سید حسن محمود گیلانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا لکھوں! پہلے عنوان دینا چاہا لیکن ایک خاص حلقے کی ہٹ دھرمی اور بے حسی نے عنوان تبدیل کروا دیا۔ جن سانحات کا ذکر نیچے کرنا چاہ رہا ہوں، وہ میرے اور میرے جیسے انسانوں کے لئے تو بیشک سانحات سے کم نہیں لیکن ارباب اختیار کے لیے بس چند کھلے کٹوں سے زیادہ نہیں۔ اب معاملہ چاہے ٹک ٹاکر عائشہ کا ہوں جو کہ اس کا اپنا قصور تھا کئی میڈیائی و سوشل میڈیائی الباکستانی دانشوروں کے مطابق یا لاہور سے آزادی کا جشن مناتے ہوئے لڑکوں کا رکشے میں جاتی لڑکیوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کا ہویا موٹر سائیکل پر بیٹھی برقعہ پوش کو جسمانی طور پر ہراساں کرنے کا، جن لئے انسان کی وقعت نہیں کوئی، ان کے لئے یہ سب بس کٹے ہی ہیں۔
لیکن اس سب میں ہاتھ بھی انھی کا ہے کہ جو معاشرے کو بس اپنی گرفت میں رکھنے کی خاطر اس کے انحطاط کا اہتمام کرتے ہیں۔ کہانی یہاں ختم ہوتی نہیں کیونکہ جب عائشہ کے معاملے پر ایک اینکر آواز اٹھاتا ہے اس کے حق کے لئے تو ٹویٹر جو آج کا سیاسی اور خبروں کا سب سے بڑا حلقہ ہے، پر اس اینکر کے خلاف ٹرینڈ چلوایا جاتا ہے، اب وجہ لاہور ہے یا کچھ اور وہ آپ اگلے کٹے سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔
کل وزارت خارجہ کا ایک بیان آیا ہے کہ ایک خودکش دھماکے میں دو بچے مقامی پاکستانی جاں بحق اور ایک غیر ملکی زخمی ہوا اور یہ سب ہوا گوادر میں، جی وہی گوادر جہاں مقامی آبادی کو پانی میسر تو نہیں لیکن دنیا کا خوبصورت کرکٹ اسٹیڈیمز میں سے ایک اسٹیڈیم ضرور ہے حفاظتی باڑ کے اندر اندر۔ ہاں تو وہ غیر ملکی اسی ملک سے تعلق رکھتا ہے، جن کی ایک بس کے ساتھ ایک واقعہ پیش آتا ہے تو وزارت خارجہ نہیں، وزیر خارجہ بیان دیتے ہیں کہ ارے وہ تو بس ایک حادثہ تھا لیکن اس ملک کے شدید احتجاج کے باعث ایک دوسرے وزیر کو نہ صرف حقیقت ماننی پڑتی ہے بلکہ پہلے وزیر کو اس ملک جاکر معافی تلافی بھی کرنی پڑ جاتی ہے۔ قیمت اتنی چکانی پڑتی ہے کہ نہ صرف وہ منصوبہ بند کر دیا جاتا ہے بلکہ جس بڑے منصوبے کا وہ حصہ ہوتا ہے، اس کے کرتا دھرتا کو بھی چلتا کرنا پڑتا ہے ۔ اب وہ سر تو خود میں ہی ایک پورا الگ کٹا ہیں۔ چلیں اس سے پہلے کہ کھل جائیں، ہم اگلے کٹے کی جانب چلتے ہیں۔
یکساں تعلیمی نصاب سننے میں بڑا ہی بھلا بلکہ کسی حد تک رومانوی لگتا ہے مگر ایسے ملک جہاں صرف بات کرنے پر آپ اٹھ کر شمالی علاقہ جات کی سیر کو پہنچ جائیں، وہاں اس کا مطلب اصل میں حقیقتوں کو مزید مسخ اور صوبائی آزادی کے پر کاٹنے کے مترادف ہے۔ چونکہ آئین تمام صوبوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ تعلیمی نصاب اپنے مطابق ترتیب دے سکتے ہیں تو یکساں تعلیمی نصاب کی آخر ضرورت کیوں کر محسوس کی گئی اور جب تمام صوبے اس پر متفق نہیں تو پھر اس کو نافذ کرنے کی اتنی جلدی کیوں۔
اب سوال کرنا تو اپنے تئیں ایک قابل اعتراض عمل ٹھہرا مگر جب آپ کو پتہ بھی ہو کہ مسئلہ اردو یا انگریزی سے زیادہ اس پراپیگنڈے کا ہے جو ایک فوجی آمر کے ہاتھوں اس ملک کے پہلے جمہوری حکمران کے عدالتی قتل کو صحیح ثابت کرنے کی توجیح مانگتا ہے۔ خیر اللہ معاف کرے اور سوچنے والوں کو تو زیادہ معاف کرے کہ کہاں جم کے سوال کی جرات کرے۔ میرا خیال ہے کہ آگے بڑھنا ہی بہتر ہے۔
نئی میڈیا اتھارٹی کا قیام بھی اس حکومت کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے، جی اسی حکومت کے لئے جو آئی ہی میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا کے بل بوتے پر۔ وجہ بھی یہی ہے چونکہ اتنی طاقت استعمال کر تو بیٹھے مگر طاقت واپس تھوڑی ہوتی ہے! اب آپ جتنے مرضی ترجمان رکھ لیں اور جتنی مرضی اپنی نااہلی چھپانے کی سعی کریں، لیکن میڈیا کب تک مثبت خبریں چلائے۔ اب آپ جتنے مرضی صحافی کھڈے لین لگائیں، سوشل میڈیا اگر آپ صرف اپنا سمجھتے ہیں تو خام خیالی تو آپ کی ہی ہوئی نا پھر آپ جتنے مرضی بلاگر اٹھائیں، بات رکتی کہاں ہے۔
وہ جب آپ نے 90 دن میں کرپشن، طرز حکمرانی، مہنگائی، نوکریاں، مکان کے ساتھ ساتھ نو پروٹوکول اور نو این آر او کی بڑھکیں ماری ہوں اور حالات یہ ہوجائیں کہ دوائی، چینی، آٹا، توانائی، پٹرول غرض یہ کہ ہر مافیا آپ ہی گنوائیں اور آپ سے ہی این آر او پائیں چاہے عام پاکستانی مہنگائی سے رل جائیں۔ کرپشن کروڑوں سے اربوں میں جا پہنچے، معیشت کا ایسا بیڑہ غرق ہو جائے کہ ہزاروں نوکری سے جائیں مگر آپ کے گوئبلز اور آپ خود بس چین کی بانسری بجائیں اور پھر آپ یہ بھی چاہیں کہ میڈیا تو میڈیا سوشل میڈیا بس آپ ہی کے گن گائے، عائشہ کیس کو دبائے، ساہیوال کیس کو بھول جائے اور آپ کے وعدے بس غائب ہی ہوجائیں اور اس کھلے کٹے کو رام کرنے کو آپ ایک نئی قدغن لگانے کو ترجیح دیں گے مسائل کو حل کرنے کے بجائے تو جناب ایک نیا کٹا ہی کھلا پائیں گے۔
اوہ اب تک کا آخری اور بڑا کٹا تو آپ کے پڑوس میں کھل گیا ہے کہ جس میں آپ کے بھائیوں نے آپ کو سائیڈ پر کرا کر بقلم خود سجنا دور دیا سے معاملات بنا لئے ہیں اور آپ اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کے ذریعے ایسے خارج ہوئے ہیں کہ آپ سے بات کرنا تو دور کی بات، آپ کو بات کرنے کی اجازت تک نہیں مل رہی۔ اب آپ جتنا مرضی یہ کٹا اپنی جانب سے نہ مانیں یا مانیں، حقیقت جلد یا بدیر خود کو منا ہی لیتی ہے۔ اب یہ حقیقت اس دفعہ کتنے پاکستانیوں کا خون پئے گی، وقت ہی بتائے گا باقی اس دفعہ سجنا دور دیا سے ڈالر مشکل ہی آئے گا، یہ تو صاف ظاہر ہے جیسا کہ عاشورہ کے دوران مختلف مقامات پر حملے ہوئے!
خیر حرف آخر وہی ہے جو حرف ابتدا تھا کہ معاشرتی اقدار کو پنپنے کے لئے معاشرے کا ارتقا بنیادی شرط ہے اور اس شرط کو آپ ریاست کو اس کی اساس سے الگ کر کے پوری کر ہی نہیں سکتے سو اب بھی اگر صاحب اختیار اپنے صفحے کو تاریخ کے مطابق نہ لائے تو خدانخواستہ بہت نقصان ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی