گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساڑھے سات سو سال پہلے عباسیوں کے بغداد میں باغات اورپھولوں کی ایسی بھرمار اور کثرت تھی کہ شہر کی فضا خوشبو اور مہک سے بوجھل رہتی تھی۔گھرگھر باغیچے تھے، پھل دار درختوں کے لیے پانی دجلہ و فرات کی نہروں سے لایا جاتا تھا۔ مکانات جدید طرز کے تھے۔
علم وتحقیق میں دنیا کا بہترین شھر جہاں کتابوں کی لائبریریاں تھیں۔
تن آسانیاں عیش و عشرت کے اس دور میں فرقہ پرستی جنم لیتی ھے جسے اللہ کا عذاب کہا جاتا ھے۔
علماء اور دانشوروں کے ٹولے بن جاتے ہیں اور اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے ایک دوسرے کے جانی دشمن۔ جب ایسی صورت پیدا ہو تو سلطنت میں سینکڑوں غدار پیدا ہو جاتے ہیں جو خود دشمن کی جھولی میں جا گرتے ہیں۔ خلیفہ المستصم باللہ کا چہیتا وزیر علقمی خود ہلاکو کو خفیہ دعوت دیتا ھے اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجاکر لاکھوں انسان قتل اور سلطنت کا خاتمہ ہو جاتا ھے۔
آج ہمارے دانشور شام کو ٹی وی پر بیٹھ کر قوم کو انتشار اور نفرت کا بھاشن دیتے ہیں۔ قوم کو سیاسی و مذھبی ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاتا ھے۔
سوشل میڈیا پر نفرت اور گالیوں کا بازار گرم کیا جاتا ھے ۔ملک میں ایسے غدار موجود ہیں جن کے ڈانڈے دشمنوں سے ملتے ہیں۔ غداروں کے تعاون سے ملک کو کمزور کیا جاتا ہے اور قوم کی مشکلات بڑھتی رہتی ہیں۔
کیا تاریخ سے کوئ سبق ہم نے سیکھا؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ