گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے بچپن میں ہماری مائیں نظر بد سے بچنے کے لیے ہمارے گلے تعویز لٹکا دیتیں۔ جب نہا دھو کے اچھے کپڑے پہن کے تیار ہوتے تو ہمارے ماتھے پر کاجل سے ٹکا
chicken feet
بنا دیتیں۔ پھر بھی اگر کوئ بچہ بیمار ہوتا تو پھٹکڑی کو گرم توے پر رکھ دیتیں اور وہ پگھل کر چھوٹی گڑیا کی شکل بن جاتی اس میں سوئیاں چبھو دیتیں۔
نیے مکان کےکمرے کی چھت پر کٹوی رکھ دیتیں کہ مکان کو نظر نہ لگے۔ جب ہم بڑے ہوئے اور کچھ سمجھ آئی تو یہ طریقے ترک کر دیے۔
خیر مجھے ہندوستان کے کسان کا اپنے کھیت کو نظر بد سے بچانے کا طریقہ اتنا پسند آیا کہ اگر میں کسان ہوتا تو ضرور آزماتا۔ آندھرا پردیش کے اس کسان نے اپنی دس ایکڑ زمین پر لہلہاتی فصل کو راہگیروں کی نظر بد سے بچانے کے لیے اپنے کھیت میں بھارتی ایکٹریس سنی لیون کے بِکنی bikini لباس والے بڑے بڑے پوسٹر لگا دیے۔راہگیر جب وہاں سے گزرتے تو وہ کھیت کی بجاے ان پوسٹروں کو دیکھتے رہتے اس طرح اس کسان کے دعوے کے مطابق فصل نظر بد سے محفوظ رہی اور بہت اچھی پیداوار ہوئ۔
اِدھر ہماری قسمت دیکھیے ہماری طرف کوئی creative بندہ آج تک ایسا کام نہ کر سکا الٹا پنجابی فلموں کی انجمن نے اڈیاں ٹپ کے اور ڈانس کر کے ہمارے آدھے کھیت اجاڑ دیے۔ انجمن تو یہ گانا گا کر ہمارا دل جلاتی رہتی تھی۔۔۔تیرے باجرے دی راکھی کیسے میں کر پاونگی۔ساجن میں گبھراٶں گی؟؟؟
اب بھی وقت ہے پاکستان کے کسان جاگیں اور ہماری سوھنڑی ایکٹرسوں اور نو عمر ٹک ٹاکروں کے پوسٹر کھیتوں میں لگا کر اچھی پیداوار حاصل کریں۔ تاکہ پاکستان خود کفیل ہو سکے۔
محبتیں جو روٹھ گئیں۔۔۔
آج سے چالیس پچاس سال پہلے یہاں ڈیرہ اسماعیل کے دیہاتوں میں کیا ہو رہا تھا۔ ساری رات رہٹ چلتے تھے۔گہرے کنویں تھے۔پانی لوٹوں کے ذریعے باھر نکالا جاتاتھا۔ بیل کی جوڑی کے ساتھ ہل جوتے جاتے ۔ہل جوتنے والےکسان ہالی کہلاتے۔گندم کی کٹائی ہاتھ سے ہوتے۔ گندم کاٹنے والے لیار کہلاتے۔ گندم کے ڈھیر پر فلسہ چلتا یا جانوروں کو قطار میں باندھ کر چکر دیتے اور گندم کی گہائی ہوتی۔ گندم کی ڈھیری سے مٹی علیحدہ کرنے کے لیے ہوا گھلنے کا انتظار کیا جاتا۔رات کو گندم کے ڈھیر کی حفاظت کے لیے کسان کھلیانوں پر سوتے۔اگر بارش آ جاتی تو چارپائی کے نیچے پناہ لیتے یا کھجور کے پتوں کی تڈی اوڑھ کے سو جاتے۔جب فصل صاف ہو جاتی تو محبت کا زمانہ تھا گاوں کے تمام کارندوں کا علیحدہ علیحدہ حصہ ہوتا۔ گندم کے مقدار کے مطابق عشر۔خمس۔کاریگروں جیسے لوہار۔درکھان۔نائی ۔مراثی۔کمبھار۔کٹوال سب کا حصہ نکلتا۔ہر شخص موقع پر اپنا حصہ وصول کر کے لے جاتا پھر باقی مالک اور کسان لے جاتے ۔چھوٹے چھوٹے گاوں سب لوگ بھائیوں کی طرح رھتے اور کوئی نفسا نفسی نہیں تھی۔سب کی خوشی غم ساجھا تھا۔ایک گھر تنور جلتا سب پڑوسی روٹی لگا لیتے۔ایک گھر بھینس بچہ دیتی تو پہلا دودھ جسے بولی کہتے وہ ہمارے گھر بھی آتا اور ہم پکا کر کھاتے جس گھر لسی بنتی سارے گاوں کو مفت ملتی۔مہمانوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا۔نہ مزھب کی تفریق نہ کوئی اور بس ہستا بستا گاوں ایک گھر کی شکل میں ہوتا۔ دھشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا تو نام بھی نہیں سنا تھا۔پھر ہم نے ترقی کی ہمارے دفتروں میں رشوت چلنے لگی۔کچہریوں میں جھوٹے گواہ کرایہ پر ملنے لگے۔ FIR ناجائز کٹنے لگے۔انصاف کا خون ہونے لگا۔مسجدیں جدا ہونے لگیں ۔فرقہ واریت چنگھاڑنے لگی۔فرقوں کے نام پر قتل عام ہونے لگے۔بم اور خودکش دھماکے ہونے لگے یہ چلن ایسے چلا کہ سب کچھ برباد ہو گیا۔ میرے ذھن میں یہ شعر گونجتا رہتا ھے؎
جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں ۔۔۔راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ھے نہ چنگاری۔۔۔اب نہ وہ وقت نہ اس وقت کی یادیں باقی۔جس کی تصویر نگاہوں میں لیے بیٹھی ہو ۔۔۔میں وہ دلدار نہیں اسکی ہوں خاموشستان۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر