نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتقام یا بدلہ افغانوں کی جبلت کا طاقت ور ترین رویہ ہے۔ یہ گماں لہٰذا احمقانہ خام خیالی ہوگا کہ طالبان اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد ان تمام افراد کو کھلے دل سے معاف کردیں کہ جو ان کی دانست میں گزشتہ 20برسوں سے انہیں دربدر کرنے والوں کے سہولت کار رہے۔ عام افغانوں کو اس حقیقت کا بخوبی احساس ہے۔ اسی باعث جو طیارے کابل ایئرپورٹ سے پرواز کو تیار تھے ان میں سوار ہونے کی ہر ممکن کوشش ہوئی۔ طیاروں میں داخلے کو ممکن بنانے والی سڑھیوں پر جو دھکم پیل ہورہی تھی اس نے 1975کے سائیگان کی یاد دلادی۔ امریکی صدر جوبائیڈن اگرچہ مصر رہا تھا کہ وہ ایسے مناظر کے امکانات دیکھ نہیں رہا۔اس ضمن میں اس کی جانب سے جاری ہوئے بیانات ڈرامہ بازی کے سوا کچھ نہ تھے۔
امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان نے واضح پیغام دیا کہ کابل کے قلب میں کئی بم پروف دیواروں کے ساتھ وسیع وعریض علاقے میں موجود سفارتخانہ جہاں عملے کی تعداد چار ہزار کے قریب بتائی جارہی تھی فی الحال بند کردیا گیا ہے۔برطانیہ نے بھی اپنے سفارتی عملے کے بارے میں ایسا ہی رویہ اختیار کیا۔امریکہ اوربرطانیہ کو اگر یقین ہوتا کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد حالات معمول کے مطابق رہیں گے تو ایسے اقدامات ہرگز نہ لئے جاتے۔ جنگوں کی شدت کے دوران بھی ان میں ملوث ممالک میں موجود غیر ملکی سفار تخانے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔سفارت خانہ بند کردینا انتہائی غیر معمولی صورت حال کی نشاندہی کرتا ہے۔دوحہ میں طویل مذاکرات کے بعد طالبان سے ہوئے معاہدے کے باوجود امریکہ کا کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کردینا واضح پیغام دیتا ہے کہ اسے آنے والے کئی دنوں تک افغانستان میں امن واستحکام کی امید نہیں ہے۔اس کے سوا جو بھی بیانات ہیں محض دونمبری ہیں۔
کابل کے صدارتی محل کی جانب پیش قدمی سے قبل طالبان نے بگرام اور پل چرخی میں موجود جیلوں کے تمام قیدی بھی رہا کردئیے۔ سنگین جرائم کی وجہ سے گرفتار ہوئے افراد کی بے تحاشہ اکثریت اب لوٹ مار میں ملوث ہورہی ہے۔جن افراد کو ’’القاعدہ‘‘ ٹھہراتے ہوئے شدید تشدد کے بعد جیلوں میں ڈالا گیا تھا وہ انتقام کی آگ سے بے چین ہوئے اپنے پر ’’ظلم‘‘ کرنے والوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔کابل کے باسیوں کا فی الوقت کوئی والی وارث نہیں۔طالبان کو امن وامان کا مستحکم نظام قائم کرنے کے لئے وقت درکار ہے۔ان کی اکثریت ویسے بھی جنوبی افغانستان کے دیہات سے تعلق رکھتی ہے۔ ’’شہری‘‘ مزاج کو بھرپور انداز میں سمجھنے اور خود کو اس کے مطابق ڈھالنے کے لئے انہیں بہت دیر لگے گی۔ان کی قیادت کی جانب سے صبر وحوصلہ کے تقاضے فی الوقت کسی کام نہیں آئیں گے۔
کابل جس انداز میں طالبان کے روبرو ڈھیر ہوا ہے وہ ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔اس کی بدولت خود کو دنیا کی واحد سپرطاقت کہلواتا امریکہ یقینا ذلیل ورسوا ہوا ہے۔میرے جیسے خود کو بے بس ولاچار محسوس کرتے بے تحاشہ افراد امریکہ کی ذلت سے ٹویٹر پر بڑھکیں لگاتے ہوئے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ تلخ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ امریکہ اپنی ذلت کبھی فراموش نہیں کرتا۔ جاپانیوں نے اس کے ساتھ پرل ہاربرکیا تھا۔کئی برسوں کے بعد اس نے جاپان کے دوشہروں پر انسانی تاریخ میں پہلی بار ایٹم بم برسا کراپنا حساب برابر کردیا۔ جاپان کے بادشاہ نے اگرچہ اپنی شکست تسلیم کرنے کے بعد اپنی فوج کو ہتھیار ڈالنے کے احکامات جاری کردئیے تھے۔ 1975سے سائیگان کا بدلہ اس نے سوویت یونین پر ’’افغان جہاد‘‘ مسلط کرتے ہوئے لیا تھا۔دیکھنا ہوگا کہ افغانستان میں اپنی تازہ ہزیمت کا ذمہ دار وہ کسے ٹھہرائے گا۔ یہ طے ہوگیا تو ایک اور درد ناک کہانی کا آغازہوجائے گا۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر