گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ میں ساون کا زور شور جاری ہے ۔گزشتہ رات چار بجے گرج چمک کے ساتھ خوب بارش ہوئ ۔اس وقت گہرے بادل چھائے ہیں اور ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔دریا سندھ میں بھی کافی پانی ہے۔ ساون کے اس مہینے بارش کے بعد ہم کھنمبیاں اکٹھی کرتے تھے جو اب نظر نہیں آتیں۔
کھنبیاں بلا شبہ ساون کے مہینے ہماری خوراک کا حصہ تھیں۔ جب ساون کی زور دار بارش ہوتی ہم لڑکے صبح سویرے نرم زمین کے ٹکڑوں خصوصا” پراسوں درخت کے نیچے تلاش کرتے اور جھولی بھر کے گھر لے آتے۔ ہمارے ہاں دو قسم کی تھیں ایک قلفی نما جو پکائی جاتیں دوسرے چھتری نما ہم ریجیکٹ کر دیتے کہ زہریلی ہیں۔ کھنمبی بنانے کا سالن انڈوں کی طرح پکایا جاتا۔پیاز کاٹ کے مسالے میں بھون لیتے اور کھنمبیوں کے ٹکڑے کر کے ڈال دیتے۔ مزیدار سالن تیار ہو جاتا۔ دیہی علاقوں کے لڑکے کھنمبوں کا ہار بنا کر شھر بیچ دیتے اور کچھ رقم کماتے۔مگر اب پراسوں کے درخت اینٹوں کے بھٹے کھا گئیے ۔کھنمبیاں کہاں سے آئیں ہمارے بچوں نے تو دیکھی بھی نہیں۔ چارسدہ میں ان کی کاشت ہوتی ہے مگر وہ کوئی اور قسم کی ہیں۔ بازار میں ڈبوں میں چائنا کی کھنمبیاں مل جاتی ہیں مگر ہمارے والا ذائقہ نہیں۔لوگ کھنمبی کا پانی نکال کر قطرے آنکھ میں ٹپکاتے جس سے بیماریاں دور ہوتی تھیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ