گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ ڈیرہ سے باہر دوستوں سے ملنے جائیں تو اکثر آپ ڈیرہ کی سوغات سوہن حلوہ لے کر جاتے ہیں کیونکہ ان کی فرمائش بھی یہی ہوتی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان جب 1825-26
میں اس موجودہ جگہ تعمیر ہوا تو اس وقت اس کی آبادی تقریبا” 35 ھزار نفوس پر مشتمل تھی جس میں 18ھزار مسلمان 13 ھزار ہندو اور دو ھزار سکھ عیسائ وغیرہ تھے۔
برکت کا زمانہ تھا شھر کے اردگرد گھنے جنگلات تھے لوگ جو جانور پالتے اکثر ان کا چارہ مفت ملتا اس لیے ڈیرہ میں خالص دودھ بڑی وافر مقدار میں موجود تھا۔ مسلمان تو دودھ بیچنا اچھا نہیں سمجھتے تھےکہ یہ نور ہے اور ضرورتمندوں کو مفت دیتے مگر ہندو دودھ بیچتے بھی تھے پھر ان کی بڑی بڑی مٹھائ کی دکانیں تھیں اور ان کی مٹھائ پورے برصغیر میں مشھور تھی۔
دودھ کی فراوانی کی وجہ سے مٹھائ کی نئی ورائٹیاں تخلیق کی جاتی تھیں۔
ایک شخص جس کا نام سوہن لال تھا اس نے سب سے پہلے دودھ کا کھویا بنا کر اس میں گندم کی پتوں کی خشک کونپلیں جو سنہری رنگ کی وجہ سے سونی کہلاتی تھیں ملا کر حلوہ تیار کیا جو بہت پسند کیا گیا اوراس ڈیرہ وال سوہن لال کے نام سے سوہن حلوہ مشھور ہوا۔ آجکل ڈیرہ میں کئی خواتین گندم کو گھر میں اگاتی ہیں جب وہ کونپلیں کچھ اگ آتی ہیں انہیں توڑ کر سکھایا جاتا ہے اور کوٹ چھانٹ کر سونی بنتی جو حلوایوں کو مہیا کی جاتی ہے اور غریب خواتین کے روزگار کایہی ذریعہ ہے۔ گندم کی یہ کونپلیں منرل اور وٹامن سے بھرپور الکلائڈ ہیں اور مغربی ملکوں میں اس کا جوس بہت مقبول ہے ۔اور طریقوں سے بھی استعمال ہوتا ہے۔
تو ڈیرہ وال سوہن لال کا تیار کردہ حلوہ۔۔۔سوہن حلوہ ۔۔کہلایا اور پھر یہ فارمولا دور دور تک پھیل گیا اور اب اس میں نئی ورائٹیوں کا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔
نوٹ۔سوہن حلوے کی یہ تصویر حال ہی میں جناب @Hafiz ul hassan صاحب نے ڈیرہ اولڈ فوٹو گروپ میں لگائ تھی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ