وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم تب بھی خوش تھے جب امریکہ کو ویتنامیوں سے چھتر پڑے۔ ہم تب بھی ناچے جب ایران سے امریکہ کا بستر گول ہوا اور ہم آج بھی بہت خوش ہیں جب افغانستان سے امریکی بدن پر تیل مل کے فرار ہوئے ہیں۔
امریکیوں کو جہاں بھی جو بھی جس کارن بھی لتر مارتا ہے، ہم خوش ہوتے ہیں۔ بالکل ویسے جیسے سلطان راہی نوری نت کا کٹاپا لگائے یا امیتابھ بچن ظالم سیٹھ کی ٹائی کھینچتے ہوئے چپیڑ کھینچ مارے تو ہم تالیاں بجاتے ہیں۔
بالکل ویسے ہی جب ارطغرل کہیں دور دراز ایشیاِ کوچک میں اپنے ہی جیسے ہم شکل دشمنوں کی دوڑ لگواتا ہے تو ہماری رگوں میں نعرہِ تکبیر گونج اٹھتا ہے۔
مگر ہم کیوں خوش ہوتے ہیں؟ کیونکہ ہم شدید تمنا کے باوجود یہ سب نہیں کر پاتے۔
ہمارا بھی اکثر دل چاہتا ہے کہ انڈیا سے کشمیر اور بنگلہ دیش کا بدلہ لے لیں۔ مگر اس کے لیے معیشت اور حالات ہی سازگار نہیں ہو پاتے تو ہم کیا کریں۔ ویسے بھی پشتو کا محاورہ ہے کہ ’تھوک سے پن چکی نہیں چلتی۔‘
کیا ہمارا جی نہیں چاہتا کہ امریکہ ایک ہاتھ سے امدادی ریوڑی دے کر دوسرا ہاتھ گردن میں ڈال کر جو ’ڈو مور‘ کرواتا ہے وہ ہاتھ ہی مروڑ دیں۔
مگر پھر ملٹی پل ویزہ، گرین کارڈ، دوہری شہریت کے بل پر یہاں کا مال وہاں منتقل کر کے بے نامی املاک و کاروبار کی سہولت، بچوں کی اعلیٰ تعلیم، اسلحہ جاتی محتاجی، آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے تالوں کی امریکی چابیاں اور برادر امریکی ممالک سے تعلقات کی نزاکت جیسے گمبھیر مسائل امریکہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے سے روک دیتے ہیں۔
کاش یہ سب مجبوریاں نہ ہوتیں تو امریکہ کی ایوب خان کے دور میں ہی وہ لترول کرتے کہ ستر کی دہائی کے ویتنامی و ایرانی اور اکیسویں صدی کے طالبان بھی دانتوں تلے انگلیاں داب لیتے۔
ایسا نہیں کہ ہم میں جذبے اور ہمت کی کمی ہے یا ہم ایک خالص نظریاتی سماج کی تعمیر نہیں چاہتے یا طالبان کی طرح چوروں کے ہاتھ اور ڈاکوؤں کے پاؤں نہیں کاٹنا چاہتے یا کرپٹ لوگوں کو کرین سے لٹکانا یا ریپسٹ کو سنگسار نہیں کرنا چاہتے یا سود سے پاک معیشت رائج کرنے کے تمناگیر نہیں۔
ہم شدید خواہش مند ہیں تبھی تو ہمارے کچھ صاحبِ ایمان پکار اٹھے کہ ’کابل میں طالبان کا داخلہ فتحِ مکہ کے بعد اسلامی تاریخ کا دوسرا اہم واقعہ ہے۔‘ اب مجھ جیسے لال بھجکڑ سوچ رہے ہیں کہ کابل میں موجود حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ، گلبدین حکمتیار اور ابو سفیان، عکرمہ اور ابی سرح میں کیا قدرِ مشترک ہے۔
اور میں دن گن رہا ہوں کہ کب ہمارے یہ عزیز از جان تجزیہ کار دارالحرب سے دارالایمان کی جانب ہجرت کر کے تحریکِ ترکِ موالات کے بزرگوں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
اب اگر مرئی و غیر مرئی مجبوریوں کے سبب ہم بحیثیتِ قوم و ریاست وہ سب نہیں کر پا رہے جو کرنے کا حق ہے تو آپ کو کم از کم ہماری نیت اور جذبے کی داد تو دینی ہی چاہیے۔
اگر آپ یہ پوچھیں کہ کیا ہم طالبان کے ساتھ ہیں تو ہم ایک نہیں دونوں ہاتھ بلند کر کے کہنے کو تیار ہیں کہ ’ہاں! خدا کی قسم ہم دل سے ان کے ساتھ ہیں۔‘ اب خدا کے لیے یہ مت پوچھ لیجیے گا کہ کیا آپ طالبان جیسی حکومت اسلام آباد میں بھی چاہتے ہیں؟
گواہ رہیے گا کہ جب تک افغانستان میں کفر دوست ڈھانچہ رہا ہم نے اپنے دروازے ہر طرح کے افغانوں کے لیے کھول دیے۔ آج بھی ہمارے ہاں بیس لاکھ سے زیادہ مہمان ہیں۔
لیکن اب جب کہ ہمارے حسرتی وزیرِ اعظم کے بقول افغانستان ’غلامی کی زنجیریں توڑ چکا ہے۔‘ نئے پناہ گزینوں کا ہماری سرزمین پر آنا نہیں بنتا۔ انھیں وہیں رہ کر غلامی سے نجات کا جشن منانا چاہیے۔
(ویسے بھی آپ کسی صورت پاکستان، ایران اور ترکی سے مطالبہ نہیں کر سکتے کہ وہ مزید پناہ گزینوں کا بوجھ ہر صورت اٹھائیں۔ تینوں ممالک پر اس وقت پناہ گزینوں کا خاصا بوجھ ہے۔)
دنیا نے کابل ایئرپورٹ سے امریکی اور نیٹو مال بردار طیاروں کو تو پناہ گزینوں کا بوجھ ڈھوتے دیکھا مگر ان میں کوئی بھی ایسا مال بردار طیارہ نہیں تھا جس پر کسی خوشحال خلیجی ریاست کا نشان بنا ہو۔
کیا ان ریاستوں میں صرف بھگوڑے حکمرانوں اور ان حکمرانوں کی مال دار اپوزیشن کو ہی پناہ مل سکتی ہے؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر