خواجہ حسن نظامی 26یا 27 دسمبر 1878ء میں اندرون کوٹ بستی حضرت نظام الدین اولیاء میں اپنے آبائی مکان میں پیدا ہوئے۔ یہ ”املی والا مکان” کہلاتا تھا۔ والدین نے ان کا نام قاسم علی رکھا لیکن ماموں سید بہادر علی شاہ انہیں علی حسن کہہ کر پکارتے تھے۔ چوبیس سال کی عمر تک یہی نام رکھا۔ شروع میں مضامین پر سید محمد علی حسن نظامی چھپتا تھا لیکن اخبار وکیل امرتسر میں پہلا مضمون حسن نظامی کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد علامہ اقبال نے خواجہ حسن نظامی لکھنا شروع کیا تو پھر اسی نام نے مقبولیت حاصل کی۔
خواجہ صاحب کے والد کا نام حافظ سید عاشق علی نظامی تھا۔ خواجہ صاحب کی دو بہنیں حسن بانو اور سکندر بانو تھیں۔ بڑے بھائی کا نام سید حسن علی شاہ تھا۔ بہنوں کا انتقال والدین کے سامنے ہوگیا۔ ان کی وفات کے چار مہینے بعد والدہ بھی انتقال کر گئیں۔ والدہ کے بعد ان کے والد 28نومبر 1888ء میں پچاس سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کی کفالت بڑے بھائی سید حسن علی شاہ نے کی۔ اس وقت خواجہ صاحب کی عمر دس برس تھی۔
18سال کی عمر میں خواجہ صاحب کی پہلی شادی ان کے چچا سید معشوق علی کی صاحبزادی سیدہ حبیب بانو سے ہوئی۔ یہ دور خواجہ صاحب کے لئے بڑی پریشانیوں کا تھا۔انہوں نے سخت معاشی تکلیفیں برداشت کیں۔ لیکن اہلیہ نے نہایت صبرواستقلال کے ساتھ اپنے شوہر کا ساتھ دیا۔ اس بیوی سے چار بچے ہوئے۔
خواجہ صاحب کو ان کے والد نے حضرت شاہ اﷲ بخش تونسوی کا مرید کرادیا تھا۔ مگر ان کا جلد وصال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعد خواجہ صاحب کے بڑے بھائی نے حضرت خواجہ غلام فرید سے بیعت کرادیا۔ ان کی رحلت کے بعد 24سال کی عمر میں اپنے ارادے اور حضرت بابا فرید کے روحانی اشارے کی بنا پر خواجہ حسن نظامی نے پیر مہر علی شاہ چشتی نظامی سے بیعت کی اور خلافت پائی۔
1916ء میں ان کی دوسری شادی سیدہ خواجہ بانو سے ہوئی جن سے پانچ بیٹے خواجہ سید حسین نظامی، خواجہ سید علی نظامی، خواجہ سید زید پاشا نظامی، خواجہ سید حسن ثانی نظامی، خواجہ سید مہدی نظامی اور دو بیٹیاں سیدہ روح بانو اور سیدہ کوثر بانو نظامی پیدا ہوئیں۔
خواجہ صاحب نے کتابوں کی تجارت اور اخبار نویسی کی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تصانیف کی تعداد چالیس ہے۔ جب کہ ایک تحقیق کے مطابق تین سو کے قریب ہے۔ آپ نے خود کہا کہ ”مہینے میں ایک کتاب تو ہوجاتی ہے۔” انہوں نے کئی ہفت روزہ اور ماہنامہ اخبار جاری کئے۔ رسالہ ”منادی” 1946ء میں جاری کیا اسے آخر وقت تک ایڈیٹ کیا۔
خواجہ صاحب کا ایک بڑا کارنامہ ہندی میں قرآن مجید کا ترجمہ ہے۔ اس سے پہلے یہ ترجمہ کسی نے نہیں کیا تھا۔ ایک عام فہم تفسیر بھی لکھی۔ حضرت نظام الدین اولیاء کی سوانح حیات ”نظامی بنسری” بھی لکھی۔ انہوں نے سفرنامے لکھے۔ 1857ء کے موضوع پر بارہ کتابیں تحریر کیں۔ ان میں سب سے اہم ”بیگمات کے آنسو” اور ”بہادرشاہ ظفر کا مقدمہ” ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ فرعون، یزید نامہ، طمانچہ برخساریزید، مضامین خواجہ حسن نظامی، تذکرۂ نظامی، تصوف رسم اور حقیقت، سفرنامہ ہندوستان اور کرشن کتھا بھی مشہور ہوئیں۔
عمر کے آخری دوسال وہ صاحب فراش رہے۔ 31جولائی 1955ء کو اتوار اور پیر کی درمیانی شب ان کا انتقال ہوا۔ انہوں نے اپنی قبر پچاس برس پہلے ہی بستی حضرت نظام الدین اولیاء نئی دہلی میں تیار کرالی تھی۔ اور اسی میں دفن ہوئے۔
تمہید کے طور پر خواجہ حسن نظامی کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ اب کچھ ذکر ودیا پرکاش سرورتونسوی کا ہوجائے۔ ودیا پرکاش کا تعلق، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے تونسہ شریف تھا۔ وہ ملتان سے ”شان ہند” نکالتے تھے تقسیم کے بعد وہ دہلی چلے گئے۔ اور انہوں نے آخری وقت تک ”شان ہند” جاری رکھا۔ اس رسالے میں وہ اپنی یادوں کے حوالے سے ایک کالم ”زکوئے یاربہ انداز محرمانہ گزر) کے عنوان سے لکھا کرتے تھے۔
سرور تونسوی کچھ عرصہ جالندھر میں رہے تھے اور پھر انہوں نے 1947ء تک ملتان میں ہی قیام کیا۔ اس واقعہ میں، جسے کالم میں بیان کیا گیا ہے۔ جالندھر، ملتان اوردہلی کا ذکر ایک ساتھ آتا ہے۔
یہاں ایک وضاحت کردوں کہ معروف صحافی ایڈیٹر ریاست ”دیوان سنگھ مفتون ساری زندگی خواجہ حسن نظامی کے خلاف رہے۔ اس میں دیوان صاحب سے عجیب و غریب حرکتیں سرزد ہوتی رہیں۔ لیکن خواجہ صاحب نے کبھی اخلاق سے گری ہوئی بات نہیں کی۔
ودیا پرکاش سرورتونسوی لکھتے ہیں۔
”1935ء میں ماہنامہ ایجوکیشنل گزٹ جالندھر کی ادارت میرے سپرد ہوئی۔ ان دنوں یہ ماہنامہ ایک اچھا تعلیمی اور ادبی پرچہ سمجھا جاتا تھا۔ چار مسلم حضرات اس کے مشترکہ مالکان تھے مگر منیجنگ ڈائریکٹر عبدالرزاق صاب تھے جوقطعاً غیر ادبی اور کسی حد تک ماہنامہ اور پریس کی انتظامی سوجھ بوجھ سے ناواقف تھے، مگر تھے بڑے چاق و چوبند۔
ابھی مجھے ماہنامہ ایجوکیشنل گزٹ اور ایجوکیشنل پریس کی ذمہ داری سنبھالے چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ حضور نظام دکن کی سلور جوبلی منائے جانے کا اعلان ہوا اور مالکان نے یہ طے کیا کہ اس موقع پر ایجوکیشنل گزٹ کا نظام نمبر شائع کیا جائے اور اس کی تیاری کے لئے مجھے مناسب ہدایات دی گئیں۔ چنانچہ وقت مقررہ پر یہ نمبر شائع ہوا اور اسے حضور نظام کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے عبدالرزاق صاحب اور مجھے حیدر آباد دکن جانا تھا۔ لہٰذا ہم دونوں جالندھر سے دہلی آئے اور خواجہ حسن نظامی سے ملاقات کی۔ خواجہ صاحب کے بارے میں ہفتہ وار ”ریاست” میں اکثر سردار دیوان سنگھ مفتون کے ادارتی شذرے میری نظر سے گزر چکے تھے لہٰذا میرے دماغ میں خواجہ کے بارے میں کوئی اچھی تصویر کندہ نہیں تھی۔ مگر جوں ہی خواجہ صاحب سے آمنا سامنا ہوا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دو تین اصحاب ان کے قریب بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک صاحب کو خواجہ صاحب کچھ لکھوا رہے تھے۔ چند منٹ بعد وہ دوسرے صاحب سے فرمانے لگے۔ ہاں بھئی آپ کہاں تک لکھ چکے ہیں۔ اس نے تحریر کا آخری فقرہ پڑھ کرسنایا اور خواجہ صاحب نے انہیں بھی آگے لکھوانا شروع کردیا۔ پہلے صاحب نے جو کچھ لکھا تھا وہ کاتب کے حوالے کرکے پھر آکر اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ کوئی دس منٹ تک دوسرے صاحب کچھ لکھوانے کے بعد پھر پہلے صاحب کی طرف رجوع کرتے اور جو کچھ خواجہ صاحب کے فرمودات لکھ چکے تھے۔ مسودہ کاتب کودینے چلے گئے۔ خواجہ صاحب ہم سے فرماہی چکے تھے کہ کچھ انتظام کرنا ہوگا۔ پھر اطمینان سے باتیں ہوں گی۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد انھوں نے توجہ ہماری طرف مبذول فرمائی تو ان سے ہم کلامی کا فخر مجھے ہی حاصل رہا۔ کیونکہ عبدالرزاق صاحب جالندھر سے چلتے وقت ہی یہ فرماچکے تھے کہ سرور صاحب میں اردو نہ تو اچھی طرح بول سکتا ہوں اور نہ ہی ادبی گفتگو کرسکتا ہوں۔ اس لئے جہاں بھی کوئی ایسا موقع آئے تو آپ ہی کو بات چیت کرنی ہے۔ اور اتفاق دیکھئے کہ پہلا واسطہ بات چیت کا پڑا تو وہ بھی خواجہ حسن نظامی ایسی ہستی سے جو ہمیں برسوں پڑھا سکتے تھے۔ تاہم خواجہ صاحب سے خوب باتیں ہوئیں۔ اور انہوں نے مہاراجہ سرکشن پرشاد وزیراعظم حیدر آباد (دکن) کے نام تعارفی خط دیا اور ساتھ ہی میرے وزیٹنگ کارڈ پر اپنے قلم سے رقم فرمادیا۔ ”مع خط خواجہ حسن نظامی” اور فرمایا کہ جوں ہی یہ ملاقاتی کارڈ مہاراجہ بہادر کے یہاں پہنچے گا وہ آپ کو فوراً بلائیں گے۔ مارچ کا مہینہ تھا شام ہوگئی تھی۔ خواجہ صاحب نے چائے بسکٹ سے نوازا اور فرمانے لگے میں بھی دلی جارہا ہوں، میرے ساتھ گاڑی میں چلئے، جامع مسجد چھوڑ دوں گا۔ ان دنوں نظام الدین بستی سے لے کر دلی گیٹ تک ایسی عمارات نہیں ہوتی تھیں۔ جہاں آج کل کا کانگر، سندرنگر اور چڑیا گھر نیز پرگتی میدان وغیرہ ہیں یہاں جنگل ہی جنگل تھا اور اکہری سڑک کے دونوں جانب گھنے درخت اور جھاڑیاں خاصا ڈراؤنا ماحول بنائے ہوئے تھیں۔ خواجہ صاحب کا موٹر خاصا پرانا تھا مگر چلنے میں اچھا تھا۔ کوئی پندرہ بیس منٹ میں خواجہ صاحب ہمیں جگت ٹاکیز کے پاس اردو گھر لے آئے۔ جہاں پر فرش اور دیوار کی ہر اینٹ پر اردو بولو پڑھو، ارردو لکھو، لکھا ہوا تھا۔ یہ اردو گھر اب آزاد ہند مسلم ہوٹل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ خواجہ صاحب نے فرمایا کہ وہ دوسرے دن بھی دلی تشریف لائیں گے اور اگر ہم لوگ ابھی دہلی میں رہیں تواسی اردو گھر میں شام تین بجے ملیں۔ عبدالرزاق صاحب تو فتح پوری کے ہوٹل میں سوئے رہے اور میں وقت مقررہ پر خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ اور وہ مجھ اپنے ساتھ چائوڑی بازار میں دلی پریس میں لے گئے۔ جہاں ”منادی” چھپتا تھا۔ ”منادی” کی کتابت شدہ کاپیاں دلی پریس کے مالک کو دیں اور ساتھ ہی طباعت کی اجرت پیشگی دے دی، فرمانے لگے۔ پیشگی اجرت دے دینے سے کام جلدی ہوجاتا ہے۔ چنانچہ میں نے بھی خواجہ صاحب کے اس اصول کو گرہ میں باندھ لیا۔ اور اب تک پریس اور کاتبوں کی اجرت پیشگی دیتا ہوں۔ مگر افسوس کہ اب نہ تو کاتب وہ کاتب رہے اور نہ پریس ہی وہ پریس رہے ہیں اکثر کاتب حضرات پیشگی اجرت لے کر دوسرا کام لے لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پہلے کام کی اجرت پیشگی مل ہی چکی ہے وہ کام تو اپنے پاس ہی رہے گا۔ دوسرا کام جو ملتا ہے اسے بھی لے لو۔ اسی طرح پریس والوں کا حال ہے اول تو کوئی بھی پریس ہو وعدے پر کام کرکے نہیں دیتا اور اب تو یہ حال ہے کہ اجرت خواہ پیشگی دیجئے یا ساتھ چائے بھی پلایئے مگر کام وعدے پر ملنا محال ہی نہیں ناممکن ہے۔
جناب عزیز حسن بقائی ایڈیٹر ”حریت” سے بھی خواجہ صاحب نے ہی مجھے متعارف کرایا۔ اس ملاقات کا ذکر خواجہ صاحب نے مارچ 1935ء کے منادی میں ان الفاظ میں فرمایا۔ ”آج تین بجے جالندھر کے ماہنامہ ایجوکیشنل گزٹ کے مالک عبدالرزاق اور ایڈیٹر ودیاپرکاش سرور تونسوی ملاقات کے لئے خواجہ منزل آئے۔ اس رسالے کی یہ ادا مجھے پسند آئی کہ مالک مسلمان اور ایڈیٹر ہندو ہیں اور دونوں خدمت اردو میں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔
خواجہ صاحب کی ایک نظر غلط انداز نے ہی میرے دل و دماغ سے ان خیالات کو نکال دیا تھا جو ”ریاست” کے مطالعہ کے باعث میرے دل میں موجود تھے۔ حیدر آباد پہنچنے پر دوسرے دن مہاراجہ بہادر سرکشن پرشاد کے پرائیویٹ سیکرٹری کو جو ہی وزیٹنگ کارڈ دیا گیا تو اس کے چند منٹ بعد ہی راقم کو مہاراجہ بہادر کے حضور پیش کردیا اور انہوں نے ”بگلوس” پہنے وغیرہ کی پابندی سے بھی مبرا رکھا۔ کچھ سال بعد خواجہ حسن نظامی صاحب ملتان تشریف لائے۔ انہیں خاص طور پر ہندو مسلم اتحاد کو بڑھاوا دینے پر تقریر کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ بوہڑ دروازے کے باہر نالے کے قریب سرکاری ہسپتال (اب اس ہسپتال کا نام غالباً جناح ہسپتال ہے (1) سے ملحق باغ میں خواجہ صاحب نے تقریر فرمائی۔
ہزارہا سامعین کا مجمع تھا اور خواجہ صاحب نے جب یہ فرمایا کہ فلاں پران میں ہزاروں سال پہلے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کی پیشین گوئی کی گئی ہے اور انہوں نے یہ پیشین گوئی سنسکرت زبان میں سنائی تو تالیوں کا شور کئی منٹ تک جاری رہا۔ تقریر کے بعد عوام نے خواجہ صاحب کو گھیرلیا اور ہر کوئی ان سے مصافحہ کرنا اور ان کے ہاتھ چومنا سعادت سمجھ رہا تھا۔ بڑی مشکل سے میں بھی ان تک پہنچ پایا تودیکھتے ہی فرمانے لگے میں تمہیں ملتان آنے کی خبر بھجوانا چاہتا تھا مگر پروگرام اس قدر جلدی میں ترتیب دیا گیا کہ لاہور منٹگمری (2) اور دیگر مقامات پر کسی کو بھی اطلاع نہ دی جاسکی۔ مجھے یقینا انتہائی خوشی ہوئی کہ خواجہ صاحب نے مجھے پہچان لیا۔ خواجہ صاحب کا قیام نواب مرید حسین قریش (3) کے ہاں تھا دوسرے دن صبح ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ دیر تک ان کی گفتگو سنتا رہا۔ جو وہ مخصوص حاضرین سے فرمارہے تھے۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے” شان ہند” میں تمہارے ادارتی شذرے کبھی کبھی پڑھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے کہ تمہیں صحافتی گر معلوم ہیں۔
قسمت نے تقسیم وطن کے بعد خواجہ صاحب کی دلی میں پناہ گزیں کی حالات میں لاٹپکا۔ اور سردار دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر ”ریاست” کے یہاں ہر روز کی حاضر باشی کے دوران اکثروبیشتر خواجہ کا ذکر آتا رہتاان دنوں سردار صاحب اور خواجہ صاحب میں بول چال بھی بند تھی۔ سردار صاحب کی محفلوں میں بیٹھنے والوں کی خیریت اسی میں رہتی تھی کہ وہ سردار صاحب کی ہر بات پر صاد کہیں، ماسٹر امیر چند کھنہ اور لالہ شیونارائن بھٹناگر ایڈیٹر روزنامہ ”وطن” اور مالک اعلا پریس کہیں کہیں سردار صاحب سے اختلاف کرتے تو سردار صاحب آپے سے باہر ہوجاتے تھے۔ اور محفل معمول سے پہلے ہی برخاست ہوجاتی تھی۔ اس لئے ہر کوئی محتاط رہتا تھا کہ سردار صاحب کی مخالفت نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے تاکہ ہنسی خوشی کی محفل ناخوش گواری پر ختم نہ ہو لہٰذا مجھ ایسے شرکاء محفل جن کے تعلقات سردار کے مبینہ اور مفروضہ مخالفوں سے بھی بہتر تھے وہ زیادہ تر سردار صاحب کے فرمودات سننے پر ہی اکتفا کرتے اور کسی قسم کی رائے زنی نہ کرتے۔
مہاتما گاندھی کی وفات کے بعد بستی نظام الدین کھلے بندوں آنا جانا شروع ہوا تو خادم نے بھی حضرت نظام الدین اور حضرت امیر خسرو کے مزارت پر سرعقیدت جھکایا اور خواجہ حسن نظامی کی خدمت میں بھی حاضری دی، ملتان سے دلی پہنچنے تک کے حالات خواجہ صاحب نے سنے تو حوصلہ بندھاتے ہوئے فرمانے لگے یہ سب کچھ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے اور جوکچھ ہوتا ہے اﷲ کے حکم کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا صبروشکر کے ساتھ خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے محنت کرو اﷲ ضرور کامیابی دے گا۔
سردار صاحب کی سی آئی ڈی بھی غضب کی تھی۔ وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ ان کے احباب یا ملنے والوں میں کون کون ان کے مخالف حضرات سے ملاقات کرتا ہے یا میل جول رکھتا ہے۔ ایک دن بھیا احسان الحق صاحب سردار صاحب کے یہاں تشریف لائے تو سردار صاحب نے ان سے دریافت فرمایا۔ سنایئے خواجہ صاحب کا کیا حال چال ہے (بھیا احسان الحق صاحب کے تعلقات خواجہ صاحب سے بہت گہرے تھے اور سردار صاحب سے دیرینہ اور دوستانہ تعلقات تھے) بھیا احسان الحق فرمانے لگے کل ان کی خدمت میں حاضری دی تھی تو آپ کی صحت کے بارے میں دریافت کررہے تھے۔ بے ساختہ میری زبان سے نکلا ہاں سردار صاحب مجھ سے بھی انہوں نے آپ کی صحت کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ اس وقت تو سردار صاحب خاموش رہے مگر بھیا صاحب کے تشریف لے جانے کے بعد میری جواب طلبی بلکہ تفتیش شروع ہوئی کہ تمہارے خواجہ صاحب سے کب کے تعلقات ہیں اور ملتان سے آنے کے بعد کتنی بار ان سے ملاقات ہوچکی ہے اور اس سے پہلے یہ کیوں نہیں بتایا کہ خواجہ صاحب نے تم سے میری صحت کے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے سردار صاحب کو جب یہ بتایا کہ 1935ء سے میری نیازمندی کا سلسلہ خواجہ صاحب سے وابستہ ہے تو انہیں حیرت تو نہ ہوئی بلکہ افسوس ہوا کہ وہ اس سے بے خبر کیوں رہے۔ تب سے سردار صاحب ، خواجہ صاحب کے بارے میں مجھ سے بھی کافی محتاط رہنے لگے۔”
مولانا صلاح الدین احمد نے خواجہ حسن نظامی کے بارے میں خوب صورت رائے دی تھی۔
”خواجہ صاحب نے اپنی مفیدا ور مبارک زندگی میں اردو کے جو کروڑوں چراغ اس برعظیم میں روشن کردیئے تھے، لازم ہے کہ ہم انہیں روشن رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں۔ تعصب اور نادانی کی تاریکیاں آج ہر طرف منڈلارہی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ چپکے سے ہمارے سینوں میں بھی اتر جائیں۔”
مولانا مرحوم کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا ہے۔ تعصب اور نادانی کی تاریکیاں چپکے سے ہمارے سینوں میں اتر چکی ہیں۔ اور اب ہم ان تاریکیوں میں راستہ تلاش کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
خواجہ حسن نظامی کا ملتان سے تعلق رہا لیکن اس حوالے سے لکھا نہیں گیا۔ یقینا وہ اس کے بعد بھی ملتان تشریف لائے ہوں گے۔ ملتان کے اہل دانش نے اپنی یادیں بہت کم رقم کی ہیں۔ اس لئے ملتان کے ماضی سے ادبی ماحول کو تلاش کرنے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال ماضی کا ایک ورق پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
٭…٭…٭
1۔یہاں سرور تونسوی سے سہو ہوا ہے۔ سرکاری ہسپتال کا نام تقسیم سے پہلے سول ہسپتال تھا اور آج بھی وہی نام قائم ہے۔ ”ملحق باغ” سے مراد باغ لانگے خاں ہے۔
2۔ساہیوال۔
3۔(مخدوم مرید حسین قریشی، مخدوم سجاد حسین قریشی کے والد اور مخدوم شاہ محمود کے دادا تھے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ