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر یہ تاثر نہ جائے کہ امریکی شکست کھا کر جا رہے ہیں۔ امریکی شائد سوچ رہے ہوں گے کہ افغان حکومت سال چھ مہینے رہ جائے گی، امریکی فوجی واپس چلے جائیں گے اور پھر اگر اشرف غنی کی حکومت گر بھی گئی تو امریکہ اس صورتحال سے لاتعلق ہوجائے گا کہ یہ افغانوں کا باہمی معاملہ ہے ، خود نمٹائیں۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ افغان حکومت اور سرکاری فوج پانی میں رکھی نمک کی ڈلی کی طرح تحلیل ہوگئی اور امریکیوں کو مجبوراً کابل ائیرپورٹ اپنے قبضے میں رکھ کر نہایت عجلت میں نکلنا پڑا۔
ستم ظریفی دیکھیں کہ جس انجام سے وہ ڈر رہے تھے، وہی ہوا ۔ ہم پر پابندی لگا رہے تھے کہ یہ بات نہیں کرنی، اب وہی باتیں امریکہ، برطانیہ کے ٹاپ کے اخبار کہہ رہے ہیں۔ ممتاز امریکی صحافی، سابق سفارتکار، سابق جرنیل اور دانشور برملا اسے امریکہ کی شکست کہہ رہے ہیں۔ امریکی شکست کی وجوہات پر کتابیں بھی آنا شروع ہوگئی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے ایک صحافی نے کلاسیفائیڈ دستاویزات کی بنیاد پر ایک کتاب لکھی ہے جو گزشتہ روز ،اکتیس اگست کومارکیٹ میں آئی ہے۔ افغانستان پیپرز، اے سیکرٹ ہسٹری آف دی وار کے نام سے یہ کتاب واشنگٹن پوسٹ کے صحافی کریگ وٹلاک نے لکھی ہے۔ اس میں اس نے ثبوت کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ امریکہ یہ جنگ بہت پہلے ہار چکا تھا، محاذوں پر اس کی شکست واضح تھی، مگر تینوں امریکی صدور بش، اوبامہ، ٹرمپ نے یہ بات امریکی عوام سے چھپائی۔
مجھے ذاتی طور پر خوشی اس بات کی ہے کہ بیس سال تک جو ہم سوچتے رہے، جس کی خواہش کرتے رہے، اسے اپنی آنکھوں سے مجسم ہوتے دیکھ لیا۔ عسکریت پسندی کے حوالے سے بہت کچھ لکھنے کا موقعہ ملا۔ ایک زمانے میں تو اس پر اتنا لکھا کہ آسانی سے ایک دو کتابیں بن جائیں۔ ایک نکتہ جو سمجھ آیا تھااور وہ بار بار لکھتا رہا کہ افغان طالبان، پاکستانی طالبان، پنجابی طالبان اور القاعدہ یہ سب الگ الگ چار گروہ ہیں، انہیں الگ الگ طریقے سے ڈیل کرنا چاہیے۔ یہ بات دس بارہ سال پہلے لکھتا تو بہت سے دوست اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ انگریزی صحافت سے وابستہ دوست ان میں نمایاں تھے۔آج حقیقت سب کے سامنے ہے۔ لبرل ، سیکولر کیمپ طالبان دشمنی میں انتہائی رائے قائم کئے بیٹھا تھا۔
جب ہم یہ بات لکھتے کہ ایک دن امریکہ کو یہاں سے شکست کھا کر جانا پڑے گا اور افغان طالبان واپس آئیں گے تو یہ حلقے ٹھٹھا اڑاتے۔مختلف اعداد وشمار کا حوالہ دے کر یہ لکھتے کہ امریکہ کبھی نہیں جا سکتا اور اگر گیا بھی تو وہ افغانستان میں اپنے اڈے برقرار رکھے گا، فوجی موجودگی رہے گی اور افغانستان میں ویسے بھی اس کے زیرسایہ اینٹی طالبان افغان حکومت بنے گی۔ آج ان کے وہ سب تجزیے کہاں گئے؟
کہاں گئی امریکہ کی وہ فوجی قوت؟ اس کے اڈے اور اس کی کٹھ پتلی افغان حکومت ؟ہمارے کئی ممتاز تجزیہ نگار اور اینکر بار بار حامد کرزئی اور اشرف غنی سے مفاہمت کرنے اور ان کی بات ماننے پر زور دیتے تھے۔ ان کا بس نہ چلتا کہ اشرف غنی کی عظمت کسی طرح پاکستانیوں کے دلوں میں راسخ کر دیتے۔ یہ سب پاکستان کی نیشنل سکیورٹی پالیسی کا مذاق اڑاتے تھے۔ آج ان کے وہ تجزیے کیا ہوئے؟
کہاں گیا عظیم رہنما اشرف غنی ؟ میرے اپنے فہم کے مطابق ہماری نیشنل سکیورٹی پالیسی برائے افغانستان یہ تھی: ’’امریکہ کو افغانستان میں پھنسایا جائے، اس کا خون بہتا رہے، حتیٰ کہ وہ روس کی طرح بے چین اور مضطرب ہو کر نکل جائے مگر نکلنے سے پہلے اتنا خون بہے کہ وہ پھر جلد یہاں آنے کا نہ سوچے۔ دوسرا یہ کہ ہم نے طالبان کو مستقبل کی قوت کے طور پر بچانا ہے۔ ان کا وجود برقرار ہے، ان کی قیادت اور تنظیمی سٹرکچر قائم رہے اور ان کے لئے سپلائی لائن کھلی رہے تاکہ افغانستان کی ہنڈیا ابلتی رہے ۔
القاعدہ کا خاتمہ ہو اور گلوبل ایجنڈے والی دیگر تنظیمیں بھی یہاں سے فارغ ہوں، ان کا صفایا ہوجائے۔ یہ کہ بھارت افغانستان میں بے اثر ہوجائے ۔ افغانستان میں ایک ایسی حکومت بن جائے جو پاکستان مخالف نہ ہو، جو پاکستان کے خلاف پراکسی وار نہ لڑے اور نہ ہی ہمارے ہاں کے شدت پسند گروہ وہاں پناہ لیتے رہیں۔ یہ کہ ہم اس سب گھڑمس کے دوران ڈیورنڈ لائن کو عملی طور پر بے اثر بنا دیں۔ باڑ بنا لیں۔ قبائلی علاقوں کا انضمام کر کے یہ باب بھی ہمیشہ کیلئے کلوز کر دیں اور مستقبل میںپاک افغان سرحد پر قبائل کی آمد ورفت ہماری مرضی کے مطابق اور کیلکولیٹڈ ہو۔ ‘‘ کیا یہ سب باتیں پوری نہیں ہو گئیں ؟
میرا قطعی کوئی ارادہ نہیں کہ افغانستان میں طالبان کی جیت کا کریڈٹ پاکستان کو دوں۔ یہ طالبان کا حق ہے، انہیں ہی ملنا چاہیے۔ ہمیں تو یہ خوشی ہے کہ تاریخ کے اس عظیم واقعے کو ہم نے اپنے سامنے دیکھا۔ سامراج کی شکست کا مشاہدہ کیا۔فیض نے کہا تھا دیکھیں گے ، ہم بھی دیکھیں گے۔ ہم نے یہ عظیم واقعہ، یہ دل خوش کن منظر دیکھ ہی لیا۔ بے شک باقی رہنے والی ذات رب کریم کی ہی ہے۔ وہی لازوال ہے، اس کے بندے ہی کامیاب اور سرخرو ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر