ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے سب لوگ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن ہو۔ غربت کے خاتمے کیلئے ترقی کا دور شروع ہو۔ طالبان عام معافی کے وعدے پر قائم رہیں۔ پنج شیر کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو۔
افغانستان میں میل ، فی میل تعلیمی ادارے کھل جائیں۔ اقلیت اور خواتین کا خوف ختم ہو۔ افغانستان میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنسدانوں کو کام کرنے کا موقع ملے اور افغانستان کی بد امنی سے کوئی ملک متاثر نہ ہو۔ ابھی تک تو طالبان کی طرف سے خوشگوار بیانات آرہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں حالات معمول پر آگئے ہیں مگر ایک سوال یہ بھی ہے کہ حالات معمول پر آگئے ہیں تو کابل ایئر پورٹ پر لوگوں کا رش کیوں ہے؟ لوگ وہاں سے کیوں نکلنا چاہتے ہیں؟ افغانستان کے حالات و واقعات سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے۔
1947ء میں افغانستان کا ایلچی بانی پاکستان حضرت قائد اعظم سے ملنے آیا تھا تو قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی حکومت افغانستان سے گہرے برادرانہ تعلقات قائم کرے گی کہ دونوں مسلم ملک کے افراد ایک دوسرے سے مذہبی، نسلی و ثقافتی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں مگر افغانستان کی طرف سے قائد اعظم کی پیشکش کا مثبت جواب نہ ملا۔ افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی اور افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کیا اور پاکستان میں پختونستان کے مسئلے کو ابھارتا رہا۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ افغانستان کے وزیر اعظم ہاشم خان نے 1947ء میں مطالبہ کیا تھا کہ پختونستان بنایا جائے یا شمال مغربی سرحدی صوبہ کو افغانستان کا حصہ بنایا جائے۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ 1955ء میں ون یونٹ بنا تو اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک سے جو مخالفت ہوئی وہ واحد ملک افغانستان تھا۔ افغانستان میں 1961ء میں پاکستان میں ہونیوالی قبائلی بغاوت کی حوصلہ افزائی کی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان کا پاکستان سے پہلے دن سے ہی مخاصمانہ رویہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کا سب سے زیادہ فائدہ افغانیوں کو ہوا اور وہ پاکستان کی وجہ سے اقتصادی طور پر بہت مضبوط ہوئے۔ اس کے باوجود افغانستان نے پاکستان کو ایک لمحہ کیلئے بھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا افغانستان کی صورتحال سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ ہمسایہ ملک ہونے کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ لاکھوں افغانی پاکستان میں موجود ہیں۔ ضیاء الحق دور میں جہاد افغانستان کے نام پر پاکستان کا سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ۔ہیلری کلنٹن نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہمارے ذہن میں یہ شاندار خیال آیا کہ ہم پاکستان جائیں گے اور مجاہدین کی ایک فورس کھڑی کریں گے۔ ان کو سٹنگر میزائل اور دوسرے ہتھیاروں سے مسلح کریں گے اور افغانستان کے اندر سوویت یونین کے خلاف لڑیں گے۔ ہم اس میں کامیاب ہوئے۔ سوویت یونین افغانستان سے نکل گیا اور پھر ہم نے خطے کو الوداع کہا۔ ہم نے افغانستان اور پاکستان میں انتہاء پسند لوگوں کو کھلا چھوڑ دیا۔
یہ لوگ ہتھیاروں سے لیس تھے۔ اس طرح ہم نے ایسا ’’میس‘‘ پیدا کر دیا، جس کا اس وقت ہم احساس نہ کر سکے۔ ہم سوویت یونین کے ٹوٹنے پر خوش تھے۔ ہم نے سمجھا اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اب آپ واپس مڑ کر دیکھیں، جن لوگوں سے ہم لڑ رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کی ہم نے سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں مالی مدد کی۔ جیسا کہ حالات و واقعات خود بتا رہے ہیں کہ حالات کی خرابی کا ذمہ دار خود امریکہ ہے۔ اس کے باوجود وہ امریکہ بہت رسوا ہو چکا ہے۔ اس کی دنیا میں بہت بدنامی ہوئی ہے مگر آج بھی اُس کا کھیل جاری ہے۔ اشرف غنی، رشید دوستم، حامد کرزئی اور موجودہ طالبان یہ سب وہ لوگ ہیں جو امریکہ کے ذریعے آگے آئے۔ گزشتہ تجربہ اچھا نہیں ہے کہ 1996ء میں طالبان کی آمد کے بعد خود کش حملے ہوئے۔ دھماکوں سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے۔
سابقہ دور کے برعکس کہا جا رہا ہے کہ پچھلی تاریخ کو نہیں دہرایا جائے گا مگر اس کی شہادت عملی اقدامات کی صورت میں آنی چاہئے۔ افغانستان میں سب کچھ اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ افغانستان کی صدیوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ افغانستان کے غریب عوام کی بہتری کیلئے کسی نے کچھ نہیں کیا۔ سب نے افغانستان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ اس سلسلے میں یورپ کا کردار قابل رشک نظر نہیں آتا اور خود افغانستان کے لوگ بھی ذاتی لالچ میں آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتے آرہے ہیں۔ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں افغانستان پر امان اللہ خان کی حکومت تھی۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے افغانستان کے امیر سے ملاقات کرکے اُس کا تعلق یورپ سے ختم کرا دیا تھا۔ افغانستان روسی بلاک میں چلا گیا۔
یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جب جرمنی، امریکہ اور روس نے بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں خواتین کو ووٹ کا حق دیا تو 1919ء میں افغانستان میں بھی خواتین کو ووٹ کا حق ملا۔ دس سال بعد یورپ پھر کامیاب ہوا اور 1929ء میں امان اللہ خان کی حکومت ختم کرا دی گئی۔ اس دوران بہت سی حکومتیں تبدیل ہوئیں اور افغانستان ایک مرتبہ پھر روسی بلاک میں چلا گیا اور روس کی فوج افغانستان میں داخل ہوئی اور پھر امریکہ نے ضیاء الحق کی معرفت افغانستان میں روس کیخلاف جنگ لڑی۔ اس کا خمیازہ پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے۔ اتنا نقصان اٹھانے کے باوجود پاکستان کے حکمرانوں نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اس لیے خدشات اور خطرات بڑھ گئے ہیں کہ افغانستان کی شورش کے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ پاکستان میں فرقہ واریت کے بڑھنے کا بھی امکان بڑھ گیا ہے۔ اسی بناء پر جس حد تک ممکن ہو سکے پاکستان کے حکمران گھر کے حالات کو درست کریں۔ غربت، پسماندگی کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ انصاف کو یقینی بنائیں۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر