دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مجھے دفن کرنے کی بجائے راکھ میں بدل دیجیے گا!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

اماں، میری وصیت ہے کہ مجھے مرنے کے بعد دفن کرنے کی بجائے میرے جسم کو راکھ میں بدل دیجیے گا تاکہ میرا مردہ جسم کسی ہوس کے مارے کا شکار نہ بنے” وہ رو رہی تھی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صاحبان دانش، جی چاہتا ہے کہ آج ذوق کی مدح سرائی کی جائے جنہوں نے نہ جانے کیسے بھانپ لیا کہ آنے والے زمانوں کی چیرہ دستیوں میں گھری عورت کی فریاد کیا ہو گی؟

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

ہمیں استاد ذوق کی یاد کچھ کمنٹس پڑھ کے آئی ہے آپ بھی دیکھ لیجیے

"میری ماں کہتی ہیں کہ عورت دفن ہونے کے ایک ہفتے بعد تک غیر محفوظ رہتی ہے”

"یہاں تو قبر میں لیٹی ہوئی عورت محفوظ نہیں۔ میں نے گنہگار آنکھوں اور کانوں سے ایک مومن کو یہ کہتے دیکھا اور سنا کہ گھر والوں کو چاہیے تھا دفن کر کے ہفتہ دو ہفتہ حفاظت کے لئے پہرہ دیتے”

کبوتر کی طرح آنکھیں بند لینے والے ان خدشات کو مبالغہ آرائی سمجھتے ہیں لیکن اصل میں یہ ایسی ڈھکی چھپی حقیقت ہے جس سے ہر کوئی آنکھ چرانا ہی بہتر سمجھتا ہے۔

چودہ اگست کو لاہور میں عائشہ اکرم کے جسم سے بڑی بے رحمی سے کھیل کھیلا گیا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو عائشہ سے ہمدردی نہیں کہ ان کے خیال میں آزاد خیال، بے باک اور بے حیا ٹک ٹاکر اسی سلوک کی مستحق تھی۔

 اس انداز فکر کے حامیوں کو ہم ایک چودہ سالہ بچی کی کہانی سنانا چاہتے ہیں جس نے ٹک ٹاک وڈیوز کے ذریعے نہ تو سنسنی پھیلائی نہ ہی کوئی معنی خیز پیغام فینز تک بھیجا۔ نہ ہی جذبات برانگیخته کرنے والا لباس پہنا اور نہ ہی دوستوں کے جلو میں مینار پاکستان پہنچی۔ نہ تو اسے ڈھیروں لائیکس کی تمنا تھی اور نہ ہی کوئی اور ایجنڈا۔

چودہ اگست منانے کی تیاریاں کرتی ہوئی وہ چودہ برس کی الہڑ لڑکی کسی بیماری کا شکار ہوئی، چٹ پٹ ہو کر شہر خموشاں جا پہنچی اور منوں مٹی کے نیچے ٹھکانہ بنا لیا۔

زندگی کو خدا حافظ کہہ دینے کے بعد کی پہلی رات، سائیں سائیں کرتا قبرستان، جنگلی جانوروں کی آوازیں، برف سا سرد جسم، قبر کی ٹھنڈی دیواریں، تنہائی، خاموشی، تاریکی، اپنوں سے بچھڑنے کا غم، قبر کی وحشت!

لیکن اس سنسان گوشے میں کچھ اور بھی ایسا تھا جو دل کو گرفت میں لینے کو تھا!

چپکے چپکے چلتے ہوئے کچھ سائے، کدالیں ہاتھ میں تھامے، اپنی خباثت پہ نازاں ایک عورت سے اس کے عورت ہونے کا خراج لینے کا احساس ان کے رگ وپے میں مستی بن کر دوڑتا تھا۔

وہ دنیا سے رخصت ہو چکی، سانس اور حرکت قلب کب سے تھم چکی، مگر پروا کسے تھی؟ جسم میں کچھ گداز اور کچھ لچک تو ہو گی نا، کھیلنے کے لئے ویجائنا چاہیے بے شک وہ قبر میں لیٹی ہوئی عورت ہی کی کیوں نہ ہو!

قبر کھودی جاتی ہے ، بچی کی لاش نکالی جاتی ہے، کفن اتار کے ایک طرف رکھا جاتا ہے اور بربریت کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ ایک مردہ بچی کو نوچنے کھسوٹنے کا کھیل، مردانگی پہ نازاں، طاقت کے نشے میں سرشار چند بدمست مرد اپنے آپ کو حاکم سمجھنے پہ بضد!

بے لباس بچی ساکت پڑی ہے، مردہ جسم داغدار ہو رہا ہے، بے بس چاند بادلوں کی اوٹ میں منہ چھپا چکا ہے۔ ستارے عورت کی اس ذلت پہ سسک رہے ہیں، آسمانوں کے اوپر سناٹا چھایا ہے، ہوس کے پجاری ناچ رہے ہیں۔

دور، کہیں بہت دور بچی کی روح اپنے جسم کی بے حرمتی پہ لرزاں سوچ رہی ہے کہ اس رات میں تو رب کی وحدانیت کا اقرار لینے کے لئے منکیر نکیر قبر میں آیا کرتے ہیں، یہ مجھے کس گناہ کی سزا ملی؟

غم سے بے حال والدین پہ رات بھاری ہے۔ وہ بچی جو کل تک ماں سے لپٹ کر سوتی تھی، اب شہر خموشاں میں تن تنہا جا لیٹی ہے۔ دکھ سے نڈھال بے بس ماں باپ چہیتی بیٹی کے پاس علی الصبح جا پہنچتے ہیں۔ قبر کھلی پڑی ہے اور لاش غائب ہے۔

اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے سوچیے کہ ماں باپ پہ کیا گزری ہو گی؟ ان کی لخت جگر دنیا سے رخصت ہو کے بھی محفوظ نہ رہ سکی۔ لاش زخم زخم حالت میں قریبی جھاڑیوں میں سے ملی۔ ظاہری ڈھانچہ قیامت گزرنے کی کہانی سناتا تھا اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اپنے الفاظ کی سنگینی سے آنکھیں چراتی تھی!

اخبار ہاتھ میں تھامے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں اور لرزتی آواز کے ساتھ ہماری بیٹی شکوہ کناں تھی،

“اماں! کیوں؟ آخر کیوں؟ مرنے کے بعد بھی عورت کو اس عذاب سے کیوں گزرنا ہے آخر؟ وہ تو بچی تھی اماں پھر کیوں؟

وہ سب جو عورت کی آنکھ کا تنکا برداشت نہیں کرتے، جو ہر بے راہ روی کا ذمہ دار عورت کو ٹھہراتے ہیں، ان سے پوچھیے کہ قبر میں لیٹی ہوئی اس بچی نے ایسا کیا کیا کہ ریپ کرنے والے ایک مردہ جسم کے سامنے بھی اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکے۔

اماں، میری وصیت ہے کہ مجھے مرنے کے بعد دفن کرنے کی بجائے میرے جسم کو راکھ میں بدل دیجیے گا تاکہ میرا مردہ جسم کسی ہوس کے مارے کا شکار نہ بنے” وہ رو رہی تھی۔

اضطراب، شرمندگی اور رنج وغم ہماری قوت گویائی سلب کر چکا تھا ورنہ ہم اسے کہتے کہ یہ خواہش تو ہماری بھی ہے۔ ہم بھی اپنے جسم کو بھیڑیوں کا شکار بننے سے بچانا چاہتے ہیں۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ خلق کرنے والا رب قادر ہے کہ ہماری راکھ کو سمیٹ کر جو چاہے، بنا دے۔

About The Author