ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاشورہ محرم بیت گیا ہے ،پورے ملک میں امن و امان رہا ،ایک المناک واقعہ بہاولنگر میں رونما ہوا ،وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے فوری نوٹس لیا۔واقعہ کی تحقیقات جاری ہے ،وزیراعلیٰ کی طرف سے شہداء اور زخمیوں کی مالی مدد کی گئی جوکہ اچھی بات ہے ۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے ۔ اس ماہ کو شہدائے کربلا کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس مہینے کی بہت زیادہ عظمت ہے ‘ اس پورے مہینے کو شہدائے کربلا کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ وسیب میں یہ بھی ہوتا ہے کہ مسلمان شہر خاموشاں کی طرف جاتے ہیں اور پہلی محرم سے 10 محرم تک قبروں کی لپائی کی جاتی ہے۔
لواحقین قبرستانوں میں جا کر فاتحہ خوانی کرتے ہیں ‘ نذر نیاز اور طعام کی تقسیم ہوتی ہے ‘ کھجور کے پتے ‘ دالیں ‘ خوشبودار پانی اور پھول کی پتیاں قبروں پر نچھاور کی جاتی ہیں‘ اگر بتیاں جلائی جاتی ہیں ۔ ان دنوں مستری مزدور بہت مصروف نظر آتے ہیں ۔ یہ رسومات ایک طرح سے اسلامی ثقافت کا حصہ بن کر رہ گئی ہیں۔ محرم الحرام کے موقع پر قبرستان جانے پر اعتراض نہیں لیکن یہ کام وہ ہیں کہ جو ہر وقت ہو سکتے ہیں اور پورا سال فاتحہ کیلئے قبرستان میں آنا جانا رہنا چاہئے ۔ قبرستان جانے کے مقاصد بھی فراموش نہیں کرنے چاہئیں ، موت بر حق ہے مگر ان کاموں کے بارے میں سوچنا چاہئے جو موت کو بھی مار دیں اور ہمیشہ یاد رکھے جائیں ۔ نظام مصطفی صرف نعرے کے طور پر نہیں عملی طور پر ہونا چاہئے ۔
قانون کی تعلیم کیلئے پوری دنیا میں مشہور برطانیہ کے تعلیمی ادارے ’’ لنکز ان ‘‘ میں بار ایٹ لاء کے داخلے کیلئے قائد اعظم گئے تو ان کی نظر اس فریم پر پڑی جہاں روئے زمین پر قانون بنانے والے قانون ساز عمائدین کے نام لگے ہوئے تھے ،اس فہرست میں سب سے پہلا نام ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ہے ۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم نے بھی ہمارے آقا ئے نامدارؐ کے بنائے ہوئے قوانین کی عظمت کو تسلیم کیا جب کہ مسلم ممالک آج بھی نظام مصطفی نافذ کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں ۔
نظام مصطفی کیا تھا ؟ نظام مصطفیٰ شوراتی نظام تھا جو کہ ایک طرح کا جمہوری نظام ہے۔ یزید نے جب شورائی نظام کی بجائے ملوکیت کی بنیاد رکھی تو نواسہ رسول ؐ حضرت امام حسین ؑنے نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ عملی طور پر میدان میں آ گئے ۔ ہادی برحق کے نظام احیاء اور نفاذ کیلئے اپنی اور آل اولاد کی جانوں کی پرواہ نہ کی اور راہ حق میں قربان ہو کر امت کیلئے مشعل راہ بن گئے۔ مسلم ممالک میں پائی جانے والی مطلع العنانی ، ڈکٹیٹر شپ مرضی کی حکومتیں ، سرداری ،جاگیرداری اور قبائلی نظام اور بڑی بادشاہتیں ، یہ سب اس ملوکی نظام کے مظاہر ہیں جس کی بنیاد یزیدی دور میں رکھی گئی تھی ۔
وسیب کے قدیم مرکز ملتان میں عزاداری اور مرثیے کی روایت بہت قدیم ہے ۔ معروف مورخ حفیظ خان اس پر لکھتے ہیں کہ خطہ ملتان میں عزاداری اس وقت شروع ہو گئی تھی جب واقعہ کربلا کے بعد دت قوم کے کچھ لوگ حضرت امام حسینؑ سے عقیدت رکھنے کے باعث وہاں مظالم کا شکار ہوئے اور عراق سے نکال دیئے گئے ۔ یہ لوگ عربی النسل تھے ۔ یہ لوگ 681 ء کے لگ بھگ ایران کے راستے ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آ کر آباد ہوئے ۔ ملتان شروع سے ہی محبت کرنے والا خطہ ہے، پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہوا، ملتان کے باسیوں نے اسے اپنا درد سمجھا۔ ملتان والے دنیا میں پیش آنے والے ہر سانحے کو اپنا سانحہ سمجھ لیتے تھے ۔ ظلم کا شکار کوئی بھی قوم ہجرت کر کے آئی ملتان نے محبت دی ، اپنائیت دی ۔
دت قوم کے لوگ جب اس خظہ میں آئے اس وقت ایران اور عبر کے زیر اثر اس قوم کے ان لوگوں نے مخلوط زبان میں عزاداری کی اور اس منظوم صنف کو عام کیا ۔ کبت خوانی کرنے والے ان لوگوں کو حسینی باہمن کہا جاتا تھا ۔ حسینی باہمنوں کے کہے ہوئے کبت ہی خطہ ملتان اور سرائیکی زبان میں مرثیہ کی ابتدائی شکل ہے۔ ایک روایت اور بھی ہے وہ یہ کہ وہ لوگ جو ظلم کا شکار ہو کر عراق سے ایران کے راستے اس علاقے آئے ، یہاں کے کلچر اور یہاں کی زبان سے مانوس ہوئے ، یہیں سے سرائیکی مرثیہ کی روایت بنی ۔ سرائیکی مرثیے کی وہی روائت وسیب میں آج تک چلی آ رہی ہے ۔ مرثیے کو سرائیکی کی اصناف سخن میں سے ایک معتبر صنف کی حیثیت حاصل ہے اور اس صنف میں ہزاروں سخن ور طبع آزمائی کر چکے ہیں ، ہزار ہا کر رہے ہیں اور سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتابیں واقعہ کربلا کی یاد میں لکھی جا چکی ہیں ۔ مرثیہ جس سوز و گداز اور محبت کے ساتھ سرائیکی زبان میں پڑھا اور سنا جاتا ہے کسی اور زبان میں اس کی مثال ملنا بہت مشکل ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سرائیکی زبان میں کربلائی ادب کے نام سے بہت سی اصنافِ سخن جانی اور پہچانی جاتی ہیں جیسا کہ حسینی ڈوہڑہ ، حسینی مرثیہ ، حسینی قصیدہ اور حسینی منقبت اپنی مثال آپ ہیں ۔ سرائیکی مرثیہ سب سے پہلے سرائیکی وسیب سے شروع ہوا ۔
یہی وجہ ہے کہ مجلس عزاء جہاں بھی ہو رہی ہو ،وہاں سرائیکی مرثیہ ضرور پڑھا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ لکھنو، دکن اور دہلی کی مجالس میں بھی سرائیکی مرثیے پڑھے گئے ۔ برصغیر جنوبی ایشیاء کربلائی ادب کا خطہ ہے مگر نصاب کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں ‘ نہ صرف یہ کہ سرائیکی کا ذکر نہیں بلکہ نصاب کی کتابوں میں سرائیکی کے ساتھ ساتھ پنجابی‘ بلوچی ‘ پشتو ‘ براہوی ‘ ہندکو‘ پوٹھوہاری و دیگر پاکستانی زبانوں میں تخلیق ہونیوالے ادب کا بھی تذکرہ نہیں۔ پاکستانی زبانوں کی تخلیقات سے اہل وطن محروم رہے ۔ ادبی تخلیقات سے سوچ و فکر جنم لیتی ہے، پاکستانی سوچ و فکر پاکستانی زبانوں میں تخلیق سے ہی ممکن ہے، آج محرم الحرام کے موقع پر درخواست کر رہا ہوں کہ پاکستانی زبانوں اور پاکستانی ادب کو قومی زبانوں کا درجہ دیکر نصاب کا حصہ بنایا جائے کہ آنیوالی نسل کو پاکستان کی تہذیب، ثقافت ، تاریخ و آثار کا علم ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر