عصمت اللہ شاہ سے مل کر خوشی ہوتی ہے ۔ شاہ صاحب دھیمے مزاج کے مخلص انسان ہیں ۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ کو ئی ان کی وجہ سے پریشان نہ ہو، کسی کو تکلیف نہ ہو ۔ میں نے انہیں ایک ہمدرد دوست کے طور پر دیکھا ہے۔
ان کی اب تک چار کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ 2008ء میں ” سوجھل قصے” ( سرائیکی لوک کہانیاں) 2018ء
میں ( سرائیکی وسیب کی لوک کہانیاں ) ہمارے سامنے ہے۔
عصمت اللہ شاہ
میں عصمت اللہ شاہ کے ادبی سفر سے واقف ہوں ۔ علمی اور ادبی جستجو میں انہیں سرگرم دیکھا ہے ۔ کتاب سے ان کی دلچسپی اور محبت اس بات کا ثبوت ہے کہ جو بتی انہوں نے اپنے اندر روشن کررکھی ہے ۔ اب اس کی روشنی علم و دانش کے گوہر منور کر رہی ہے ۔
عصمت اللہ شاہ 15دسمبر 1969ء کو مخدوم عالی ضلع لودھراں میں پیدا ہوئے ۔ 2000ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے ایم اے اردو ،2005ء میں ایم اے سرائیکی کیا ۔ ان دنو ں وہ پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ وہ گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور میں اسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔ اور شعبہ سرائیکی کے صدر ہیں ۔ اخبارات اور رسائل میں ان کی تحریر یں اکثر شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ وہ اپنی تحریروں میں سرائیکی تہذیب اورثقافت کو اجاگر کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ عصمت اللہ شاہ ”تذکار فرید” ملتان اور ماہنامہ ”تعلیمی اصول” لودھراں کی ادارت بھی کرتے رہے ۔ وہ بہاول پور ریڈیو میں ایک سرائیکی ادبی پرو گرام ” پھوار”کر تے ہیں ۔ ان کی ادبی خدمات کا اعترا ف بھی کیا گیا ہے ۔
وہ ” سرائیکی وسیب کی لو ک کہانیا ں ” کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔
” لو ک ادب اب کسی قوم تہذیب و ثقافت کا سچا عکاس ہے ۔ سرائیکی ، وادی سند ھ کی قدیم ترین زبان ہے اور اس زبان کااصل سرمایہ ہی اس کا لوک ادب ہے ۔ یہی لوک ادب اس کی قدامت کادستاویزی ثبو ت ہے ”۔
یہ لو ک ادب ہی ہے جس سے تہذیبوں کا سراغ ملتا ہے ۔ اور ہم لو گوں کے رہن سہن ، عادات و اطوار کے ساتھ مرنے جینے کی رسموں سے واقف ہو تے ہیں ۔ اس سے خطے کے لوگوں کے مزاج کا پتہ چلتا ہے ۔ لوک ادب کے حوالے سے عصمت اللہ شاہ کی رائے قابل اعتبار ہے ۔ ” یو ں تو لفظ ”لوک ” سے مراد انسان ، آدمی ، بشر ، مرد، عالم ارواح ، دنیا عالم، جہان ہو تے ہیں ۔ لیکن اردو ادب میں لو ک ادب سے مراد نچلے طبقے کے ذریعے خلق کیا گیا وہ ادب ہو تا ہے ۔جس کا تعلق قدیم قبائلی نظام اور اس میں موجود رسم و رواج ، بولی ٹھولی ، تیج تہوار اور مذہبی رسومات وغیرہ سے ہو ۔ لوگ اد ب انسان کے ذہنی ارتقاء کا علامیہ ہے ۔ توہمات کی ذہنی ارتقامیں ایک خا ص مقام حاصل ہے اور ان توہمات سے ابھرنے والے خاص احساس اور آزادی کی جستجو نے لو ک ادب کو جنم دیا ۔ لو ک ادب سے موضوعات کا تعین ایک مشکل کا م ہے ۔ لیکن ہمارے دائرہ نظر میں جو موضوعات ہیں ۔ ان میں کائنا ت کی تکوین ، اس کے نظم و ضبط ،دیوتاؤں کی پیدائش ، ان کی تخلیق ، دیوی دیوتاؤں کی محبت ،نفرت ہے۔ بے پناہ عشق رقابت،بغض ، کینہ ، عنا د، سازشیں اور عذاب و عتاب وغیرہ شامل ہیں۔
لوک ادب کی ابتداء انسانی زندگی کے ارتقاء کے ساتھ ہوئی۔ لو ک ادب انسانی وجود کے طویل عرصے پر پھیلے ہوئے احساسات اور تجر باتی سفر کی روداد ہے ۔ ایک طویل عرصے تک یہ سب کچھ سینہ بہ سینہ چلتارہا۔ تحریر کی صورت اس وقت ممکن ہوئی جب رسم الخط وجود میں آیا ”۔ (” لوک ادب ” ڈاکٹر سید محمد یحیٰ صبا)
” اردو میں لوک ادب ” مرتبہ پروفیسر رئیس ( مطبوعہ جنوری 1990ء ) میں 22 اعلیٰ مقالے شامل ہیں ۔ جن کے مطالعے سے وسعت نظر ملتی ہے ۔ لوک ادب پر پاکستانی ادبی اداروں نے بھی بہت سے کا م کیے ۔ ” لو ک ورثہ ” کے نام سے ایک ادارہ قائم ہو ا ۔ جس کا گرانقدر تحقیقی کام ہے ۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق نے سرائیکی گیت مرتب کیے ۔ یہ غالبا ً سرائیکی ادب پر پہلی کتا ب ہے ۔اس کے عبداللہ عرفان نے ” ناتھ جی ” کے نا م سے ایک لوک داستان رقم کی ۔ شوکت مغل نے سرائیکی واروں پر بہت کام کیا ۔ اس موضو ع پر شفیع عقیل کی کتاب ” پنجابی لوک داستانیں ” بھی اہم ہے۔ لوک ورثہ ، انجمن ترقی اردو اورنیشنل بک فاؤنڈیشن نے تہذیب و ثقافت کو نمایاں کرنے میں خدمات سرانجام دیں۔
عصمت اللہ شاہ لکھتے ہیں ۔
” جب میں نے نانی دادی اوراماں کے علاوہ دیگر بزرگوں کی کانو ں میں رس گھو لتی آوازوں سے ایسے کئی قصّے سنے جن کے کرداروں کی مانوس شناسائی اب میری یادوں میں مجسم ہوچکی ہے۔ ممکن تھا کہ میں ان بزرگوں کی دی گئی امانت اپنے سینہ میں لیے منوں مٹی تلے دب جاتا مگر اس امانت نے خود مجھے مجبو رکیا کہ میں اسے آنے والی نسلوں تک منتقل کر کے سرخرو ہو جاؤں”۔
یقینا وراثت منتقل کر نا ہی سرخرو ہونا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ تمام کہانیوں پر بات ہو ۔ اور اگر اقتباس پیش کیے جائیں تو بات سمجھ نہیں آئے گی ۔ اس لیے اس کتاب سے دو مختصر کہانیوں ” کتے کی وفاداری ” اور” گیدڑ کی سرداری” کا انتخاب کیا ہے ۔ ان کی کہانیوں سے وفاداری اورحاکمیت کی رمزیں سمجھ آتی ہیں۔ ان میں دانائی اور حکمت موجود ہے ۔ ان میں سوچنے کی انداز کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ وہ دانش ہے جس نے صدیوںکا سفر کیا اور اب اس نسل تک پہنچ گئی ہے ۔
پہلی کہانی:۔
‘ ‘ کتے کی وفاداری”
ایک جاٹ ہند و بنیے سے ادھا ر لیتا رہا ۔ قرض جب بڑھ گیا تو بنیے نے مزید ادھار دینا بند کردیا اور پچھلی رقم کا تقاضا کرنے لگا ۔ جا ٹ کی فصل اچھی نہ ہوئی۔ وہ ادھار کی رقم کہاںسے ادا کرتا ۔ جب بنیا دوچار چکر لگا چکا تو جاٹ کہنے لگا۔ جناب میرے پاس اب تو پیسے ہیں نہیں ” بنیا کہنے لگا ۔ ” چلو اگر پیسے نہیں تو اپنا یہ پالتو کتا ہی دے دو”۔ جاٹ نے کتا پکڑ کر اسے دے دیا۔کچھ دنوں بعد بنیے کی چوری ہوگئی۔ چو ر سامان اٹھا کر لے گئے تو کتا بھی ان کے پیچھے ہولیا ۔ انہوں نے جس جگہ چوری کا سامان دفن کیا کتا وہا ں پنجے مار کر چلا گیا ۔ صبح جب بنیا جاگا تودیکھا کہ سارامال اسباب چور لے گئے ہیں ۔ اسی دوران کتا گھر آچکا تھا۔
وہ بھا گ بھا گ کر بنیے کے قدموں میں لو ٹ پوٹ ہوجاتا اور ایک طر ف منہ کر کے بھونکنے لگتا ۔ بنیے نے سوچا کہ کو ئی بات ضرور ہے۔ وہ کتے کو لے کر باہر آگیا۔ اب کتا آگے آگے اور بنیا پیچھے ۔ کتا اسے عین اسی جگہ لے آیا جہاں چوروں نے سامان دفن کیا تھا ۔ کتا وہاں پہنچ کر زمین کو پنجوںسے اکھاڑنے لگا ۔ کھودنے پر چوری شدہ سامان نکل آیا ۔ بنیے نے وہ سامان اکٹھا کیا او رگھر لے آیا ۔ اب اس نے ایک چٹھی لکھی او ر کتے کی گردن میں باند ھ کر اسے چھوڑ دیا ۔ کتا سیدھا اپنے مالک جاٹ کے گھر آگیا۔ جاٹ نے اسے آتے دیکھا تو سوچا کہ بنیا مجھ سے لڑے گا۔
اس نے کتے کو ڈانتے ہوئے کہا ۔ ” لعنت ہے تم پر ، تم نے اچھا نہیں کیا تم تو بے وفا نکلے ۔ کتا سنتے ہی منہ کے بل گرا اور صدمے سے مر گیا ۔ یہ دیکھ کر جاٹ اس کے قریب آیا او ر اس کے گلے میں بندھی چھٹی پر نظر پڑی ۔ اسے کھو ل کر دیکھا تولکھا تھا۔ ” بھائی جاٹ ‘ تمہارے اس وفادار کتے کی بدولت مجھے میر ا چوری شدہ مال واپس مل گیا جو کہ تمہارے قرضے سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ اس لیے اس کتے نے تمہارا قرض کئی گنا سمیت واپس کر دیا ۔ شکریہ کے ساتھ سے تمہیں واپس کررہا ہوں ۔ ” جاٹ نے جب یہ پڑھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے مگر اب کیا ہوسکتا ہے”.
اس کہانی میں دو باتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ جس کو ہم بہت حقیر اور کمتر خیال کرتے ہیں وہ ہم پر کوئی بڑا احسان بھی کر سکتا ہے ۔ یہاںتک کتے کومثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس نے مقروض کو اس کے قرض سے آزاد کرایا ۔ دوسری یہ کہ ہمیں کسی کی وفاداری پرشک نہیں کرنا چاہیئے ۔ اس حوالے سے ایک موثرکہانی ہے۔
دوسری کہانی:۔
” گیڈر کی سرداری ”
پرانے زمانے کی بات ہے ایک دن گیدڑ نے سوچا کہ باقی جنگل کے جانوروں کے تو سردار ہیں لیکن ہمارا کوئی سردار نہیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہم بھی اپنا ایک سردار بنالیں ۔ جو ہمارے جھگڑوں کے فیصلے بھی کرے اور ہماری دیکھ بھال اورحفاظت بھی۔یہ سوچ کر انہوں نے جنگل کے سارے گیدڑ وں کو دعوت دی ۔ اب جنگل کے سارے گیدڑ اکٹھے ہو گئے۔ اور اپنا سردار چُننے لگے ۔ خا صی بحث وتمحیص اور شور شرابے کے بعدآخر کا ر ایک سردار چن لیا گیا ۔ اب کسی نے صلاح دی کہ چلو سردار تو منتخب ہوگیا ہے ۔ اب اس کی کوئی خاص نشانی بھی ہونی چاہیے ۔ تاکہ جہاں سے گزرے دوسرے گیدڑوں کو پتہ چل جائے کہ یہ ہمارا سردار جارہاہے۔اب صلاح مشورے ہونے لگے ۔ کسی نے کہا اسے تاج پہنا دیاجائے۔ کو ئی ٹوپی پہننے کی صلاح دینے لگا ۔ کسی نے کہا با ل منڈوا دیئے جائیں لیکن ایک بزرگ کی صلاح سب کو پسند آئی ۔ کہ سردار کی دم کے ساتھ چھاج باندھ دیاجائے یہ ایک واضح نشانی ہوگی ۔ سو نو منتخب سردار کی دم کے ساتھ چھاج باندھ دیا گیا
اب وہ جہاں سے بھی گزرتا،چھاج پیچھے گھسٹتی اور آواز آتی چلی جاتی ، کچھ دن تو بڑے مزے سے گزر گئے ایک دن سردار صاحب اپنے خاص مصاحبوں کی ٹولی کے ساتھ معمول کے گشت پر نکلے ہوئے تھے کہ چند آوارہ کتے ان کے پیچھے لگ گئے ۔ سب جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے سردار بھی اپنے چھا ج کو گھسیٹتے ہو ئے بھا گنے لگا ۔ باقی سب تو کسی نہ کسی طرح بل میں گھس گئے مگر جب سردار گھسنے لگا تو چھاج پھنس گیا ۔ اس خاصا زور لگایا مگر کسی طور پر بھی اندر نہ جا سکا ۔ اب کتے بھی سر پر پہنچ گئے ۔ مگر سردار گیدڑ لا کھ کو شش کے باوجود بھی اندر نہ جا سکا۔اب کتے بھی سر پر پہنچ گئے تھے ۔ مگر سردار گیدڑ لا کھ کو شش کے باوجود بھی اند ر نہ جا سکتا تھااور نہ واپس پیچھے نکل کر کہیں اور بھا گ سکتا ہے ۔ اند ر موجود گیدڑوں نے کہا کہ ” سردار صاحب ،اندر آجائیں ۔ مگر سردار صاحب روہانسی صورت بنا کر کہنے لگے۔ ” بھائیو ! میں تو پوری کو شش کررہا ہوں کہ کس طرح اند ر آجاؤں مگر یہ سرداری اندر نہیں آنے دیتی ”۔
اس کہا نی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جو بات وجہ تفاخر ہوتی ہے وہ ذلت اور رسوائی کے باعث بھی ہو سکتی ہے ا ور بزدل قوم کا سردار کبھی بہادر نہیں ہو سکتا۔
ان کی کہانیوں سے ہمیں جگہ جگہ لوک دانش ملتی ہے ۔ اگر انہیں ذہن نشین کرلیاجائے ۔ تو آدمی بہت سے پریشانیوں سے محفو ظ رہ سکتے ہیں ۔ یہ باتیں ہمیں تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملیں گی ۔ یہ کہانیاں ہمارے رہن سہن اور مزاج سے تعلق رکھتی ہیں۔اس لیے ہمیں اپنے قریب کی کہانیاں معلو م ہوتی ہیں ۔
عصمت اللہ شاہ نے جو اسلوب اردو میں اختیار کیا ہے ۔ وہ بہت سہل اور عام فہم ہے ۔ اس کو سمجھنے میں کو ئی دشواری پیش نہیں آتی ۔ یہ کامیاب کو شش ہے ۔ شاہ صاحب سے توقع رکھنی چاہیے کہ وہ وسیب کے حوالے سے اور بہت سے کام کریں گے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر