نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چھبیس اگست دوہزار چھ ||فضیل اشرف قیصرانی

اکبر خان بگٹی پر جنگ مسلط کرنا ہمارے حکمرانوں کی وہ غلطی تھی کہ جو آگ آج سے پندرہ سال قبل بوئ گئ اب وہ اپنے بچوں سمیت پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوۓ ہے۔ان شعلوں کی تپش بلوچ وطن کے ہر کونے میں یکسر ایک سی ہے چاہے وہ ہلمند و نمروز ہوں،سیستان ہو،مکران ہو،رخشان ہو،سلمان ہو یا پھر لزدان۔۔۔

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہندو روایات میں وقت کو بھگوان کا روپ کا مانا جاتا ہے کہ اس پہ کوئ آج تک گرفت نہیں کر سکا ،نہ ہی کوئ اسکی رفتار کو تھام سکا اور نہ مہمیز کر پایا۔وقت نہ کسی کی پکڑ میں آیا اور نہ ہی کسی کا تابع ہوا۔حقیقت یہی ہے کہ وقت بدل جاتا ہے اور وقت اپنے آپ میں منصف بھی ہے کہ یہ سب کے ساتھ سب کا برتاؤ یاد رکھتا ہے۔یہ یاد رکھتا ہے کہ تاریخ میں کون تاریخ کی سہی جانب کھڑا تھا اور کون غلط ۔۔
وقت نے ایسی ہی ایک تاریخ 26 اگست 2006 بھی دیکھی جب وقت کی منصفی میں یہ فیصلہ آیا کہ زمانے کو بتایا جاۓ تاریخ میں امر کون رہے گا،کس کا نام باقی رہے گا ،کس کے مزار پہ منتیں مانی جائیں گی،کس پر گیت لکھے جائیں گے ، کون بے نشان رہے گا اور کون یکسر فراموش کر دیا جاۓ گا،کس کی تصاویر موبائلز،فلیکسز اور رکشوں کی زینت بنیں گی اور کس کے نام لیوا کرہ ارض پہ موجود رہیں گےاور کون مٹ جاۓ گا؟
وقت نے شاید ابھی فیصلہ کرنا تھا کہ ایک فریق دوسرے پہ چڑھ دوڑا۔حملہ ہوا،جنگ ہوئ،شہادتیں ہوئیں،ہجرت ہوئ اور تراتانی کے پہاڑوں نے دیکھا کہ ایک اسی سالہ بزرگ اپنی تمام تر گریس کے ساتھ اپنی ناموس اور پرکھوں کی کمائ ننگ کو بچانے میدان جنگ میں کود پڑا کہ حملہ زدہ فریق جانتا تھا،
جان اپنی ہے اور آبرو نسلوں کی کمائ!
سر کون بچاتا پھرے دستار کے آگے؟
بلوچ فوک دودا و بالاچ کے بغیر نا مکمل ہے،بلوچ تاریخ ننگ و ناموس کے بغیر ادھوری ہے اور بلوچ بطور فرد بغیر مزاحمت کے فرد کم بوجھ زیادہ ہے۔ڈیرہ بگٹی کے اکبر خان بگٹی سے منسوب ہے کہ وہ آخری وقت میں یہی کہتے رہے کہ جنگ اگر مسلط کر ہی دی گئ ہے تو پھر وقت آ گیا ہے رسمِ بالاچ کو نھبایا جاۓ۔یہاں یہ یاد رہے کہ بالاچ گورگیج بلوچ تاریخ کا اولین گوریلا تھا جس نے اپنے بھائ دودا کے خون کا انتقام لینے کے لیے مسلسل بارہ سال سخی سرور کی درگاہ میں گزارے اور خود کو اس قابل بنایا کہ اپنے مقتول بھائ کا بدلہ لے سکے۔
اکبر خان بگٹی پر جنگ مسلط کرنا ہمارے حکمرانوں کی وہ غلطی تھی کہ جو آگ آج سے پندرہ سال قبل بوئ گئ اب وہ اپنے بچوں سمیت پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوۓ ہے۔ان شعلوں کی تپش بلوچ وطن کے ہر کونے میں یکسر ایک سی ہے چاہے وہ ہلمند و نمروز ہوں،سیستان ہو،مکران ہو،رخشان ہو،سلمان ہو یا پھر لزدان۔۔۔
بہت پِٹا ہوا شعر ہے مگر شاعر کیا خوب کہہ گیا کہ،
وقت کرتا ہے پرورش برسوں!
حادثہ اک دم نہیں ہوتا!!!
سو
ہر وہ حادثہ جو جنگ ہو!
ہر وہ فیصلہ جو غلط ہو!
ہر وہ بات جو جھوٹی ہو!
ہر وہ عمل جو تابوت کو تالے لگاۓ!
سب مردہ آباد
ہاں مگر
جو ناموس کے لیے جنگ میں کود پڑے!
جو پرکھوں کی کمائ میں حصہ مانگے!
جو زورآور سے ٹکراۓ!
اور جو جان پہ کھیل جاۓ!
سب زندہ آباد
یہاں نذیر قیصرانی با سبب یاد آے،
فرما گۓ کہ،
نہیں یہ ہار کہ ہم جان ہار بیٹھے ہیں!
شکست انکو ہے جو ڈر گۓ بکھرنے سے!
شکست انکو ہے جولوٹ آۓ راستے سے!
شکست انکو ہے جو مصلحت کے پردے میں،
چھپا رہے ہیں زمانے سے بزدلی اپنی!
کہ فرازِ دار تو منزل ہے کامرانی کی،
وہ سرخرو ہے جو اپنے لہو میں ڈوب گیا!
کہ پینے والے انہی کھنڈروں کے ساۓ میں،
پئیں گے اور پئیں گے انہی پیالوں سے،
شبِ سیاہ میں جو واہمہ سی لگتی ہے،
سحر کشید کریں گے انہی اجالوں سے!!!

About The Author