مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

طبقاتی سماج سے نجات ||رؤف لُنڈ

بحیثیت مجموعی پوری دنیا کے سرمایہ دارانہ ممالک میں مذہب کو ذاتی مفادات اور سیاسی استحصال کی خاطر استعمال کرنے کی رِیت حکمران طبقے کی ضرورت رھی ھے اور اس ضرورت کا استعمال پاکستان میں کچھ زیادہ ھی رہا ھے ۔

رؤف لُنڈ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

10 ، محرم ۔۔۔۔ پانی و دودھ کی شربتوں کی جا بجا سبیلوں کا اہتمام ، طبقاتی جڑت کا مظہر ۔۔۔۔۔۔ اور یہ پیغام کہ کربلاؤں سے نجات ؟ طبقاتی سماج سے نجات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان اپنے آغاز سے ھی اپنی متنازعہ نظریاتی اساس کی حیثیت سے چلا آرہا ھے۔ کوئی اسے جناح کی 11،اگست 1948ء کی تقریر کی روشنی میں سیکولر سٹیٹ کہتا ھے تو کوئی اس کے بنانے کی بنیادوں میں اسلامی آئیڈیالوجی کو کار فرما قرار دیتا ھے ۔ اور پاکستان ھے کہ جس نے کوئی شناخت بنائے بغیر پچھہتر سال اسی کشمکش میں گذار دئیے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بحیثیت مجموعی پوری دنیا کے سرمایہ دارانہ ممالک میں مذہب کو ذاتی مفادات اور سیاسی استحصال کی خاطر استعمال کرنے کی رِیت حکمران طبقے کی ضرورت رھی ھے اور اس ضرورت کا استعمال پاکستان میں کچھ زیادہ ھی رہا ھے ۔ یہی وجہ ھے کہ ملک کے اندر ہونے والے تاریخی ، ثقافتی اور مذہبی ایام کو ہمیشہ اسی ضرورت اور نفسیات کے تحت منانے کے پروگرام اور منصوبے ترتیب جاتے ہیں ۔۔۔۔ وطنِ عزیز میں کئی بار مذہبی تہوار ایسے خوف میں بھی منائے گئے کہ لوگوں نے اپنے بچوں سمیت اپنے گھروں میں بیٹھے رہنے میں ھی اپنی عافیت سمجھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سال حکومت نے محرم کے ایام میں سیکورٹی خطرات سے نپٹنے کے لئے ایک طرف اپنی روائتی حیثیت و صلاحیت کیمطابق انتظامات کئے تو دوسری طرف عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے اور اپنی مرضی کے تسلط کو کارگر بنانے کیلئے خوف اور کشیدگی کے ہتھیار کو استعمال کرنے سے قدرے گریز کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 10 ، محرم کے دن جا بجا دودھ اور پانی کی شربتوں کی سبیلیں اسی رعایت کی بناء پر سامنے آئیں اور جن سے طبقاتی جڑت کا مظہر نمایاں تھا ۔۔۔۔۔۔۔

اس حوالے سے ہر گلی ، ہر محلے میں لوگوں کے بے خوف جمگھٹ نظر آئے ۔ سڑکوں اور شاہراہوں کی دونوں طرف سارا دن اور رات کے پہلے پہر تک دودھ اور پانی کی شربتیں تیار ہوتی اور چلتی رہیں ۔ بچے اور بڑے دن کی گرمی کی پرواہ کئے بغیر راہ چلتی ہر سواری پر سوار لوگوں کو روک روک کر سبیل پلاتے رھے۔۔۔۔۔ اس عمل کے اختتام تک (دن اور رات کے کسی وقت ) جوش و خروش میں کہیں کوئی کمی نظر نہیں آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جوش اور خروش بچوں سے لیکر نوجوانوں میں بہت زیادہ تھا جو روشن مستقبل کے لئے اپنا بہتر سماجی کردار ادا کرنے کے یقین کی علامت بنے ہوئے تھے ۔ سبیل بنانے ، چلانے اور ختم ہونے تک کسی کی ذات پوچھی گئی اور نہ مسلک و فرقہ کی انکوائری ہوئی ۔ کسی بھی مسافر سے یہ نہ پوچھا گیا کہ ہمارے کسی علاقے سے ہو یا ھمارے دشمنوں کے کسی علاقے سے تمہارا کوئی تعلق ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

ممکن ھے کہ کسی بڑی سبیل کے بنانے اور چلانے میں بالادست طبقے کے کسی فرد نے کچھ سرمایہ صرف کیا ہو لیکن ان سبیلوں کو بنانے اور چلانے والوں کی مجموعی طور پر قطعی اکثریت کا تعلق محنت کش طبقے سے تھا ۔ جو اس دور میں بھی بھوک ، بیماری ، بے روزگاری ، مہنگائی اور لا علاجی کے اپنے تمام دکھ اور ذلتیں بُھلا کر اس احساس کو زندہ کیے ہوئے تھے کہ چودہ سو سال پہلے کی کربلا ہو یا آج کے طبقاتی نظام کی بھوک ، پیاس ، بے گھری ہو یا بے حرمتی ، ان کی اذیت اور کرب ایک جیسا ھے ۔ ان اذیتوں اور کرب سے آنکھوں سے پھوٹ پڑنے والے آنسوؤں کی جھڑی ہو یا دلوں سے اٹھنے والی ہوک کا درد۔ ان کا احساس بھی ایک ھی ھے۔ اور نجات کا راستہ بھی ایک یعنی تخت و تاج (طبقاتی سماج ) کی حکمرانی سے انکار ۔۔۔۔۔۔۔

سماج میں اس طرح کی طبقاتی جڑت کو ایک دن کی سرگرمی سمجھنے اور بنانے کی بجائے اس تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے جدجہد کے عزم کیساتھ آگے بڑھ کر محنت کش طبقے نے خود طبقاتی لڑائی کے میدان میں اتارا تو انسانیت پر چھائے طبقاتی نظام کے منحوس سایوں کو چَھٹنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ

 کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ

زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

رؤف لُنڈ کی مزید تحریریں

%d bloggers like this: