ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہیے کہ خطے میں جادو کی چھڑی گھوم چکی، طلسم ہوشربا کے دروازے کھل چکے اور ایک نہایت بدصورت اور خوفناک مخلوق آزاد ہو چکی۔ ہر طرف آزادی اور اختیار سے بلا جھجک گھومتی، ناک سکیڑے سونگھنے کی بھرپور کوشش، عیار آنکھیں گول گول گھماتی، شکار کو ڈھونڈتی، منمناتی آوازیں!
” عورت بو، عورت بو“
کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کیا کریں؟
ہنسیں، چیخ و پکار کریں، پھوٹ پھوٹ کر روئیں یا سر میں خاک ڈال کر گریہ کرتے ہوئے صف ماتم بچھائیں؟
جو مناظر ان آنکھوں نے دیکھے ہیں ان کے بعد بہت سے سوال نیزے کی انی بن کر سینے میں گڑ گئے ہیں اور ان میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیوں؟ ایسا کیوں؟ کس لئے؟
چار سو مردوں کا ایک لڑکی کو نرغے میں لے کر نوچنا کھسوٹنا، بے لباس کرنا اور اس کے جسم کو مال مفت سمجھ کے بانٹنا، کیا کسی کربلا سے کم ہے؟
ہم یہ سوچنے پہ مجبور ہیں کہ کیا یہ مرد انسان تھے، بھیڑیے یا گلیوں میں پھرنے والے آوارہ کتے؟ یہ کیسی بھوک تھی جو انہیں بے قرار کیے دے رہی تھی؟ وہ کون سی خواہش تھی جو انہیں اکسائے پھرتی تھی؟
ہمیں حقیقتاً سمجھ نہیں آ رہا کہ ہم ان لوگوں کو کیا سمجھیں؟ غیر ملکی حملہ آور؟ یہ کیا کرنے پہ تلے ہوئے تھے؟ وحشت کی آگ میں بھڑکتے ہوئے یہ جنگلی ایک جیتی جاگتی عورت کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کیا ثابت کرنا چاہ رہے تھے؟ اسلام کے نام پر لیا گیا ملک، نظریاتی مینار کا سایہ اور ایک عورت کا ننگ دھڑنگ جسم پہ چار سو جری مردوں کی بھوکی نظریں اور بے چین ہاتھ، نئے پاکستان کا ایک کریہہ منظر!
کیا دیکھنا چاہتے تھے وہ سب؟ ایسا انوکھا کیا تھا اس عورت کے جسم میں جسے دیکھنے کے لئے آپے سے باہر ہوتے مرد ایک دوسرے پر بازی لے جانا چاہتے تھے اور جس کا نشہ ہر عمر کے مرد کے سر پہ چڑھ کے بول رہا تھا۔
پستان؟ کیا ویسے ہی پستان جن سے ان کی ماؤں نے انہیں دودھ پلا پلا کر پالا تھا۔ کیا خبر تھی انہیں کہ بھوکے سانپوں کو زندگی دے رہی ہیں۔ اور شاید ویسے پستان جن سے ان کی بیویاں ان کی اولادوں کو خوراک دیتی ہیں لیکن نہیں جانتیں کہ سنپولیے ان کی کوکھ میں اگ رہے ہیں۔
اور کیا دیکھنا چاہتے تھے پاکستان کے یہ بہادر جوان ایک عورت کے جسم میں؟ اندام نہانی ( ویجائنا) ؟
ویسی ہی ویجائنا جو ان کی ماؤں کے جسموں میں بھی تھی اور جس کے راستے یہ سب دنیا میں تشریف لائے۔ اور ویسی ہی ویجائنا جو ان کی بیویوں کے جسم میں بھی ہے جس میں ان کی آئندہ نسل کا بیج بویا جاتا ہے اور اس کھیتی کو کواڑوں میں مقفل کر کے یہ وحشی عورت بو کہتے ہوئے شہر میں پھیل جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ تو کچھ بھی انوکھا اور مختلف نہیں ہوتا عورت کے جسم میں!
ویسے پاکستان میں ہر طرف ناچتی وحشت کو دیکھ کر ہمیں ایک نادر خیال آیا ہے۔ جب ایک نظریے کی یاد میں مینار پاکستان تعمیر کیا جا سکتا ہے تو بربریت کے اس کھیل کی یادگار بھی بنانی چاہیے تاکہ ان سب عورتوں کی عقل ٹھکانے آئے جو بھیڑیوں کی کچھار میں گھس آنے کی غلطی کرتی ہیں۔ وہ بھیڑیے جن کو بعد از موت بہتر حوروں کی نوید اور جہاد کے بعد ہر عورت ان کی ملکیت ہونے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ طلب اور دیوانگی، بھوک بن کر رقص کرتی ہے اور انسانیت بلکتی رہ جاتی ہے۔
مولانا طارق جمیل کو مبارک باد کہ حوروں کے جسم، خوبصورتی، ملبوسات اور جنسی تعلقات سے بھرے خطبات نے ملک کے نوجوانوں کی رگ رگ میں آتش فشاں بھڑکا دیا ہے۔
مولانا طارق مسعود کو بھی داد تحسین کہ ظرافت سے بھری، چار چار برس کی بچیوں سے جنسی حظ اٹھانے کی تلقین ہر عمر کے مردوں کو خوب بھائی ہے۔
ریاست مدینہ کے والی بھی شاباشی کے مستحق ہیں جنہوں نے مردوں کی نفسیات کا سرا عورت کے لباس سے جوڑ کے بپھرے ہوئے بھیڑیوں کو مزید ہلا شیری دی ہے جنہیں ان کی توجیہہ نے اس قدر بے خوف بنا دیا ہے کہ گنجان شہر کے وسط اور دن کے اجالے میں کسی ایک کو بھی ریاست اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ایک لمحے کے لئے بھی ڈر نہیں لگا۔
وطن عزیز کے ان تمام مردوں کو بھی تمغہ غیرت لازمی ملنا چاہیے جو عورت کو فساد کی جڑ سمجھتے ہوئے اس پہ لعن طعن اور یہ سوال پوچھنے سے کبھی نہیں چوکتے کہ رات کو باہر کیوں نکلی؟ پارک میں کیوں گئی؟ یہ سوال نشان دہی کرتا ہے کہ پدرسری معاشرہ عورت کو اس انسانی آزادی کا حق نہیں دیتا جو مرد کو بائی ڈیفالٹ ملتی ہے۔ عورت زنجیر میں باندھ کے رکھنے کے قابل ہے اور زنجیر کی حدود کی خلاف ورزی کی سزا تو ملے گی ہی۔
ہم پاکستان کی تمام عورتوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں۔ اس عورت کو جو اپنے آپ کو انسان سمجھ کر اسی حق اور آزادی کے ساتھ جینا چاہتی ہے جو معاشرے کے مرد کے حصے میں آئی ہے، کہ خدارا اس ملک سے ویسے ہی ہجرت کر جائیں جیسے ہمسایہ ملک کے عوام دنیا کے دروازے پہ جھولی پھیلائے کھڑے ہیں۔ جان لیجیے کہ جب دھرتی میں سیم و تھور پھیل کر اسے بنجر بنانے لگیں تو سرحدیں راستہ نہیں روکا کرتیں۔
دوسرا پیغام ان عورتوں کے لئے جو انسانی حقوق کو اہم نہیں سمجھتیں اور مرد کے ہر حکم پہ آمنا و صدقنا کہتی ہیں، کہ ابھی سے ایک ٹوپی برقعہ سلوا رکھیں، کہ طوفان کی آہٹ نہ صرف قریب سے سنائی دے رہی ہے بلکہ عورت بو کی صدا فضاؤں میں گونج رہی ہے۔
پاکستان کو دنیا میں عظیم ترین اور اسلام کا قلعہ سمجھنے والوں کو پاکستان میں تیزی سے پنپنے والے اس ناسور پہ مبارک باد!
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر