ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ کالم میں ہم بات کر رہے تھے گیس لائٹنگ پہ جو اختیار اور طاقت کے کھیل کا ایک اہم ہتھیار ہے۔
فلم گیس لائٹ میں ہیروئن انگرڈ برگمین اور شوہر کے درمیان ایک اور مکالمہ دیکھیے جس میں ہیروئن پہ اپنا اختیار قائم رکھنے کے لئے بے بنیاد الزامات پہ شرم دلا کے اسے احساس جرم میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔
"تم یقیناً مایوس ہوئی ہوں گی جب تم اس شخص سے بات نہیں کر سکیں”
"کون؟”
"وہی، جو ہمارے پیچھے بیٹھا تھا”
"کہاں؟”
"آج رات پارٹی میں….. جہاں تم جانا چاہتی تھیں کیونکہ تمہیں علم تھا کہ وہ وہاں ہو گا”
"کیا؟ …. کون؟ …کون؟”
"وہی شخص جو اس دن تمہیں رستے میں ملا تھا اور تم مسکرائیں تھیں۔ کون ہے وہ ؟… ماضی کا کوئی دوست؟ کوئی اس ایسا دوست جسے شاید اس وقت تم نے ٹھکرا دیا ہو؟”
“میں اس سے کبھی نہیں ملی۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ وہ کون ہے؟”
“کون ہے پھر وہ آخر؟ کیوں تمہارے قریب آنے کی کوشش کر رہا ہے؟”
“میں کچھ نہیں جانتی”
ہیروئن مسلسل گھگھیا رہی ہے اور شوہر کی آواز اور لہجہ تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔
“تم جھوٹ بولتی ہو؟ تم مجھ سے جھوٹ کیوں بول رہی ہو؟”
“میں نے تم سے کبھی جھوٹ نہیں بولا”
“تم جھوٹ سے بھی بدتر باتیں کرتی ہو”
ملاحظہ کیا آپ نے، ہیروئن مسلسل حیران و پریشان ہو کے اپنا دفاع جبکہ شوہر اپنے اختراع کردہ جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کر کے عورت کے ذہنی توازن سے نہ صرف چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے بلکہ اس کی بات پہ یقین نہ لاتے ہوئے اس کو غیر اہم ثابت کر رہا ہے۔
گیس لائٹر کا سب سے بڑا حربہ معمولی باتوں کو بڑھا چڑھا کے پیش کرنا ہے تاکہ اس کی آمرانہ فطرت کی تسکین اور اپنی کمزوریوں اور غلطیوں سے توجہ ہٹی رہے۔ تنقید، طنز اور بے بنیاد الزامات کے تابڑ توڑ حملے دوسرے فرد کو ایک ایسی ذہنی تھکاوٹ میں مبتلا کرتے ہیں جسے “گیس لائٹ فیٹیگ” کہا جاتا ہے۔
شکار ان الزامات کے جواب میں اپنا دفاع یا شکوک وشبہات پہ اپنی صفائیاں پیش کر کے اس حد تک نڈھال ہو جاتا ہے کہ اپنے احساسات اور جذبات کو منجمد کرتے ہوئے اس ذہنی و جذباتی تشدد کو ایک سوئے ہوئے ذہن کے ذریعے برداشت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ حقیقت اور جھوٹ کی ملاوٹ سے دھندلایا ہوا ذہن اپنے آپ کو اس قدر لاچار محسوس کرتا ہے کہ گیس لائٹر کا بنایا ہوا حصار توڑنے کی جرات اور کوشش ہی نہیں کر پاتا۔
گیس لائٹ اذیت سے گزرنے والی عورت کی بزدلی یا کم ہمتی کی ایک بڑی وجہ گیس لائٹر کا خطرناک حد تک تشدد پسند ہونا ہے۔ اور خاص طور پہ اس وقت جب شکار احتجاج کرتے ہوۓ گیس لائٹر کی غلطیوں اور زیادتیوں کی نشاندہی کرنا چاہے۔ گیس لائٹر کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کا دفاع نہیں کر سکتے سو وہ کسی بھی قسم کے تشدد کو دوگنا یا کئی گنا بڑھا کے شکار پہ اپنا تسلط قائم رکھتے ہیں۔
گیس لائٹر کا ایک اور حربہ شکار کو تنہا کرنے کا ہے۔ دوست احباب سے کنارہ کشی کی نصیحتیں اور پھر اس پہ عمل کروانا،
” شادی کے بعد میرے ساتھی نے مجھے کہا کہ اس کو میرے دوستوں سے ملنا انتہائی ناپسند ہے”
” میں اپنے ساتھی کی موجودگی میں اپنے دوست سے فون پہ لمبی بات نہیں کر سکتا/ سکتی تھا/ تھی”
"ساتھی کی مرضی کے بغیر میں کسی ہمسائے سے نہیں مل سکتی تھی”
گیس لائٹر کی ایک اور خصوصیت گیس لائٹ کی آنچ پر رکھی عورت سے بلامشروط اطاعت کی بھوک ہے۔ بغیر کسی سوال و جواب کے جھکا ہوا سر اور اثبات میں ہلتی گردن ان کی زہریلی انا کو بے انتہا سکون بخشتی ہے۔ گیس لائٹ کا شکار بننے والی کو ارزاں اور اپنے آپ کو ناخدا ظاہر کرنا ہی ان کے وجود اور ذہنیت کی بقا کے لئے اہم ہے۔
” میرا ساتھی کہتا/ کہتی ہے کہ اسی کی ہمت ہے کہ وہ مجھے برداشت کر رہا/ رہی ہے”
” میرے ساتھی کا کہنا ہے کہ میں اس قابل ہی نہیں کہ کوئی مجھے چاہ سکے”
کبھی کبھار گیس لائٹر، شکار کی منت سماجت سن کر اس سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اب اس پہ ذہنی، جذباتی یا جسمانی تشدد نہیں کرے گا۔ ایسا کرنے سے گیس لائٹی دل میں ایک امید جگا لیتی ہے کہ بالآخر اس کی نیک نیتی، وفاداری اور پیار نے گیس لائٹر کو اس کا متشدد رویہ بدلنے پہ مجبور کر دیا۔
یاد رکھیے، یہ بدلا ہوا رویہ بھی گیس لائٹر کی اس سٹریٹجی کا حصہ ہے جس میں اسے گیس لائٹی کا اپنے تسلط سے آزاد ہونا گوارہ نہیں۔ یہ وعدے وعید کسی بھی موقع پہ پانی بن کر بہہ جاتے ہیں اور گیس لائٹر اپنی جون میں واپس آ جاتا ہے۔
گیس لائٹر کا پہلا اور آخری منشا طاقت اور اختیار کا حصول ہے، اس کے لئے ہر حیلہ اور حربہ روا رکھنا جائز سمجھا جاتا ہے۔ متواتر پروپیگنڈہ اور برین واشنگ گیس لائٹی کو اس موڑ پہ لے آتی ہے جہاں اس کے لئے سر تسلیم خم کیے بنا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
صاحبان دانش! ایک بات سمجھ لیجیے اگر کوئی بھی فرد آپ سے برا سلوک کرتا ہے تو اس کا ذمہ دار وہ ہے، آپ نہیں۔ نارمل انسان دوسروں کا ذہنی سکون چھین کے ان کی زندگی کو آبلہ پا نہیں کیا کرتے!
( اس مضمون کی تیاری میں پروفیسر پریسٹن نی کے مضامین سے مدد لی گئی)
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر