جام ایم ڈی گانگا
03006707148
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
?
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار اور ان کے چھوٹے صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے اپنے موجودہ تین سالہ دور اقتدار میں پہلی مرتبہ اپنے آبائی گاؤں میانوالی قریشیاں اور ضلع رحیم یارخان کا طویل پانچ روزہ عوامی دورہ کیا.ویسے اس سے قبل وہ یہاں آتے تو رہے مگر اُن کے آنے اور جانے کا چند مخصوص لوگوں کے سوا کسی کو پتہ نہیں ہوتا تھا.ایک کورونا کا خوف اور دوسرا پیسے لے کر ووٹ دینے والے سرداروں اور عوام سے الرجک.اپنے حالیہ دروے کے دوران دونوں وزراء بھائیوں نے مختلف مخصوص وفود سے ملاقاتوں کے علاوہ خان پور میں ایک بڑے جلسہ عام سے بھی خطاب کیا. روہی چولستان میں ایک علاقے کے ایک جاگیردار فقیر کی خصوصی دعوت پر بھی تشریف لے گئے. جھنوں نے مخادیم صاحبان سے روہی کے علاقے کی چیدہ چیدہ سیاسی و سماجی شخصیات سے چیئرمین اور سابق ناظمین وغیرہ کی ان سے خصوصی ملاقات کروانی تھی تاکہ مستقبل میں آنے والے الیکشن کے لیے ابھی سے راہ ہموار اور فضا سازگار بنائی جا سکے.وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار بڑے فاتحانہ انداز میں جب وہاں پہنچے تو وہاں صورت حال یکسر مختلف تھی.جو دعوے کیے گئے تھے حالات اس کے برعکس تھے.جس کا اثر یہ ہوا کہ مخدوم خسرو بختیار جن کا وہاں بیھٹنے اور سیاسی جوڑ توڑ کا پروگرام تھا. کچھ ترقیاتی کاموں اور منصوبہ جات کا اعلان بھی کرنا تھا.وہ وہاں زیادہ دیر نہ ٹھہرے بلکہ جلدی جلدی دعائے خیر مانگی اور واپسی کی راہ لی. بڑے لوگوں کی ناراضگی کے اظہار کا یہ بھی ایک امیرانہ طریقہ ہے.واہ عبداللہ فقیر واہ ڈیکھ گھدی اے تیڈی فقیری وی تے تیڈا نیٹ ورک وی. مخدوم خسرو بختیار دل ہی دل میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آئے.دراصل جھنڈی والے کے ساتھ ساتھ ہمارے دیس اور معاشرے میں ڈنڈی والے بھی ہوتے ہیں ایسی ڈنڈی مارتے ہیں کہ کام ہی الٹ جاتا ہے.
خان پور میں روہی کے نئے راجے میرا مطلب پی ٹی آئی کے سرگرم نوجوان راجہ محمد سلیم نے ایک بڑے سیاسی جلسے کا اہتمام کر رکھا تھا. اس پروگرام میں سرائیکی، سرائیکی صوبے اور تعصب کی تعریف و تشریح اور مظمرات کے حوالے جو کچھ مخدوم خسرو بختیار نے بیان کیا میں یہاں اسے زیر بحث نہیں لانا چاہتا کیونکہ یہ بحث خاصی طویل ہے. جس پر علیحدہ سے بات ہوگی. ویسے یہ معاملہ خان پور سے تعلق رکھنے والے جناب ظہور احمد دھریجہ، راشد عزیز بھٹہ، مجاہد جتوئی، نور احمد تھہیم انصاری،قلم کے مزدور حبیب اللہ خیال،طارق خان جتوئی، سردار ارشد خان جتوئی وغیرہ پر چھوڑنا چاہتا ہوں.خاص طور پر سیاستدانوں کے پتلے جلانے والے راشد عزیز بھٹہ کا تو یقینا ایک بڑا امتحان شروع ہو چکا ہے. وہ جس بلا کو باہر جا کر ہکلے دیتا پھر رہا تھا وہ بلا اب اس کے اپنے گھر خان پور میں آن اتری ہے.وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کے الفاظ میں اتنا ہی کہوں گا کہ بس گھبرانا نہیں ہے.
مخدوم خسرو بختیار نے خان پور کے حلقہ این اے 176سے آئندہ الیکشن میں خود الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے. یاد رہے کہ مخدوم خسرو نے گذشتہ الیکشن میں بھی اس حلقے سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے. اس حلقے اور شہر سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری میاں عبدالستار نے درمیان میں اچانک ایسی سیاسی چال چلی کہ مخدوم خسرو بختیار نے گھبرا کر وہاں سے باعزت واپسی ہی میں اپنی عافیت سمجھی.دراصل سابق صوبائی وزیر چودھری اعجاز شفیع اپنے سیاسی استاد میاں عبدالستار کے سیاسی چکر میں آگیا تھا.نتیجۃً کہیں کا بھی نہ رہا. ماضی کی اس سیاسی چکر کی کہانی کی بجائے مستقبل کے متوقع سیاسی منظر نامے پر کچھ بات کرنا چاہتا ہوں. کوئی مانے یا نہ مانے اس وقت ضلع رحیم یار خان میں وزراء بھائیوں مخدوم خسرو بختیار اور مخدوم ہاشم جواں بخت کے طوطے اور طوطیاں دونوں خوب بول رہی ہیں بلکہ وج گج رہی ہیں.خان پور کے قومی اسمبلی کے اس حلقے کے سیاسی پس منظر کا مشاہدہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ یہاں سے اکثر باہر سے آنے والے صاحبان ہی کامیاب ہوتے رہے ہیں. شاید یہی وجہ ہے کہ آجکل خان پور میں فرزندان خان پور کی بہتات ہے. کوئی بابائے خان پور، داداِخانپور وغیرہ نہیں ہے. ایم این اے شیخ فیاض الدین بھی چاچائے خان پور ہیں.اب دیکھیں آنے والے الیکشن میں چاچے کی چلتی ہے یا بھتیجے کی.پہلی بات تو یہ ہے کہ دو بڑے سرمایہ دار و صنعتکار سیاستدانوں کا باہم سیاسی ٹکراؤ اور مقابلہ ہوگا یا نہیں? مخدوم خسرو بختیار کا خان پور سے الیکشن لڑنے کا اعلان محض سیاسی چال ہے یا حقیقت?. اس بارے تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا. مخدوم خسرو بختیار کا خان پور سے الیکشن لڑنے کا اعلان نہ صرف پی ٹی آئی کے اہم رہنما و سابق ٹکٹ ہولڈر میاں غوث محمد کے لیے بلکہ تمام میاں لاڑ برادران کے لیے ایک بڑا سیاسی امتحان و آزمائش ہے.یہ الیکشن چودھری اعجاز شفیع اینڈ کمپنی کے سیاسی مستقبل کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہوگا. موجودہ قومی سیاست کے حالات کی روشنی مسلم لیگ ن کا مستقبل تو انتہائی مخدوش دکھائی دے رہا ہے. ویسے بھی خان پور میں ان کے رشتے دار چودھری ارشد جاوید گذشتہ الیکشن میں ہی خالی جگہ پُر کر چکے ہیں. چودھری اعجاز شفیع کو مخدوم خسرو بختیار گروپ یا پیپلز پارٹی مخدوم احمد محمود میں سے کسی ایک کے ساتھ مل کر الیکشن کے میدان میں اترنا پڑے گا.نہ جانے میاں عبدالستار نے کس کے اشارے پر اور کس زعم میں آکر این اے 177سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کی باتیں شروع کر دی ہیں.ویسے پاکستان کے کسی بھی علاقے اور حلقے سے کسی کے الیکشن لڑنے پر کوئی پابندی نہیں ہے. جو جہاں سے چاہے الیکشن میں حصہ لے سکتا. یاد رہے کہ آنے والے الیکشن سے قبل قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے موجودہ انتخابی حلقہ جات میں تبدیلیوں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے. ہو سکتا ہے مذکورہ بالا اعلانات کی سیاست اپنے اپنے کچھ من پسند علاقوں کو اِدھر اُدھر کروانا ہو.خان پور سے الیکشن لڑنے کی صورت میں مخدوم خسرو بختیار کو اپنے کزن پیپلز پارٹی کے رہنما سابق وزیر خزانہ مخدوم شہاب الدین کی بھی بھر پور سپورٹ میسر ہو گی. یہ دونوں صاحبان گذشتہ قومی اور ضمنی الیکشن کے علاوہ بلدیاتی الیکشن میں بھی پارٹی ڈسپلن کو صندوقچی میں بند کرکے ایک دوسرے کو سپورٹ کر چکے ہیں.چودھری اعجاز شفیع کے ونگ بن جانے کی صورت میں مخدوم خسرو بختیار کے لیے این اے176جیتنا کوئی زیادہ مشکل نہ ہوگا. اگر چہ میاں عبدالستار میاں غوث محمد میاں شفیع متحد ہو کر میدان میں آئیں تب بھی مخدوم خسرو بختیار سیاسی طور پر انہیں لتاڑ دے گا.شوگر ملز کی چینی سے کمائے ہوئے پیسے کا مقابلہ کرنا لاڑ برادران کا کام نہیں ہے.میاں ستار کے این اے 177سے الیکشن میں حصہ لینے کی صورت میں پی پی 258پر مخدوم خسرو بختیار کا صوبائی ونگ میاں شفیع محمد نہیں کوئی اور ہوگا. زیادہ چانس تو یہی ہے کہ میانوالی قریشیاں ہی کا کوئی مخدوم ہوگا. جہاں تک کسی دوسرے کی لاٹری نکلنے والی بات کا تعلق ہے. وہ اس لیے مشکل ہے کہ حلقے میں ووٹ بینک رکھنے والی اکثر برادریوں کے سردار اور چیدہ چیدہ افراد کو مخدوم خسرو بختیار نے اپنے صنعتی اداروں میں تنخواہ پر سیاسی ملازم رکھا ہوا ہے.اپنے بچوں کی رزق روٹی ضائع کرکے بھلا کون اپنے گھر سے پیسہ لگا کر جرات کرکے میدان میں اپنے باس کا سامنا کرے گا.مخدوم خسرو بختیار نے ایک بلیک اور ایک ریڈ بک بنا رکھی جس میں سب کے راز، کمزوریاں،شاہ زوریاں سمیت بہت سی دیگر معلومات اور نیٹ ورک وغیرہ بارے درج ہے.عوام کی نفسیات کو اچھے طریقے سے سمجھنے اور ڈیل کرنے والا شاطر قسم کا سیاست دان ہے. این اے 177میں مخدوم خسرو بختیار کا مقابلہ مخدوم احمد محمود کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا.لیکن ماضی میں اس حلقے میں پھول کے نشان پر غیر سنجیدگی سے لڑے جانے والے الیکشن اور بعد ازاں تقریبا عدم عوامی رابطے کی وجہ سے مخدوم احمد محمود کو لوگوں میں اپنا اعتماد بحال کرنے میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا. این اے 176 میں جہاں تک شیخ فیاض الدین کا تعلق ہے مسلسل دو بار ایم این اے بن جانے اور پھر مسلم ن کے زوال کی صورت میں ان کے لیے حالات مشکل ہوں گے.انہیں خان پور میں سکے کی بجائے مترایا فرزند تصور کیا جائے گا.یہ بھی ہو سکتا ہے چودھری اعجاز شفیع کے ساتھ معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں خان پور شہر میں شیخ فیاض الدین کا بیٹا شیخ عماد الدین مخدوم خسرو بختیار کا صوبائی ونگ ہو.یہ پینل بھی مضبوط ہوگا. راجہ صاحب کا کردار اگلے الیکشن میں بھی پنجاب کے راجہ صاحب والا ہی دکھائی دے رہا ہے بہرحال راجہ بازار کا رونق میلہ لگا ہی رہے گا یہ نوجواں لگا رہا محنت کرتا رہا تو آگے کسی وقت بھی انہیں چانس مل سکتا ہے.ظاہر پیر کے صوبائی حلقے پی پی259 کو مخادیم میانوالی قریشیاں نے بڑی پلاننگ کے تحت سابق صوبائی پارلیمانی سیکرٹری سردار محمد نواز خان سے چھینا ہے. اس بار اس بات کا بھی غالب امکان ہے کہ اگلے الیکشن میں پی پی 258گڑھی اختیار خان کا حلقہ مخادیم میانوالی قریشیاں چھیننے کے مکمل موڈ میں ہیں. وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار نے صادق آباد میں کسی کو الیکشن لڑوانے کا اعلان کیا ہے. بات یہ کہ جب الیکشن ہوگا تو کوئی نہ کوئی تو الیکشن ضرور لڑے گا. یہ لڑنے لڑوانے کے اعلانات اقتدار اور طاقت،نیشنل کنگ میکر طاقتوں سے تعلقات کا گھمنڈ، ملک میں مداخلت کرنے اور اثر انداز ہونے والی انٹرنیشنل لابیوں تک پہنچ و رسائی،اپنے مضبوط و پائیدار سیاسی و سماجی ذاتی نیٹ ورک کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں.مخدوم خسرو بختیار کے یہ اعلانات اس بات کا اشارہ ہیں کہ ضلع رحیم یارخان میں مستقبل کا کنگ میکر کوئی اور نہیں میں ہی ہوں.
یہ بھی پڑھیے:
مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر