نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہجوم کا بوجھ||احمد اعجاز

اُن کے دانشور بننے اور کہلوانے کا یہ بہترین وقت ہوتا ہے ،یوں یہ بڑھ چڑھ کر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔مینارِ پاکستان واقعہ سے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہ سماج ہجوم اور جتھوں کے قابو میں آچکا ہے۔
احمد اعجاز 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مینارِ پاکستان پر خاتون کو ہجوم نے گھیر لیا۔ خاتون نے مردوں کے ہجوم کو خود بلایایا ہجوم پہلے سے موجود تھا؟اگر خاتون نے ہجوم کو خود دعوت دی تھی تو سوال یہ ہے کہ ہجوم اُس کی اُور کیوں کھنچا چلا آیا؟جو پہلو اہمیت کا حامل ہے ،وہ محض یہ کہ ہجوم نے اُس کو گھیرا ۔چلیں !مان لیتے ہیں کہ مردوں کے ہجوم کو خاتون نے خود دعوت دی تھی،تو کیا ہجوم کی جانب سے طاقت کے اظہار کا یہ پہلا واقعہ ہے؟
سیالکوٹ کے دوبھائی ہجوم کے ہاتھوں بے دردی سے ماردیے گئے تھے،مشال خان ہجوم کے ہاتھوں مارا گیا،تو دونوں معصوم بھائیوں اور مشال خان نے ہجوم کو خود دعوت دی تھی؟اگر مینارِ پاکستان واقعہ میں خاتون نے ہجوم کو خود دعوت دی تھی تو یہ واضح ہوا کہ ہجوم کو قابو کرنا یا اپنے مقصد کے لیے مکمل طورپر استعمال کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ نائین الیون کے بعد، پاکستانی سماج کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ فرد اور ہجوم کے فیصلوں اور اختیارات کے زیرِ تسلط جاچکا ہے ۔
ریاست نے جن فیصلوں کا اختیار قیامِ پاکستان سے نائین الیون تک اپنے پاس رکھا تھا ،اُن میں سے کچھ اختیارات فرد اور ہجوم نے چھین کر اپنے قبضہ میں کر لیے۔نائین الیون کے بعد متعدد ایسے واقعات رُونماہوئے ،جس میں فرد اور ہجوم نے اپنی مرضی کے فیصلے کیے ،یوں فیصلے کے اختیار پر اُن کا قبضہ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ان فیصلوں کے سامنے ریاست بے بس تماشائی کے طورپر ہی نظر آتی ہے۔ایسا ریاست کی پالیسیوں کے تسلسل سے ہوا۔
جیسے ہی فیصلے کا اختیار فرد اور ہجوم نے اپنے ہاتھ میں لیا ،تب سماجی سطح پر تقسیم اور تنازعہ میں اضافہ ہوااور عدم تحفظ کا احساس بھی مزید پیدا ہو اُٹھا۔ نائین الیون سے 2018ء کے انتخابات تک فرد اور ہجوم کے اختیارات کے استعمال کے چند واقعات کی روشنی میںسماجی تقسیم اور تنازعات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ انسانوں کے باہمی تعلقات ،بہت کمزور ہیںاور تعلقات جن بنیادوں پر قائم ہوتے ہیں ،وہ بنیادیں زیادہ تر مفادات پر مبنی ہوتی ہیں ۔
جب افراد کے مابین رشتے کمزور اورتعلقات برائے نام رہ جائیں تو منفی جذبات آسانی سے پروان چڑھتے ہیں۔ انسانی تعلقات میں ناپائیداری ریاست کی ہی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ یہاں انسانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کیا گیا، جذباتیت پیدا کی گی ،اب یہاںکے لوگ جذباتی سطح پر زندگی بسر کرتے ہیں ۔جذباتی سطح پر زندگی بسر کر نے والے لوگوں کا ہجوم کسی بھی واقعہ کو جذباتی رنگ دے کر آسانی کے ساتھ تصادم پیداکر سکتا ہے۔
یہ جذبات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ برس ہا برس ہمسائیگی میں رہنے والے اور مختلف فرقہ کے حاملین کے ساتھ اُنس پیدا نہیں ہوسکتا۔جذباتیت بھی خرددُشمنی اور سوال اُٹھانے کی ممانعت پر مبنی کلچر سے جنم لیتی ہے۔اسی طرح یہاں افراد کے اندر جارحیت پسندی کا عنصرنمایاں ہے۔اگر عام بات چیت کرنی ہے تو بھی جارحانہ لب و لہجہ،مکالمہ کرنا ہے تو تب بھی یہی انداز ۔حتیٰ کہ سیاسی قائدین کی تقریریں جارحیت پر مبنی رہی ہیں ۔
یہ جارحیت پسندی نظری معاملات میں زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔اگر دومختلف فرقوں کے افراد کہیں بیٹھے کوئی گفتگو کررہے ہوں تو تھوڑی ہی دیر بعدگفتگو نفرت انگیز رنگ اختیار کر کے رویّوں میں جارحیت بھر دیتی ہے،پھرنتیجہ تصادم کی شکل میں نکلتا ہے ۔یہاں کے افراد اور طاقت ور طبقات اختیار ات کے استعمال میں بہت خوشی اور آسودگی محسوس کرتے ہیں ۔ فیصلہ صادر کرنا ،اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ماں باپ اور اساتذہ ،بچوں پر فیصلہ صادرکرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔بڑے بہن بھائی ،چھوٹے بہن بھائیوں پر اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں ۔
سینئرز اپنے جونیئر زکو دبائو میں رکھتے ہیں اور اُنہیں اپنی ملکیت سمجھتے ہیں ۔بزرگ افراد چاہے جس قدر اَن پڑھ اور کج معاملہ ہوں ،نوجوان نسل پر اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے تشدّدپر اُترآتے ہیں ۔ حالانکہ کوئی بھی انسان ،چاہے وہ کتنا ہی طاقت ور اور بہادر کیوں نہ ہو،اکیلا نہیں رہ سکتا ،اکیلے رہنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ،اُس کا زندگی کے تمام معاملات میں بااختیار ہونا نہیں ٹھہرتا۔ایک انسان کے لیے زندگی کے معاملات کو تن تنہا نمٹانے کا اختیار نہیں ہے،زندگی کے معاملات اجتماع کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ،جہاں سب اپنے اپنے اختیار کو بروئے کارلاتے ہیں تو زندگی آگے کی طرف بڑھتی ہے ۔
یوں اگر دیکھا جائے تو افراد کا ایک ساتھ رہنا ،مل جل کر رہنا ہی اُن کی بقا کا ضامن بن گیا۔اب ایک سماج کے انسانوں پر یہ منحصر ہے کہ وہ مل جل کررہنے میں ایک دوسرے سے کس قدر تعاون کرتے ہیں ،اگر تعاون کریں گے تو یقینی طور پر بہتر سماج تشکیل پائے گا اور اگر افراد کا مجموعہ ایک دوسرے سے تعاون برتنے میں مسائل کا شکاررہے گا تو ایک بہترین سماج کی تشکیل شرمندۂ تعبیر نہ ہوپائے گی۔لیکن یہاں جب باہمی تعلقات کو دیکھا جائے تو دراڑیں واضح دکھائی دیتی ہیں۔
سماجی سطح پر پھوٹنے والا کوئی بھی واقعہ اِن دراڑوں کو مزید گہرا کردیتا ہے۔خاتون ٹک ٹاکر کے معاملہ میں سوشل میڈیا پر باقاعدہ جنگ کا ساسماں رہا۔خاتون کی حمایت اور مخالفت میں ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالاگیا۔یہ لڑائی جھگڑا جاری تھا کہ ایک معروف موٹیویشنل اسپیکر کی گھریلو قسم کی تصاویر سوشل میڈیا پروائرل ہوتی چلی گئی،اُن صاحب کو وضاحتی ویڈیو جاری کرنا پڑی۔ گویا ہماراکردار سوشل میڈیا پر طے ہوگا۔
اصل میں یہاں لوگوں کی بڑی تعداد کو کوئی نہ کوئی واقعہ چاہیے۔ایسے لوگوں کو واقعہ پر بولنے ،لکھنے اور کہنے کا بھرپورموقع مل جاتا ہے۔اُن کے دانشور بننے اور کہلوانے کا یہ بہترین وقت ہوتا ہے ،یوں یہ بڑھ چڑھ کر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔مینارِ پاکستان واقعہ سے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہ سماج ہجوم اور جتھوں کے قابو میں آچکا ہے۔ ہجوم اورجتھے ہماری زندگیوں کا فیصلہ کریں گے اور ہمارے کردار کا بھی۔مگر یادرکھیںہجوم کا اپنا ایک بوجھ ہوتا ہے۔

 

یہ بھی پڑھیے:

بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

یہی خزاں کے دِن۔۔۔احمد اعجاز

احمد اعجاز کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author