جام ایم ڈی گانگا
03006707148
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقلیت کے عالمی دن 11اگست کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کے دروہ بہاول پور کے موقع پر وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار اور ان کے چھوٹے بھائی صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کے ساتھ ایسا کونسا واقعہ پیش آیا کہ ضلع رحیم یارخان سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں طاقت ور اور بااثر وزراء بھائی کسان کنونشن کے دوران خاصی بے چینی اور کسی اندرونی اضطراب میں پائے محسوس کیے گئے.خوش باش طبیعت کے حامل اور میٹھی میٹھی مسکراہٹوں سے لوگوں کا دل موہ لینے والے مخادیم صاحبان کے ساتھ آخر وزیر اعظم پاکستان کے دورہ بہاول پور کے دوران ایسا کیا کچھ ہو گیا کہ یہ صاحبان اپنے اندرونی کرب کو چھپانے کی کوشش کے باوجود آج چھپا نہیں پا رہے تھے.مزید وفاقی وزیر چودھری طارق بشیر چیمہ نے اپنے خطاب کے دوران یہ کہہ کر کہ مخدوم خسرو صاحب مجھے گھور رہے ہیں اس پر مٹی کا تیل ڈاک کر لوگوں کو مخادیم کی موجودہ کیفیت کی طرف ان ڈائریکٹ کامیابی سے متوجہ کیا. خیر اس پر ہم بعد میں بات کرتے ہیں پہلے بارہ موسموں والے نئے پاکستان کے نئے اور پہلے وزیر اعظم محترم عمران خان اور کسان کنونشن کے حوالے سے کچھ سرسری سے بات ہو جائے.
کوئی مانے یا نہ مانے یہ سچ ہے کہ ہمارا وزیر اعظم عمران خان سچ ہو یا جھوٹ بڑے اعتماد اور یقین کامل کے ساتھ ٹکا کے بولتا ہے. لمبی لمبی چھوڑنے میں بھی موصوف ماشاء اللہ خاصے شہرت یافتہ ہو چکے ہیں.ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان والی بات اور نعرہ بھی یقینا سچ ہے عمران خان میں ڈٹ جانے والی صفت اور عادت بھی یقینا موجود ہے. یو ٹرن کی مجبوریاں ہر سیاست دان خاص طور پر اقتدار کے تخت، اعلی ایوانوں اور کرسیوں تک رسائی رکھنے والے خوب جانتے اور سمجھتے ہیں.کوئی چیز مالک کی جانب سے عطا کردہ مقام و مرتبے،حیثیت اور اختیار سے باہر ہو تو اسے کسی شخص کی نالائقی یا کمزوری ہرگز نہیں سمجھا جانا چاہئیے.
کوئی مانے یا نہ مانے یہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا کارنامہ ہی مانا جائے گا کہ انہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے اور طاقت ور ترین شوگر مافیا کو پہـلی بار نتھ ڈالی. گنے کے کاشتکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے گذشتہ سال شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ ترمیمی آرڈیننس نافذ کروایا پھر اس سال اسے باقاعدہ قانونی شکل میں بھی پاس کروا کر تحفظ فراہم کیا ہے. یہ علیحدہ بات ہے کہ وزیر اعظم ہونے کے باوجود عمران خان اور ان کے وزیر اعلی سردار عثمان خان بزدار کو کس قدر مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے. شوگر مافیا کے ساتھ یہ اندرونی چومکھی لڑائی ایک طویل داستان ہے. یہ کتنا مشکل کام تھا اس کا اندازہ آپ وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کے شوگر مافیا والے حصے سے لگا سکتے ہیں.پاکستان میں پہلے آئین و قانون کی حکمرانی اور بالادستی نہیں رہی. ہمیشہ طاقت ور لوگوں کی حکمرانی اور بالادستی رہی ہے. اس جرات مندانہ سچ کہنے پر میں وزیر اعظم عمران خان کو سلام پیش کرتا ہوں. یقین کریں میرے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ہی یہی ہے.وقت آ گیا ہے کہ ملک کے سیاستدان اور عوام مل کر یہ نعرہ لگائیں اور تحریک چلائیں کہ آئین و قانون کو عزت دو. خیر اس پر پھر تفصیل سے لکھیں گے. ہم بہاول پور کسان کنونشن کی بات کر رہے تھے. حقیقتا یہ صرف نام کا کسان کنونشن تھا. اسے چیمہ کنونشن کا نام دیا جائے یا جشنِ فتح بہاول پور کہا جائے. بہرحال جشن الحاق پنجاب سے موجودہ جشن چولستان یا جشن بہاول پور تک کا سفر ایک طویل داستان ہے.محترم ظہور احمد دھریجہ، محمد اکبر انصاری ایڈوؤکیٹ گاہے بگاہے قسطوں میں کچھ نہ کچھ زمینی حقائق بیان کرتے رہتے ہیں. انشاء اللہ قدیمی روہی سے موجودہ چولستان تک کا سفر، پھر چولستان سے مستقبل کے نیو قادیانستان کی طرف پیش قدمی بارے خدشات، الزامات اور حقائق پیش کرنے کی کوشش کریں گے ہر گزرا لمحہ تحریری یا سینہ بہ سینہ تاریخ کا حصہ ضرور بنتا ہے.
وزیر اعظم عمران خان کے دروہ بہاول پور سے یہاں کے عوام نے ترقیاتی و تعمیراتی اور خیراتی حوالے سے جو امیدیں اور توقعات وابستہ کر رکھی تھیں. ان کے بارے میں کیا کہا اور لکھا جائے.شاید حضرت خواجہ فرید ؒ کے اس شعر سے کسی حد تک ترجمانی ہو جائے. ُ ُ سر دھوڑ مٹی پائیم سارا نگ نموز ڈکھائیم ٗ ٗ ٗ. پرانے منصوبے نئی تختیاں سرائیکی وسیب کے ساتھ اپنے ہوں یا پرائے سبھی تقریبا یہی کچھ کرتے چلے آ رہے ہیں. پس افتادگی میں دھکیلے گئے خطے اور پسماندگی کا شکار عوام اور طبقے کو اوپر اٹھانے اور سہارا دینے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے. پاکستان میں انقلاب اور انقلابی دونوں پر غیر اعلانیہ قدغن ہے. یہاں جمود ہے، سرمود ہے یا گرمود ہے. پاک وطن کا پانی بھی دودھ ہے.اسلام، بھائی چارہ اور پاکستان کے نام پر ہم سرائیکی وسیب کے عوام غاصبوں کے لتاڑے ہوئے اور مارے ہوئے لوگ ہیں. اب بات عالم اسلام، انٹرنیشنل اور نیشنل سے ہوتے ہوئے نیچے گراس روٹ لیول کی طرف آ چکی ہے.ماما کہتا ہے کہ چولستان پر پہلا حق چولستانیوں کا ہے. بہت اچھی بات ہے لیکن یہ بھی تھوڑی سے وضاحت کر دی جاتی کہ پرانے چولستانیوں یعنی روہیلوں کا یا باہر آنے والے یا لائے گئے نئے چولستانیوں کا.
مذکورہ بالا باتوں سے قطع نظر میں وفاقی وزیر چودھری طارق بشیر چیمہ کی جرات، اپنے حلقے اور اپنے لوگوں کی نمائندگی کرنے پر انہیں لاہوری سلیوٹ پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے چولستان کے مسائل، زمینوں کی الاٹ اور نہری پانی کے ایشوز پر وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کی موجودگی میں کھل کر بیان کیے ہیں. یہ دوسرے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے لیے بھی قابل تقلید پیغام ہے کہ علاقے اور اہنے لوگوں کی نمائندگی کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے. مخدوم صاحب مجھے گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں دانستہ یہ الفاظ استعمال کرکے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے ساتھی وزیر مخدوم خسرو بختیار کو دراصل یہ کہا ہے کہ میں آپ کا مزارع یا شوگر ملز کا ملازم نہیں ہوں. میرے ساتھ اپنا رویہ درست رکھیں ورنہ………… سابق مملکت خداداد ریاست بہاول پور کے بادشاہوں، نوابوں کو سیاسی طور پر روند ڈالنے والے چودھری طارق بشیر چیمہ کے ساتھ کوئی سیاست سیاست کھیلے اور وہ جواب نہ دے یہ کیسے ہو سکتا ہے.ویسے موجودہ حالات و معاملات اور آؤ تاؤ سے لگتا ہے کہ اندرونی معاملات تو کافی ہوں گے. گذشتہ ہفتے وزراء بھائیوں مخدوم خسرو بختیار اور صوبائی وزیرخزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے چودھری طارق بشیر چیمہ کے ضلع بہاول پور کا سرکاری دورہ کیا. وہاں کمشنر بہاول پور میاں ظفر اقبال کے ساتھ مل کر کچھ منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا کچھ کا افتتاح کیا اور کچھ لش پش پروگرام بھی کیے.پھر یہ والا طارق بشیر چیمہ شو میرا مطلب ہے کہ سیپشل کسان کنونشن کا پروگرام کروایا گیا ہے. جس میں دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں نے بہت کچھ دیکھا اور سنا.کچھ مایوس ہوئے، کچھ روئے، کچھ نے کامیابی کا جشن منایا اور بہت سوں نے تماشہ دیکھا اور لطف اندوز ہوئے. وقت تو بیت جانے والی چیز ہے. ایسے یا ویسے، جیسے یا تیسے اس نے تو بیت ہی جانا ہوتا ہے. کس کس کا کس حال، رنگ و ڈھنگ اور انداز میں بیتا یہ ہر طبقے اور ہر شخص کی علیحدہ علیحدہ کہانی ہوتی ہے.وقت بڑا استاد ہے یہ ہمیشہ کچھ نہ بتا کر اور سیکھا کر ہی ھارا ہے. یہ علیحدہ بات ہے کہ کسی کی سمجھ میں کچھ آئے یا نہ آئے. کوئی پلے باندھے یا نہ باندھے. خیر چھوڑیں ہم اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں. اس سے قبل بہاول پور سے تعلق رکھنے والے ملک امتیاز احمد چنڑ ایڈوؤکیٹ کی ایک مختصر سی پوسٹ آپ کے ساتھ شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں.یہ محض الزام ہے یا حقیقت?. بہرحال یہ ایک اہم بات اور نہایت توجہ طلب نقطہ ہے. حکمرانوں کو ضرور اس پر توجہ دینی چاہئیے. روہی چولستان میں زمینوں کی بندر بانٹ اور مختلف سکیموں کے تحت جعلی سازی کے ذریعے کی جانے والی الاٹ منٹیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے.تخت لاہور میں بیٹھ کر مختلف قسم کے متاثرین اور خدمات کے نام پر لگائی جانے والی لوٹ سیل نے روہی چولسران کی ڈیموگرافی کو جبرا تبدیل کرنے کوششیں مختلف انداز اور طریقہ ہائے واردات کے ساتھ جاری و ساری ہے. قومی اسمبلی میں میاں ریاض حسین پیرزادہ کی تقریر گویا دریا کو کوزے میں بند کرنے کرنے کے مترادف اور خاص اہمیت کی حامل ہے.مستقبل میں روہی چولستان کی ڈیموگرافی دانستہ اور باقاعدہ پلاننگ کے تحت تبدیل کرنے کے کیا نتائج برآمد ہوں گے. اس بارے فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا. یہ خدشہ ہے کہ یہاں مستقبل میں کسی وقت بھی ضرور فساد برپا ہوگا.اب لیجئے ملک امتیاز چنڑ ایڈوؤکیٹ کی پوسٹ کی تحریر من و عن آپ کی خدمت میں حاضر ہے.
ُ ُ ُ اپر پنجاب کے لوگوں کے شناختی کارڈ پر مستقل پتہ “چولستان “لکھوا کر طارق بشیر چیمہ غیر قانونی الاٹمنٹ کروا رہا ہے
27694 چولستانی لاٹیں الاٹ کرنے سے قبل درخواست دینے والے کے والد اور دادا کے شناختی کارڈ کا ایڈریس اور ووٹ کا پولنگ اسٹیشن کا ایڈریس بھی چیک کیا جائے
غیر قانونی آباد کاری بند کی جائے اور اس کی شفاف تحقیقات کی جائیں
چولستانیو ہوش کرو ورنہ تمھاری نسلیں غلامی بھُگتیں گی. ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار کی بہاول پور طارق بشیر چیمہ شو یعنی کسان کنونشن کے دوران بے چینی اور اضطرابی کیفیت کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں میں اسی سوچ بچار میں تھا کہ موقع پر موجود کسی جانے والے سے رابطہ کرکے معلومات لی جائیں. کیونکہ میرے ضلع رحیم یارخان سے بھی ایم این ایز، ایم پی ایز، زمیندار اور کئی سرکاری بندے وہاں گئے ہوئے تھے. بہاول پور میں بھی کچھ جاننے والے لوگ تھے.خدا کا کرنا کہ کچھ وقت کے بعد فضائی اور خلائی طور پر مجھے اپنے موبائل پر ایک تحریر موصول ہوئی جو میں من و عن آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں. یہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور وی سی آفس میں پونے تین بجے کھڑکتی دھوپ کا واقعہ ہے. جو میرے ضلع رحیم یارخان کے بااثر ترین اور طاقت ور ترین وزراء کے ساتھ پیش آیا
ُ ُ وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار صاحب کے دورہ بہاولپور میں کچھ سین دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ وزیراعظم کے دورہ بہاولپور میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو کھانے کے لئے بلایا گیا اور وہ اندر چلے گئے تو وفاقی وزیر مخدوم خسرو اور انکے بھائی صوبائی وزیر ہاشم جوان بھی انکے پیچھے اندر کھانے کے لئے جانے لگے تو ان کو دروازے پر ہی روک دیا گیا۔ بچارے دونوں بھائی منتیں سماجتیں کرتے رہے اپنا تعارف بار بار کراتے رہے اندر کافی بار پیغام بھیجا کہ ہم باہر کھانے کے انتظار میں کھڑے ہیں لیکن اندر سے کسے نے بھی اندر بلانا گورا نہ کیا، دونوں بھائی ایک گھنٹے تک پلروں سے ٹیک لگائے انتظار کرتے رہے لیکن کسی نے نہ بلایا لوگ دور سے کھڑے ہو کر ان مناظر کو دیکھ کر محظوظ ہوتے رہے۔ ” یہ مکافات عمل ہے”.ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، وطن عزیز کی سیاست میں اس قسم کا سلوک اور رویہ کوئی بعید نہیں ہے. یہ مالکوں کی مرضی ہوتی ہے. بقول عمران خان یہاں آئین و قانون نہیں طاقت وروں کی مرضی اور حکمرانی چلتی ہے. وی سی آفس میں وزیر اعظم عمران خان کے کھانے میں وزیر اعلی سردار عثمان خان بزدار، وفاقی وزراء چودھری طارق بشیر چیمہ،سید فخر امام، ایڈوائزر ٹو وزیر اعظم جمشید چیمہ شاید ایک دو اور لوگ بھی موجود تھے. وزرا مخادیم صاحبان کو خاکی سیکیورٹی والوں نے یہ کہہ کر گیٹ پر روک لیا کہ آپ کا نام لسٹ میں نہیں ہے. گذشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں داخل ہوتے وقت سابق وفاقی وزیر ماسی محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو بھی ایسے ہی روک لیا گیا تھا. نئے پاکستان میں یہ کسی کو بے عزت کرنے کا کوئی نیا طریقہ ہے یا کسی حدود پھلانگنے والے کو اُس کی اوقات اور اہمیت یاد کرانے کا مجرب نسخہ اور عمل ہے.بہرحال مخادیم صاحبان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے جس کسی نے بھی یہ سب کچھ کروایا ہے. ہمیں دلی افسوس ہوا ہے. ہو سکتا ہے یہ قدرت کی جانب سے مخادیم صاحبان کو اپنے علاقے اور حلقے کے عوام کے ساتھ اپنے رویے اور روا رکھے جانے والے سلوک پر تنبیہ ہو.یاد رکھیں اللہ بڑا ہے. خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اس کی پکڑ بڑی شدید ہے.اللہ دولت دے طاقت دے اختیار دے تو انسان کو غرور و تکبر کا شکار ہو کر گمراہی میں مبتلا ہونے سے بچنا چاہیئے. مظلوموں کی آہیں براہ راست عرش سے جا ٹکراتی ہیں اور عرش و فرش کا مالک پہلے ڈھیل دیتا ہے تنبیہ کرکے اصلاح کا موقع عطا کرتا ہے اگر انسان پھر بھی انسان نہ بنے تو پھر اس کے آگے کوئی چیز بھی مشکل اور ناممکن نہیں ہے.علاقے کاکسی بڑی سے بڑی برادری کا سردار بھی مخادیم کے ساتھ ہلکی پھلکی گستاخی بھی کرتا تو یقین کریں چند گھنٹوں میں اس کے اور اس کے خاندان کے دیگر افراد کے چودہ طبق روشن کرکے انہیں روشن دان بنا دیتے. لیکن مذکورہ بالا واقعہ میں بااثر اور طاقت ور ترین وزراء کی بے بسی بھی بڑی دیدنی ہے.دونوں مخادیم وزراء بھائیوں کو بہاول پور کے کسی پروگرام میں تقریر کرنے کا موقع تک بھی نہیں دیا گیا حتی کہ چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک اہم ذمہ دار چیئرمین ہونے کے باوجود بھی صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کو اسٹیج کے قریب تک بھی نہیں پھٹکنے دیا گیا.ضلع رحیم یارخان کے ایک ایم پی اے صاحب سے کسان کنونشن کے حوالے سے میری بات ہوئی تو انہوں نے مکدی گال ایں مکائی کہ بس چیمہ چھا گیا ہے. جب میری ایم پی اے موصوف سے بات ہو رہی تھی تو عین اسی وقت میرے ذہن میں یہ بات آ رہی تھی کہ قبضہ گیری، دادا گیری یا انکروچمنٹ سیاسی و یا زمینی دونوں ٹھیک نہیں. یہ عمل بلاآخر انسان کو رُسوا ہی کرتا ہے. یقینا یہ نہ کھانے کے نہ اُگلنے کے والی کیفیت ہے.گھور کے دیکھیں یا وقت کے حکمرانوں کو آنکھیں دکھائیں تو سیاست کا سارا تاج محل دھڑم سے نیچے گر سکتا ہے.حکومت کی پارٹنر جماعت کے چودھری طارق بشیر چیمہ کی طرح دھمکی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کیونکہ مستقبل کے وزیراعظم مخدوم خسرو بختیار اور مستقبل کے وزیر اعلی مخدوم ہاشم جواں بخت کے لیے نیب اور سپریم کورٹ میں زائد از آمدنی اثاثہ جات کے کیسز گلے کا پھندا بن سکتے ہیں.تم زمین والوں پر رحم کرو اسمان والا تم پر رحم کرے گا. تم قبضہ گیروں کی بجائے مظلوموں کا ساتھ دو اللہ تمھارا ساتھ دے گا. مخدوم خسرو بختیار سئں، مخدوم ہاشم جواں بخت سئیں بہاول پور اچ تہاڈے نال جو کجھ تھئے دلی ارمان اے. اساں لوگ ارمان دے سوا کر ای کیا سگدوں بس فی الحال اسی پیکیج پر ہی گزارا کرنا پڑے گا.مالکوں کی مرضی میانوالی قریشیاں سے اٹھا کر اہم ترین وزارتیں دان کر دیں، تخت پر بیٹھا دیں.ان کی منشا اپنے گھر میں لے آ کر رُسوا کر دیں.وزارت عظمی تک پہنچنے کا امتحان اور راستہ اتنا آسان بھی نہیں ہے.بس گھبرانا نہیں مستقل مزاجی سے لگے رہے تو کامیابی ضرور آپ کے قدم چومے گی.سرائیکی زہر ہے ہو سکتا اسی خطرے و خوف سے آپ صاحبان کو وزیر اعظم کے کھانے میں شامل نہ کیا گیا ہو.
یہ بھی پڑھیے:
مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ