اسلم ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ ہمارے ہاں پی ایچ ڈی کو تعلیم کی اعلیٰ ترین سند سمجھا جاتا ہے اور ڈاکٹر صاحبان کو ایک توقیر حاصل ہوتی ہے ، اس لئے یہ حیثیت چور دروازے سے بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ایک طریقہ ہومیو پیتھی کی سند حاصل کرکے یا پھر ایک آدھ کتاب پڑھہ کے کچھ شیشیاں رکھ کر نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنا شروع کردینا ہے۔
ہومیو پیتھک کالج میں تھرڈ ڈویژن میٹرک کو بھی داخلہ مل جاتا ہے۔
بھائی ناصر زیدی نے لکھا ہے کہ "داخلے وغیرہ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ ’’ڈاکٹر‘‘ رشید انور اور ’’ڈاکٹر‘‘ رشید کامل کو تو میں نے خود انٹر نیشنل ہومیو پیتھک کالج ریلوے روڈ لاہور سے’’ ڈاکٹری ‘‘ کی ڈگریاں اپنے یار گلزار عابد سے لاکر دیں”
اب اگر کوئی ادیب ، شاعر اور اردو کا استاد ہے اور نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھتا ہے تو اسے لوگ پی ایچ ڈی ہی سمجھیں گے۔۔۔ لیکن پتہ کریں تو کچھ ہومیو پیتھ بھی نکلیں گے۔
ناصر زیدی صاحب نے اس ذیل میں ہمارے ایک دوست کا نام لیا ہے۔
ایک شاعرہ کی ڈاکٹری کا مجھے بھی پتہ ہے۔
اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ایسے کئی ملیں گے۔
حالانکہ قانون کے مطابق ہومیو پیتھ نام کے ساتھ ’’ ڈاکٹر‘‘ نہیں لکھ سکتے۔۔۔ ہومیو ڈاکٹر یا ایچ ڈاکٹر بھی نہیں ۔۔۔ البتہ ’’ہومیو پیتھک ڈاکٹر‘‘ لکھ سکتے ہیں۔
ایک اور کیٹیگری ہے… شاعری، ادبی صحافتی خدمات اور تجربے پر پی ایچ ڈی کی … یہ ڈگری دینے والی یونیورسٹیاں ایک کمرے بلکہ ایک لیپ ٹاپ تک محدود ہوتی ہیں اور کچھ ڈالرز یا پونڈز کی ادائیگی پر ڈگری دے دیتی ہیں… ویسے ان کی ڈگریاں ہماری یونیورسٹیوں کی ڈگریوں سے بہت زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں.
یہ ڈگری لینے والے ڈرائینگ روم میں سجاتے ہیں، نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھتے ہیں… یہ اگر کسی ملازمت کیلئے پیش نہ کریں تو کس نے اور کیوں چیلنج یا چیک کرنا ہے؟
ایسی ڈگریاں ایسے دوستوں کے پاس بھی ہیں جو کبھی کسی کالج تک میں نہیں پڑھے… اب وہ نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھتے ہیں.
اور تو اور مجید نظامی کو اعزازی ڈگری ملی تو نوائے وقت میں ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا جانا لازمی ہوگیا. بے نظیر بھٹو کو درجنوں اعزازی ڈگریاں ملیں، انہوں نے کبھی ڈاکٹر نہیں لکھا.
ایک پاکستانی بوتسوانہ کی حکومت کے مشیر ہوتے تھے. ہر سال پاکستان آتے تھے، اب عرصے سے نام نہیں سنا. انہوں نے ایک بار 125 افراد کو ان کی خدمات پر اپنے ملک کی یونیورسٹی کی طرف سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دینے کیلئے بہاولپور میں باقاعدہ کانووکیشن کیا. ہمارے دوست نصراللہ خان ناصر کو بھی شاعری یا نشریات پر یہ ڈگری ملی. کچھ عرصے بعد انہیں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ان کی سرائیکی شاعری پر تحقیق پر باقاعدہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی مل گئی. دونوں ڈگریاں ان کے ڈرائنگ روم میں لگی دیکھیں تو ڈبل فریم والی امبوسڈ پرنٹڈ اعزازی ڈگری کے مقابلے میں یونیورسٹی کی باقاعدہ ڈگری تو ردی کاغذ لگتی تھی
[مقالہ دوسروں سے لکھوا کر یا انڈیا کے مقالے کو آگے پیچھے کرکے پی ایچ ڈی کرنا ایک الگ موضوع ہے]
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر