گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بیجنگ سے ہوائی جہاز میں سوار ہو کر کراچی پہنچنا تھا۔ میں بیجنگ ائیر پورٹ پر ایک بہت لمبی قطار میں کھڑا بورڈنگ کارڈ لینے کے لیے کاونٹر کی طرف آگے بڑھ رہا تھا ۔میری دائیں اور بائیں جانب بھی اتنی ہی لمبی قطاریں تھیں۔لیکن ان قطاروں کی خاص بات یہ تھی کہ میرے ہر طرف ہر رنگ ہر نسل ہر مذھب ہر ملک کے لوگ کھڑے تھے۔ ان کی زبانیں بھی مختلف تھیں اور ایک دوسرے سے محو گفتگو تھے۔
مجھے انگریزی آتی تھی اس لیے صرف انگریزی بولنے والوں سے گفتگو کر سکتا تھا کیونکہ ٹایم پاس کرنا تھا۔میرے آگے اٹلی کا ایک سیاح تھا۔اس کی انگریزی اگرچہ میری طرح کمزور تھی مگر فنکشنل تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا تو میں نے بتایا میں پاکستانی ہوں اور اس کے ملک روم اور میلانو دیکھ چکا ہوں وہ بہت خوش ہوا ۔پھر وہ مجھے چین کے سیاحتی مقامات کی کہانی سنانے لگا اور مجھ سے پوچھتا کہ میں وہاں گیا ہوں کہ نہیں۔
میرے دائیں جانب والی قطار میں ایک یہودی اور ساوتھ افریکن انگریزی میں محو گفتگو تھے اور بائیں جانب ایک لمبے چغے میں ملبوس عیسائی پادری اور فرانسیسی خاتون بات چیت میں مگن تھے۔ دور تک قطار میں طرح طرح کے لوگ تھے اور کاونٹر میں بیٹھی تین چینی لڑکیاں ان سب کو کنٹرول کر رہی تھیں۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ سب ہنس رہے تھے قہقہے لگا رہے تھے۔کھڑکی سے بورڈنگ کارڈ لینے کے بعد ایک بہت لمبی الیکٹرک سیڑھی تھی جو ائیر پورٹ کے اندر بس کے قریب لے گئی اور بس نے جہاز کے ساتھ اتار دیا۔
جہاز میں سوار ہو کے جب جہاز نے تھوڑا فاصلہ طے کیا اور ٹیک آف کرنے کے لیے رکا تو میرے دائیں اور بائیں جانب دو اور جہاز ایک ہی ٹایم پر ایک سمت دوڑنے کے لیے کھڑے تھے اور ہمارے جہاز کے ساتھ دوڑنے لگے ۔مجھے خوف آنے لگا میں نے تین جہاز ایک سمت دوڑتے پہلی دفعہ دیکھے تھے ۔ جب ہمارا جہاز زمین کو چھوڑ کر ہوا میں بلند ہوا تو وہ دونوں جہاز بھی بلند ہوے اور ہم سیدھے اوپر کی طرف بلند ہونے لگے اور ان دو جہازوں کا رخ اپنی دائیں اور بائیں جانب ہو گیا اور ہم دور ہوتے چلے گیے تو میں پرسکون ہوا۔
تقریبا” چار سو مسافر اس ائیر بس میں سوار تھے ہم نے اکٹھے کھانا کھایا گپیں لگائیں ایک دوسرے کے کلچر و ثقافت کی باتیں ہوئی پھر لمبی فلائٹ تھی نیند آنے لگی۔میں کھڑکی سے باہر دیکھتا تو وسیع آسمان اور بادل نظر آتا۔میرا دماغ گھومنے لگا مجھے اپنا شھر ڈیرہ اور اپنا گاٶں یاد آنے لگا۔ مجھے شدت سے احساس ہونے لگا کہ جب اس جہاذ کا پائلٹ دنیا کے مختلف مذاہب قوم و ملک کے لوگوں کو پیار و محبت سے بٹھاۓ سفر کر رہا ہے تو ہمارے شھر کے مختلف قسم کے مسالک و قوموں کے لوگ اس طرح زندگی کا خوشگوار سفر کیوں نہیں کر سکتے۔
خیر کراچی پہچنے پر میرا ایک دوست مجھے ریسیو کر کے گھر لے گیا اور رات کو ایک فلم دیکھنے کا پروگرام بن گیا۔جب سینما میں بیٹھا تو میرے ارد گرد پھر ہر فرقے ہر زبان کے لوگ بیٹھے تھے۔ایک دفعہ پھر میرے دماغ میں وہی سوال ابھرا کہ اس سینما والے میں کیا خوبی ہے کہ ہم سے پیسے بھی لیے مگر ہر فرقے ہر زبان ہر علاقے کے لوگوں ایک جگہ امن سے بٹھا دیے۔ دوسرے دن اسلام آباد جہاز کے ذریعے پہنچا تو پھر یہ خیال نمودار ہوا۔اسلام آباد سے ڈائیوو بس کے اندر بھی جتنے مسافر تھے سب جدا جدا زبان شھراور مسالک والے تھے اور ہنسی خوشی سفر کر رہے تھے ۔سب کو ایک ڈرائیور اور ہوسٹس کنٹرول کرتے رہے۔
میں ایسے بے معنی سوالوں میں غرق تھا تو سوچا لمبا سفر ہے کوئی کتاب پڑھ لوں ۔سفر میں کتابیں پڑھنے کی عادت بچپن میں ریل سے شروع ہوئی اس لیے بیگ میں ایک دو کتابیں ساتھ رکھتا ہوں۔ کتاب نکال کے ورق گردانی شروع کی تو ایک چھوٹی کہانی ۔۔خدا کی تلاش ۔ سامنے آ گئی۔ کہانی یہ تھی۔۔ایک بہت پرانے مندر کی چھت پر کبوتروں کی ایک ٹکڑی رہتی تھی۔ مندر کی تعمیر نو شروع ہوئ تو یہ اپنے بچوں سمیت ساتھ والے گرجے کی چھت پر جا بیٹھے وہاں رہنے والے کبوتروں نے انہیں خوش آمدید کہا اور وہ انکے ساتھ ہنسی خوشی رھنے لگے۔
کرسمس آیا تو گرجے کی وائیڈ واش شروع ہو گئ اور سارے کبوتر قریبی مسجد کے میناروں پر آ گۓ۔ یہاں کے کبوتروں نے بھی انہیں قبول کر لیا اور چل سو چل۔
رمضان کے مہینے میں مسجد کا رنگ شروع ہوا تو سارے کبوتر واپس مندر آگۓ کیونکہ یہ تعمیر ہو چکا تھا۔
ایک دن مندر کے قریب مذھبی ہنگامے پھوٹ پڑے اور ہندو مسلم عیسائ ایک دوسرے کو مارنے لگے۔کبوتر کے بچے نے ماں سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ماں نے کہا یہ انسان ہیں۔سوال ہوا یہ کیوں لڑرھے ہیں؟ ماں نے بتایا مندر والے اپنے آپکو ہندو کہتے ہیں ۔ مسجد والے مسلمان اور گرجے والے عیسائ یہ اس بات پہ ایک دوسرے کو قتل کر رھے ہیں۔
کبوتر کے بچے نے ماں سے کہا جب ہم مندر سے گرجے گۓ ہم کبوتر کہلاۓ جب مسجد گۓ پھر بھی کبوتر اور اب مندر میں بھی کبوتر۔۔۔یہ انسان کہلاتے ہیں پھر یہ تین جگہوں پر جا کر انسان کیوں نہیں رھے؟
ماں نے کہا دیکھو یہ خدا کی تلاش میں ضرور ہیں لیکن خدا کی پہچان سے بہت دور ہیں ۔ہم کبوتر خدا کو پہچان چُکے اس لۓ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں جب انسان خدا کو پہچان لینگے تو قتل رک جائےگا۔ فی الحال ہم کبوتر انسانوں سے بہترمقام رکھتے ہیں۔۔یہ کہانی پڑھ کر مجھے بیجنگ سے ڈیرہ تک ایک الجھے سوال کا جواب مل گیا اور جب میں ڈیرہ بس سے اترا تو مجھے اپنا گاوں وہ خدا کی بستی نظر آنے لگا جس میں پھل فروٹ تھے باغات تھے محبت تھی پیار تھا امن تھا اتحاد تھا سب کچھ تھا مگر ہمیں حکم تھا کہ فرقہ بندی کے درخت کو نہ چھونا گروہ گروہ مت بننا۔پھر کچھ میرے جیسے نادان پیدا ہوۓ انہوں نے چار جماعتیں اور کچا پکا علم سیکھا اور غرور تکبر کا شکار ہو گیے اور وہ سب کچھ کرنے لگے جس سے منع کیا گیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا ہم سے پیار محبت والی خدا کی بستی چھن گیی ۔اب ہم اس دیس کے باسی ہیں جہاں نفرتیں خوف ڈیپریشن ہوس کرپشن جرایم کی گنگا بہتی ہے اور آگ سلگتی رہتی ہے ۔دعا کیا کریں پیار محبت انصاف اور لدے ہوے میٹھے پھلوں والی خدا کی بستی ہمیں واپس مل جاۓ۔آمین
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر