دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تے نئیں لبھدیاں نے ماواں ||اشفاق نمیر

ایک روز ایک ہم جماعت نے مجھ سے کہا “اوہ! تمہاری ماں کی صرف ایک آنکھ ہے”۔ اُس وقت میرا جی چاہا کہ میں زمین کے نیچے دھنس جاؤں جس کے بعد میں نے ماں سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا

اشفاق نمیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماں تیرے بغیر بتا، کون لبوں سے اپنے

وقتِ رخصت میرے ماتھے پہ دعا لکھے گا

میں اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا جس کی ایک آنکھ تھی میری ماں میرے سکول کے کیفیٹیریا میں خانسامہ تھی بچے مجھے چھیڑتے تھے جس کی وجہ سے مجھے شرمندگی ہوتی تھی اور غصہ بھی آتا تھا سو آہستہ آہستہ مجھے اُس سے نفرت ہونے لگ گئی تھی میں یہ اس وقت کی بات ہے جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا اور وہ میری جماعت میں میری خیریت پوچھنے آئی تھی مجھے سچ میں بہت غصہ آیا میں سمجھا وہ مجھے جماعت کے سامنے شرمندہ کرنے آئی ہے مجھے واقعی بہت شرمندگی ہوئی جب لڑکے مجھے ایک آنکھ والی کا بیٹا کہتے تو میں غصے سے لال پیلا ہو جاتا تھا اُس واقعہ کے بعد میری نفرت اور بڑھ گئی اور میں اُس کی طرف لاپرواہی برتتا تھا اور اُسے حقارت کی نظروں سے دیکھتا تھا

ایک روز ایک ہم جماعت نے مجھ سے کہا “اوہ! تمہاری ماں کی صرف ایک آنکھ ہے”۔ اُس وقت میرا جی چاہا کہ میں زمین کے نیچے دھنس جاؤں جس کے بعد میں نے ماں سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا میں نے جا کر ماں سے کہا “ تمہاری وجہ سے لڑکے مجھے سکول میں مذاق بناتے ہیں تم میری جان کیوں نہیں چھوڑ دیتی ؟” لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا تھا جب ماں نے کوئی جواب نہ دیا تو میں ماں کے ردِ عمل کا احساس کئے بغیر شہر چھوڑ کر چلا گیا

میں نے پڑھائی نہ چھوڑی میں محنت کے ساتھ پڑھتا رہا مجھے کسی غیر مُلک میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے وظیفہ مل گیا تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے اسی ملک میں ملازمت اختیار کی اور شادی کر کے رہنے لگا ایک دن میری ماں ہمیں ملنے آ گئی اُسے میری شادی اور باپ بننے کا علم نہ تھا وہ دروازے کے باہر کھڑی رہی اور میرے بچے اس کا مذاق اُڑاتے رہے میں ماں پر چیخا ” تم نے یہاں آ کر میرے بچوں کو ڈرانے کی جُراءت کیسے کی ؟” بڑی آہستگی سے اُس نے کہا “معافی چاہتی ہوں میں غلط جگہ پر آ گئی ہوں”۔ اور وہ چلی گئی

ایک دن مُجھے اپنے بچپن کے شہر سے ایک مجلس میں شمولیت کا دعوت نامہ ملا جو میرے سکول میں پڑھے بچوں کی پرانی یادوں کے سلسلہ میں تھا میں نے اپنی بیوی سے جھوٹ بولا کہ میں دفتر کے کام سے جا رہا ہوں سکول میں اس مجلس کے بعد میرا جی چاہا کہ میں اُس مکان کو دیکھوں جہاں میں پیدا ہوا اور اپنا بچپن گذارہ مجھے ہمارے پرانے ہمسایہ نے بتایا کہ میری ماں مر چکی ہے جس کا مُجھے کوئی افسوس نہ ہوا ہمسائے نے مجھے ایک بند لفافے میں خط دیا کہ وہ ماں نے میرے لئے دیا تھا میں بادلِ نخواستہ لفافہ کھول کر خط پڑھنے لگا جس پر لکھا تھا

“میرے پیارے بیٹے ۔ ساری زندگی تُو میرے خیالوں میں بسا رہا مُجھے افسوس ہے کہ جب تم مُلک سے باہر رہائش اختیار کر چکے تھے تو میں نے تمہارے بچوں کو ڈرا کر تمہیں بیزار کیا میرے بیٹے کیا تم جانتے ہو کہ جب تم ابھی بہت چھوٹے تھے تو ایک حادثہ میں تمہاری ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی دوسری ماؤں کی طرح میں بھی اپنے جگر کے ٹکڑے کو ایک آنکھ کے ساتھ پلتا بڑھتا اور ساتھی بچوں کے طعنے سُنتا نہ دیکھ سکتی تھی ۔ سو میں نے اپنی ایک آنکھ تمہیں دے دی جب جراحی کامیاب ہو گئی تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا کہ میرا بیٹا دونوں آنکھوں والا بن گیا اور وہ دنیا کو میری آنکھ سے دیکھے گا”

باپ سراں دے تاج محمد

تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں

ہر اک چیز بازاروں لبھدی

تے نئیں لبھدیاں نے ماواں

یہ بھی پڑھیں:

چچا سام اور سامراج۔۔۔ اشفاق نمیر

جمہوریت کو آزاد کرو۔۔۔ اشفاق نمیر

طعنہ عورت کو کیوں دیا جاتا ہے۔۔۔ اشفاق نمیر

مائیں دواؤں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں۔۔۔ اشفاق نمیر

بچوں کے جنسی استحصال میں خاموشی جرم۔۔۔ اشفاق نمیر

اشفاق نمیر کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author